تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار

پیش لفظ (طبع اوّل)

۲۲؍ ستمبر ۱۹۶۳ء کو کراچی میں ادارئہ معارف اسلامی (Islamic Research Academy) کی افتتاحی تقریب میں ادارے کے بانی صدر نشین (Founder Chairman) حضرت مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اہلِ علم و دانش کے سامنے ایک یادگار اور رہنما تقریر فرمائی تھی۔ یہ تقریر وقت و حالات کے دبیز پردوں میں گم ہوگئی تھی۔ لیکن ہمارے کتب خانے میں اس کا ایک نسخہ موجود تھا۔ ہم نے اس تقریر پر نظر ڈالی تو محسوس ہوا کہ یہ آج بھی اتنی ہی تازہ‘ فکرانگیز اور چشم کشا ہے‘ جتنی ۱۹۶۳ء میں تھی۔ افسوس کہ سید محترم کے یہ ارشادات دل و نظر سے اترگئے یا ہم ان سے غافل رہے۔ اسی احساس کے پیش نظر ہم یہ قیمتی دستاویز ازسرِ نو شائع کرکے ملت اسلامیہ کے صاحبان فکر و نظر اور اہلِ علم و دانش کی نذر کررہے ہیں۔ اس غیر مبہم‘ شفاف اور صاف گو آئینہ کے روبرو ہم صورت حال کودیکھ اور سمجھ سکتے ہیں اور اگر اللہ توفیق دے تو اقدامات بھی کرسکتے ہیں۔

سیّد مودودیؒ نے نہ صرف مذکورہ بالا تقریر میں‘ بلکہ اپنی تحریروں میں بھی جابجا یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں کوئی قوم‘ گروہ‘ ملت‘ تحریک اس وقت تک نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ اپنا مقام برقرار رکھ سکتی ہے‘ جب تک کہ اس میں علم وفکر اور تحقیق و جستجو کی خو نہ ہو‘ ذوق نہ ہو اور وہ اسے اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست نہ رکھے۔ علم و تحقیق سے خالی گروہ اور قوم کھوکھلی اور بودی ہوتی ہے۔ نہ اس کا کوئی وزن ہوتا ہے اور نہ اس کا دیرپا اثر۔

بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کئی صدیوں سے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے میدان سے باہر ہے اور آج کی استعماری و استبدادی قوتیں اسے سمجھا بھی رہی ہیں کہ یہ میدان اس کے بس کا ہے ہی نہیں۔ ’’یہ کام ہمارا ہے‘ ہمارے بس میں ہے اور ہم ہی کو زیب دیتا ہے۔ آپ تو بس صارف (Consumer) بن کر رہیں یا ہمارے فرمودات کی جُگالی کا افتخار حاصل کریں‘‘۔ اسی لیے آج ہمارے ملک کی جامعات محض درس گاہیں (Schools) بن چکی ہیں‘ یہ مراکز تحقیق نہیں ہیں۔ تحقیق کے نام پر قائم سرکاری ادارے بھی بے سمت‘بے روح‘ بے جان اور بے کار ہوچکے ہیں۔ نجی طور پر قائم تحقیقی اداروں کا تو اب جینا بھی محال کردیا گیا ہے۔ ادارئہ معارف اسلامی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں‘ جو قلتِ مردانِ کار اور تنگیٔ وسائل کا شکار ہے۔

ہمارے معاشرے میں ذوقِ علم و آگہی تو پہلے بھی کم ہی تھا۔ اب زرپرستی‘ فکری جمود پر اصرار اور ناک سے آگے نہ دیکھ سکنے کے مرض نے اس کمیاب ذوق کا گویا قلع قمع کردیا ہے۔ جب کہ بیرونی امداد کے سہارے تحقیق کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ مغربی افکار و اقدار کی بھنگ گھوٹنے اور ہمارے جسدِ ملّی میں انڈیل دینے کی کاوش کے سوا کچھ اور نہیں۔ اسے فکری تشدّد کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ لیکن اس ’’فکری بدراہی‘‘ کا مقابلہ جنہیں کرنا چاہیے‘ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کررہے ہیں؟ بلکہ انہیں اس ضرورت کا کماحقہ احساس بھی ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اور خصوصاً اس میں برپا اسلامی قوتیں اپنے مردان کار اور دستیاب وسائل کا کوئی قابلِ لحاظ حصہ علم و تحقیق و جستجو کی نذر بھی کررہی ہیں یا یہ کام بھی فرشتوں کے سپرد سمجھ لیا گیا ہے؟

اسلامیوں کی پچھلی نسل نے الحاد و اشتراکیت اور سیکولراِزم کا مقابلہ صرف سیاسی طور پر نہیں کیا تھا‘ بلکہ علم و نظر اور دلیل و برہان کے میدانوں میں بھی محسوس پیش رفت کی تھی۔ اس جدوجہد کی کامیابی اس صورت میں نظر آئی کہ اسلام زندگی کا محض ایک شعبہ‘ ایک نجی اور محدود معاملہ نہیںرہا۔ یہ ہیئت اجتماعیہ کا محور بلکہ خود ’’زندگی‘‘ بن گیا‘ اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ پوری زندگی… کم از کم نظری اور اصولی طور پر…!! یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا کوئی گروہ اور کوئی سیاسی پلیٹ فارم ایسا نہ رہا جو اسلام کو عدل اجتماعی کی بنیاد نہ کہتا ہو۔ یہ کامیابی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ بھی تھی اور اس کی پشت پر بالخصوص اس فکری و علمی جہاد کا سرمایہ بھی تھا جو سید مودودیؒ کی قیادت میں اس سرزمین پر برپا کیا گیا۔

تاریخ کا یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب مستقبل میں کسی نہ کسی کو دینا ہوگا کہ پھر آخر کیا ہوا کہ جو جنگ جیتی جاچکی تھی وہ دوبارہ کیوں درپیش ہوگئی ہے؟ ہماری مراد آج کے پاکستانی معاشرے کے فکری و نظری ابہامات سے ہے۔ بدقسمتی سے آج پھر ہمارے معاشرے کے موثر طبقات کے درمیان ہیئت ِاجتماعیہ میں اسلام کے مقام کی بحث چھڑ گئی ہے۔ آج پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کی تشکیل و کارفرمائی میں مذہب کا کیا اور کتنا عمل دخل ہوگا؟ اگرچہ کہ یہ بات اتنی واضح اور اتنے سادہ طریقے سے نہیں کہی جاتی۔ مگر طبقاتِ عالیہ (Elite Class) اور پالیسی امور پر حاوی ہیئتِ مقتدرہ کی طرف سے جو کچھ کہا اور اس سے بڑھ کر کیا جارہا ہے‘ وہ ہمارے معاشرے‘ ہماری ریاست اور پوری ہیئتِ اجتماعیہ کی سیکولرائزیشن کا عمل ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن‘ اس کی اقدار و افکار اور اس کا نظامِ ترجیحات ہمارے ہاں عملاً قبول کرلیا گیا ہے۔ قوم میں اس رَوش کی مخالفت جو کچھ بھی ہے‘ وہ زبانی ہے‘ سیاسی ہے‘ جذباتی ہے‘ سطحی ہے… جب کہ اس چیلنج کا مقابلہ علم و دانش‘ فہم و بصیرت‘ تحقیق و جستجو‘ دلیل و برہان اور اس کے پہلو بہ پہلو طویل و مسلسل سیاسی جدوجہد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ گویا ایک ہمہ پہلو چیلنج ہے‘ چومکھی لڑائی ہے۔ اس کا مقابلہ بھی ہمہ پہلو اور چومکھی حکمتِ عملی کا متقاضی ہے۔جب کہ اس راستے میں ایک بڑی چٹان فکری جمود اور تحقیق و جستجو سے گریز بھی ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے تہذیب حاضر کی فسوں کاری سے عام مرعوبیت ایک مصیبت ہے۔

طوالت سے بچنے کی خواہش کے باوجود ہم مزید عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آج کے تہذیبی و فکری چیلنجوں کا سامنا ہم اپنی فکر میں تازگی‘ قلب میں کشادگی اور رویوں میں شگفتگی پیدا کیے بغیر نہیں کرسکتے۔ یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکے گا جب تک ہمارے ذہین اور مالدار طبقات علمی و فکری و تحقیقی سرگرمیوں کی سرپرستی نہیں کریں گے۔ یہاں سرپرستی سے یہ بھی مراد ہے کہ اس محاذ پر پیسہ اسی طرح لگایا بلکہ بہایا جائے جس طرح اہل مغرب اپنی فکری پیش رفت کے لیے بے دریغ لٹارہے ہیں… اور سرپرستی میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے بچوں میں نسبتاً ذہین افراد کو اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے میدان کی طرف بھیجیں‘ خصوصاً عمرانی علوم (Social Sciences) کے لیے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہر خوشحال خاندان اپنے ایک لائق تر فرزند کو دینی و عمرانی علوم میں سے کسی ایک میں مہارت اور تحقیق و جستجو کے اعلیٰ مدارج تک رسائی کے لیے وقف کردے اور اس کے معاشی مفادات کو اپنی فیملی کے کاروبار میں پوری طرح محفوظ بھی رکھے تاکہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ علم و فکر کا بلند مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے؟ علم و فکر اور تحقیق و جستجو کا کام اپنے ہاں کی کم تر ذہنی استعداد رکھنے اور دال روٹی کے لیے بھی فکر مند رہنے والی ناآسودہ شخصیات کے سپرد کرکے ہم نہ مغرب کی ابلیسی تہذیب کا علمی و فکری توڑ کرسکیں گے اور نہ اسلام کی علم و دانش میں بھی برتری کا سکہ جماسکیں گے۔ ایسی کھلی اور بدیہی بات کے باوجود اگر کوئی مغرب کی ٹھوکر کھاکر ازخود گرنے اور اس کے نتیجے میں ملت اسلامیہ کے خود بخود ابھر آنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو تو اسے اس سحرستان (Fantasy) سے نکلنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔

اب سیّد مودودیؒ کی تقریر پڑھیے اور آئینہ ایام میں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے اپنے سلوک کا جائزہ لیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے وہ کام لے لے جو روئے زمین پر اسلامی تہذیب کے ہمہ جہت غلبہ پر منتج ہو اور آخرت میں ہمیں اس کی رحمت و مغفرت کے سائے میں جگہ ملنے کا سبب بنے۔

سیّد شاہد ہاشمی

ایگزیکٹو ڈائریکٹر

اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘ کراچی


خطاب: مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ

(۲۲ ستمبر ۱۹۶۳ء… ناظم آباد نمبر ۱۔ کراچی)

حمد و ثنا کے بعد۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہوچکا ہے‘ یہ اجتماع اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ ادارئہ معارف اسلامی (Islamic Research Academy) کے کام کا آغاز کرتے ہوئے ہم اپنی قوم کے سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے اسے متعارف کرائیں اور ان کی تائید اور ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس موقع پر میں یہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے مختصر طور پر یہ بتائوں کہ اس کام کی اہمیت اور اس کی ضرورت کیا ہے اور پھر ہمارے پیش نظر جو کام ہے اس کی نوعیت کیا ہے اور یہ کہ کس کس قسم کے کام ہم اس سلسلے میں کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا میں جتنے علوم و فنون ہیں وہ سب درحقیقت دو حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں‘ ایک حصہ تو خالص ان معلومات پر مشتمل ہوتا ہے جو انسان کو دنیا اور اس کی زندگی اور خود اس کی اپنی زندگی کے متعلق مختلف زمانوں میں حاصل ہوتی ہیں اور دوسرا حصہ اس چیز کا ہوتا ہے کہ حاصل شدہ معلومات کو ہرگروہ اور ہر قوم اپنے ذہن اور اپنے طرز فکر اور اپنے نقطۂ نظر کے مطابق مرتب کرتی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ روئے زمین پر جو غذا کا سامان پھیلا ہوا ہے وہ تو قریب قریب مشترک ہے‘ بجز اُن فرقوں کے جو جغرافیائی اعتبار سے ہوتے ہیں۔ ورنہ ایک ہی قسم کا مواد انسان کی غذا کے لیے اس زمین پرموجود ہے۔لیکن ہر قوم کے لوگ اپنے اپنے مزاج کے مطابق اسی مواد کو اپنے اپنے مخصوص طریقوں سے پکاتے ہیں اور اپنے لیے مختلف شکلوں کی غذائیں تیار کرتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ علمی معلومات کا بھی ہے کہ جہاں تک حقائقِ اشیا کا تعلق ہے یعنی جو کچھ دنیا میں موجود ہے‘ ان میں کوئی فرق نہیں۔ فرق اُس صورت میںواقع ہوتا ہے کہ ان معلومات کو جمع اور مرتب کرنے والا ذہن جس طرز پر سوچتا ہے اور جو نظریہ رکھتا ہے‘ اس کے مطابق ان کو مرتب کرکے کون سا فلسفۂ زندگی بناتا ہے‘ کیسا نظامِ فکر و عمل مرتب کرتا ہے اور اسی وجہ سے تہذیبوں کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ تمام دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں ہیں‘ وہ ان معلومات پر ہی مبنی ہیں جو اس کائنات کے متعلق انسانوں کو حاصل ہیں۔ لیکن ہر تہذیب نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ان معلومات کو مرتب کیا ہے اور اس سے ایک نظامِ فکر و عمل بنایا ہے۔ اسی نظامِ فکر و عمل کا نام ایک خاص تہذیب ہے۔ ہر تہذیب کے امتیازی خطوط اور امتیازی خدوخال اسی چیز کی بدولت پائے جاتے ہیں۔

اب اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی قوم ایسی ہو جو سوچنا اور تحقیق کرنا اور معلومات جمع کرنا اور نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دے تو وہ جمود میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ جمود کا نتیجہ آخر کار انحطاط ہوتا ہے اور انحطاط کا نتیجہ آخر کار اس پر کسی دوسری قوم کے غلبہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ پھر جب کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوجاتا ہے تو لامحالہ وہ قوم محض سیاسی اور معاشی حیثیت ہی سے غالب نہیں ہوتی بلکہ سب سے بڑھ کر اس کا غلبہ فکری حیثیت سے ہوتا ہے۔ یعنی اس کی تہذیب مغلوب قوم کی تہذیب پر غالب آجاتی ہے۔ اب اس کے بعد دوسرا مرحلہ اس مغلوب قوم کا یہ شروع ہوتا ہے کہ یہ دوسروں کی تقلید کرنا شروع کردیتی ہے‘ دوسروں کا پس خوردہ کھانا شروع کردیتی ہے۔ تحقیقات دوسرے کرتے ہیں‘ ان کو جمع دوسرے لوگ کرتے ہیں‘ ان کو مرتب کرکے ایک فلسفۂ حیات دوسرے لوگ بناتے ہیں‘ ایک نظامِ فکر و عمل دوسرے لوگ تیار کرتے ہیں اور یہ ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی ہر چیز کو قبول کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ عمل جتنا جتنا بڑھتا جائے گا اور جتنا جتنا تکمیل تک پہنچتا جائے گا‘ اس مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوتی چلی جائے گی‘ یہاں تک کہ یہ فنا بھی ہوسکتی ہے اور قومیں فنا ہوتی رہی ہیں۔ ایسی قومیں دنیا میں گزری ہیں جو اس طرح سے مٹیں کہ اب اُن کی تہذیب صرف تاریخ کا سرمایہ ہے اور دنیا میں کہیں ان کا وجود نہیں۔

اسلامی تحریک جب دنیا میں اٹھی تھی، اس وقت مسلمانوں نے دوسری قوموں پر محض سیاسی یا فوجی غلبہ ہی حاصل نہیں کیا تھا بلکہ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمان بھی اس وقت ایسے تھے جو تحقیقات کا کام کرنے میں سب سے پیش پیش تھے۔ جنہوں نے نہ صرف یہ کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی‘بلکہ ان معلومات کو اپنے نقطۂ نظر‘ اپنے طرزِ فکر اور اپنے عقیدے کے مطابق مرتب کیا۔ چنانچہ ایک ایسی غالب تہذیب اس کی بدولت وجود میں آئی جس کے رنگ میں دنیا رنگتی چلی گئی۔

کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے فنِ طب تک کو اس طرح سے مرتب کیا کہ طبی کتابوں کو آپ پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک عقیدہ رکھنے والی کسی قوم کی کتابیں ہیں؟ آغاز خدا کی حمد سے کریں گے۔ دوائیں اس طرح سے منتخب کریں گے کہ اس کے اندر حرام اجزا شامل نہ ہوں۔ حلال چیزوں سے نسخے مرتب کریں گے۔ جگہ جگہ بیچ میں بیان اس طرح سے کریں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے‘ ان دوائوں کے اصلی خواص ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں‘ بیماریوں کی شفا اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے اور ان دوائوں کا کارگر ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی بدولت ہے۔ نبض پر ہاتھ رکھیں گے تو بسم اللہ کہہ کر رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں گے کہ وہ رہنمائی فرمائے۔ یہ ساری چیزیں کیا ہیں؟ فی الحقیقت یہ ایک فن تھا اور وہی معلومات تھیں جو دنیا کا کوئی طبیب فراہم کرے گا۔ لیکن ان سب کو اپنی ذہنیت‘ اپنے عقیدے اور اپنے طرزِ فکر کے مطابق انہوں نے ڈھالا۔

میں نے طب کی مثال اس لیے دی کہ طب کے متعلق آدمی یہ سمجھے گا کہ اس کا کسی عقیدے سے کیا تعلق ہے؟ لیکن آپ دیکھیے کہ جب کوئی عقیدہ اور مسلک رکھنے والا گروہ ہوتا ہے تو وہ دنیا کی ہر چیز کو اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور وہی چیز پھر غالب ہوجاتی ہے۔

مسلمانوں کے اس کام کا اثر یہ ہوا ہے کہ صدیوں دنیا یہ سمجھتی رہی ہے کہ اگر تہذیب ہے تو مسلمانوں کی ہے‘ تمدن ہے تو مسلمانوں کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتے تھے‘ دشمنی رکھتے تھے‘ مگر تقلید انہی کی کرتے تھے۔ دنیا میں مسلمانوں نے شرک کی جڑ کاٹ دی تھی اور توحید کو اس قوت کے ساتھ پھیلایا اور توحید کی اساس پر ایک نظامِ فکر اس قوت کے ساتھ مرتب کیا کہ مشرکین کے لیے یہ کہنا مشکل ہوگیا کہ شرک ہی حق ہے۔ وہ مشرکین جو کبھی کہا کرتے تھے کہ اَجَعَلَ الاٰلِھَۃَ اِلٰھاً وَّاحِداً اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌo (سورۃ ص:۵) یعنی یہ کیسی عجیب بات ہے کہ سارے خدائوں کو ختم کرکے اس شخص نے ایک ہی خدا بنادیا؟ …کہاں تو وہ وقت تھا جب وہ سمجھتے تھے کہ شرک حق ہے اور توحید عجیب بات ہے اور پھر کہاں یہ صورت حال ہوگئی کہ زیادہ مدت نہ گزری کہ مشرکین کے لیے یہ کہنا مشکل ہوگیا کہ کئی خدا ہیں۔ انہوں نے اپنے عقیدوں کی تاویل اس طرح سے کرنی شروع کردی کہ ہم جانتے تو ایک ہی خدا کو ہیں لیکن یہ دوسری چیزیں جو ہم کررہے ہیں یہ اسی خدا تک تقرب و شفاعت کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ مختلف مشرک قوموں کے اندر توحیدی مسلک و مذاہب پیداہوگئے۔ خود آپ کے اس ملک میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس طرح سے مسلمانوں کا مرتب کردہ فلسفہ‘ ان کی مرتب کردہ سائنس‘ ان کے مرتب کردہ علوم عمرانی… یہ ساری چیزیں دنیا کے اوپر چھاتی چلی گئیں۔ مغرب میں نَشاۃ ِثانیہ کی جو تحریک اٹھی تھی‘ وہ مسلمانوں ہی کے سکھائے ہوئے علوم کی بدولت اٹھی تھی۔ جو کچھ اسپین میں مسلمانوں کے علوم و فنون تھے اور جو اُن کی درس گاہیں تھیں‘ ان سے استفادہ کرکے جو لوگ تیار ہوئے تھے‘ وہی لوگ مغرب میں اس تحریک کے موجب بنے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ یورپ کے اہل علم عربی زبان میںلکھنا اور عربی بولنا قابل فخر سمجھتے تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے جو ان کے مذہبی پیشوائوں میں شمار ہوتے تھے لیکن وہ اپنے ذاتی خطوط عربی زبان میںلکھتے تھے۔ اس زمانے کے لوگوں کی ایسی شکایتیں آج تک تحریری شکل میں موجود ہیں کہ ہماری قوم کے اہلِ علم و فکر پر عربی زبان اس طرح مسلط ہوگئی ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی تک میں عربی زبان کو استعمال کرتے ہیں اور اپنی قومی زبان کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات کا نتیجہ تھا کہ اس وقت علمی تحقیقات کا کام مسلمان کرتے تھے اور دوسری قومیں ان کا پس خوردہ کھاتی تھیں۔ وہ ان کے مرتب کردہ علوم کو سیکھتی تھیں۔ جس طرز پر مسلمانوں نے ان کو مرتب کیا تھا‘ اس طرز پر وہ ان کو پڑھتی اور حاصل کرتی تھیں۔ نتیجہ یہ تھا کہ ان کی ذہنیتیں اسلام کے طریقہ پر ڈھلتی جاتی تھیں۔ مغربی ممالک میں جو مسیحی متکلمین کا ایک گروہ گزرا ہے‘ اس کی کتابیں آپ پڑھیے… آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے متکلمین کی اور ان کے علم کلام کی جوں کی توں نقل اتاری جارہی ہے۔ وہی مسائل ہیں‘ وہی اصطلاحات ہیں‘ وہی بحثیں ہیں‘ بجز اس کے کہ انہوں نے مسیحی عقیدے کو اس کے اندر شامل کردیا۔ لیکن آپ مسیحی متکلمین کی تحریروں میں اور مسلمان متکلمین کی تحریروں میں بجز تثلیث اور اِبنیت کے عقیدے کے اور کوئی فرق نہیں پائیں گے۔

اس کے بعد ایک دوسرا دور آیا جس میں مسلمانوں نے نئی تحقیقات کا کام قریب قریب ترک کردیا۔ جو کچھ علومِ اوائل تھے‘ انہی کو پڑھتے پڑھاتے رہے‘ انہی کے اوپر حاشیے چڑھاتے رہے‘ حاشیے در حاشیے لکھتے چلے گئے۔ لیکن نئی تحقیقات اور علوم و فنون میں آگے بڑھنے کا کام انہوں نے چھوڑ دیا۔ دوسری طرف اسی زمانہ میں اہل مغرب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور تحقیقاتِ علمی شروع کیں۔ انہوں نے نئی نئی معلومات جمع کرنے پر توجہ دی۔ ان کو مرتب کرکے نئے فلسفے اور نئے نظام ہائے فکر و عمل کی تشکیل شروع کردی۔ اس صورت حال کا جو نتیجہ ہوا وہ یہ تھا کہ ایک طرف مسلمان رفتہ رفتہ جمود میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور دوسری طرف اس علمی تحریک کی بدولت مغرب کی طاقت روز بروز بڑھنی شروع ہوگئی۔ ظاہر ہے جب وہ نئی نئی معلومات جمع کریں گے اور نئی نئی تحقیقات کریں گے‘ تو نئے نئے ذرائع اور وسائل ان کے ہاتھ میں ہوں گے۔ ان کے ذہنوں میں زندگی اور بیداری پیدا ہوگی اور آپ اس کو چھوڑ دیں گے‘ تو آپ کے اندر لامحالہ جمود اور تعطل پیدا ہوگا۔ آپ اپنی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیے۔ اٹھارہویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مسلمانوں اور اہلِ مغرب کے درمیان اتنا نمایاں فرق ہوگیا کہ مسلمان مغلوب ہونا شروع ہوگئے اور مغربی قومیں ان پر غالب آنے لگیں۔دو تین سو برس جمود میں لگے اور اس جمود کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ مسلمان مغلوب ہوگئے اور مغربی قومیں غالب آگئیں۔ اٹھارہویں صدی سے مسلمانوں پر مغربی قوموں کی یورشیں اور ان کی فتوحات خود اس بات پر شاہد ہیں کہ علمی تحقیقات چھوڑ دینے اور فکری جمود اختیار کرنے کے نتائج ہم نے کیا بھگتے اور انہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھانے کے کیا فوائد حاصل کیے۔

جیسا کہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ جمود کا لازمی نتیجہ انحطاط ہے اور انحطاط کا لازمی نتیجہ مغلوبیت ہوتا ہے۔ لیکن اگر علمی تحقیق کی جائے اور مسلسل کی جائے اور نئی نئی معلومات فراہم کی جائیں اور ان کی بنیاد پر نئے نئے فلسفۂ زندگی تیار کیے جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حرکت پیدا ہوتی ہے‘ طاقت حاصل ہوتی ہے اور اس قوم کو غلبہ نصیب ہوتا ہے۔ سیاسی و عسکری غلبہ حاصل ہونے کے بعد معاملہ ختم نہیں ہوجاتا بلکہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو قوم غالب ہے اور جو تحقیقات کررہی ہے‘ علوم و فنون کو جمع کررہی ہے‘ معلومات فراہم کررہی ہے اور ان کومرتب کرکے ایک تہذیب بنارہی ہے‘ وہ لازماً اپنی تہذیب کے ساتھ غالب آتی ہے۔ وہ محض اپنی سیاست‘ اپنے اسلحہ اور اپنی فوج سے ہی غلبہ نہیں پاتی بلکہ اس کی پوری تہذیب مغلوب قوم پر غالب آنی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ نقشہ پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں اور آج بھی دیکھ رہے ہیں۔

اسلام کے غلبہ کے دور میں تمام دنیا یہ محسوس کرتی تھی کہ تہذیب ہے تو مسلمانوں کی ہے‘ تمدن ہے تو مسلمانوں کا ہے اور فکر و علم ہے تو مسلمانوں کا ہے۔ اب اس کے برعکس یہ صورت حال ہے کہ خود مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات اترگئی ہے کہ کوئی تہذیب ہے تو اہلِ مغرب کی ہے‘ کوئی تمدن ہے تو اہلِ مغرب کا ہے۔ غرض علم و فن جو کچھ بھی ہے‘ اہل مغرب کا ہے اور ہمارا کام ان کا پس خوردہ کھانا ہے‘ ہمارا کام ان کے پیچھے چلنا ہے‘ ہمارا کام ان کی تقلید کرنا ہے۔ عملاً یہ صورت پیدا ہوچکی ہے‘ چاہے زبان سے انکار کریں‘ چاہے زبان سے ہم مزاحمت کرنے کی کوشش کریں اور زبان سے ہم اظہار برأت کریں۔لیکن عملاً کیا ہورہا ہے؟ عملاً یہی ہورہا ہے کہ ہمارے اوپر مغرب کے افکار اور فلسفے ‘ ان کا طرزِ زندگی‘ ان کی تہذیب اور تمدن سب کچھ چھاتا چلاجارہا ہے۔ اس سے میں جو بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی چاہتے ہیں‘ اپنی بقا چاہتے ہیں اور اپنا ارتقا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں ہے کہ ہم نئے سرے سے علمی تحقیقات کا کام کریں۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ علمی تحقیقات کس نوعیت کی ہمیں مطلوب ہیں۔ ایک تو وہ ریسرچ ہے جو مغربی محققین ہم کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ ایک بے مقصد اور بے رنگ ریسرچ‘ محض تحقیق برائے تحقیق ہے۔ مثلاً کتابوں کو ایڈٹ کرنا‘ ان کی مختلف نسخوں کا مقابلہ کرکے ان کی عبارتوں کے فرق کو پرکھنا اور مصنفین کے سَنینِ وفات و پیدائش کو جمع کرنا اور اس قبیل کی دوسری ریسرچ۔ یہ بے مقصد اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ علوم و فنون میں مددگار ہوتی ہے‘ لیکن بجائے خود یہ وہ ریسرچ نہیں ہے‘ جو کسی قوم کو زندگی کی حرارت عطا کرتی اور اسے حیاتِ نو دیتی ہے۔ یہ ٹھنڈی اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اہلِ مغرب ایک ریسرچ اور کرتے ہیں‘وہ متحرک قسم کی ریسرچ ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے ہے کہ ان کے پاس وہ طاقتیں فراہم ہوں کہ جو اُن کو دنیا پر غالب کرسکیں۔

ایک اور قسم کی ریسرچ جو اَب ہمارے ملک میں شروع ہورہی ہے‘ وہ یہ ہے کہ ریسرچ تو اسلام کی کی جائے‘ مگر اس غرض کے لیے کہ ایک نیا اسلام تصنیف کیا جائے‘ جو تمام مغربی افکار و اَقدار کے بالکل مطابق ہو۔ یعنی جو کچھ مغرب میں حلال ہے‘ وہ حلال ثابت کیا جائے‘ جو کچھ مغرب کی نگاہ میں حرام ہے‘ اسے حرام ثابت کیا جائے اور اسلام کو کسی نہ کسی طرح ڈھال کرایسا دکھایا جائے کہ گویا یہ بھی مغربی تہذیب و تمدن کا ایک دوسرا ایڈیشن ہے۔ یہ ریسرچ بھی ہمارے کسی کام کی نہیں ہے۔

ہم جو ریسرچ چاہتے ہیں اور جس غرض کے لیے چاہتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک اسلام کے مطابق علوم و فنون کی تحقیق کی جائے اور تحقیقات کرکے اسلام کے نظامِ فکر و عمل کو آج کی زبان میں باقاعدگی کے ساتھ مرتب کیاجائے۔ اس سلسلے میں چند مقاصد ہمارے پیش نظر ہیں اور انہی مقاصد کی تحصیل کے لیے ہم کام کرنا چاہتے ہیں:

۱۔ سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے‘ اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں‘ وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور اس کے ساتھ کسی تعصب کا کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کرکے جو فلسفۂ حیات اہلِ مغرب نے بنایا ہے‘ وہ قطعی باطل ہے۔ ان کو مرتب کرکے جو طرزِ فکر اور کائنات کے متعلق جو تصور اور انسان کے بارے میں جو تصور انہوں نے قائم کیا ہے اور جس کے اوپر اپنی پوری تہذیب کی عمارت انہوں نے اٹھائی ہے‘ وہ ساری کی ساری از اَوّل تا آخر باطل ہے۔ جو معاشرتی علوم (Social Sciences) انہوں نے مرتب کیے ہیں‘ جو معاشرتی فلسفہ (Social Philosophy) انہوں نے گھڑا ہے‘ وہ مُوجبِ فتنہ و فساد ہے‘ وہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ انسان کی تباہی کے لیے ہے اور خود ان کی اپنی تباہی کے لیے ہے۔ یہ پہلا ضروری کام ہے‘ جس کے ذریعہ سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکر و فلسفے کا جو سحر ہے‘ وہ ختم ہوجائے گا اور جس کے بغیر مسلمانوں کو اس ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی کی حالت سے نہیں نکالا جاسکتا جس میں وہ مبتلا ہیں۔ جب تک مسلمان اس ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہیں‘ اس وقت تک آپ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ دنیا کے ’’مقلد‘‘ کی زندگی چھوڑ کر ’’مجتہد‘‘ کی زندگی اختیار کریں گے۔ اس وقت تک تو ان کا کام آنکھیں بند کرکے اہلِ مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے جب تک کہ اس سحر کو نہ توڑ دیں اور اس حقیقت کو واضح نہ کردیں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفۂ زندگی اور نظامِ حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ حقائق اپنی جگہ بالکل صحیح ہوسکتے ہیں‘ لیکن فی الحقیقت ان کو مرتب کرکے مغرب میںجو فلسفۂ حیات بنایا گیا ہے‘ وہ بالکل غلط ہے!

۲۔ اس کے آگے جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔ اسی طرح اسلام کے مطابق ہمیں ایک فلسفہ درکار ہے‘ جو انسان کے ذہن کی اس تلاش کو تسکین دے کہ حقیقت کیا ہے‘ مگر یہ تسکین اس عقیدے کے مطابق دے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ حقیقت کی تلاش اور اس کی تڑپ انسان کی فطرت میں ہے‘ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر تلاشِ حقیقت کے مختلف راستوں میں سے صحیح راستہ ہمارے نزدیک وہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ اس راستے کے مطابق تلاشِ حقیقت ‘کائنات کی حقیقت ‘حیاتِ انسانی کی حقیقت‘ نیز اس کے مآل (انجام‘ نتائج) کو ایک فلسفے کی شکل میں مرتب کرنا تاکہ آدمی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے۔ ظاہر ہے یہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک فلسفہ اسلام کے نقطۂ نظر کے مطابق مرتب کریں۔ اس کام کو کیے بغیر یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ کی یونیورسٹیوں اور آپ کے کالجوں میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے یا نفسیات کے جو علوم پڑھائے جاتے ہیں یا جن دوسرے فلسفیانہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے‘ ان کو تبدیل کردیا جائے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا فلسفہ پڑھایا جائے۔

آپ جانتے ہیں کہ روس میں مغربی تہذیب سے بالکل مختلف ایک تہذیب اٹھانے کی کوشش کی گئی اور جب روسیوں نے کمیونسٹ طرزِ فکر کو اختیار کیاتو وہ کسی طرح سے بھی اس بات کو گوارا نہیںکرسکے کہ جس کو وہ بورژوا فلسفہ کہتے ہیں‘ وہ اسے اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائیں کیونکہ بحیثیت کمیونسٹ ان کے اپنے وجود کے لیے یہ ضروری اور ناگزیر تھا کہ وہ ایک کمیونسٹ فلسفہ مرتب کریں اور اسے اپنی نئی نسلوں کو پڑھائیں‘ کیونکہ جب تک وہ اس بورژوا فلسفے کو نہ ہٹادیتے اور اس کی جگہ اپنا اشتراکی فلسفہ ذہنوں میں نہ بٹھادیتے‘ اس وقت تک نہ تو طرزِ فکر بدل سکتا تھا اور نہ ایک کمیونسٹ نظام کھڑا ہوسکتا تھا۔ اسی طرح ہمارے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم ایک اسلامی فلسفہ مرتب کریں اور تمام علومِ عمرانی کو نئے سرے سے ترتیب دیں۔ بلاشبہ واقعات اور حقائق وہی رہیں گے‘ جو دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں۔ لیکن ان واقعات اور حقائق پر ایک پورا نظامِ فکر و عمل مرتب کرنا ہے… خواہ وہ معیشت کا علم ہو‘ خواہ قانون و فلسفہء قانون کا علم ہو اور خواہ نفسیات اورعمرانیات کا علم ہو… غرض جتنے بھی عمرانی علوم (Social Sciences) ہیں، ان میں سے ہر ایک کو باقاعدہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ان کو اسلامی نقطۂ نظر سے مرتب نہ کیا جائے گا اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میںنئے علوم نہ پڑھائے جائیں گے‘ اس وقت تک آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ یہاں کبھی اسلامی تہذیب اٹھ سکتی ہے‘ بلکہ جو کچھ اس وقت موجود ہے‘ اس کا باقی رہنا بھی مشکل ہے۔

آپ اپنے گھر میں اپنے بچے کو چاہے یہ عقیدہ سکھادیں کہ خدا ایک ہے اور رسول اللہﷺ اللہ کے نبی تھے اور چاہے آپ اس کے ذہن میں یہ بٹھادیں کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے… بہت سے لوگوں نے یہ کام بھی چھوڑ دیا ہے اور اپنے بچوں کو وہ مشنریوں کے حوالے کردیتے ہیں تاکہ وہ جو عقیدہ چاہیں‘ ان کے ذہنوں میں اتار دیں۔ البتہ بعض لوگ احتیاطاً یہ ساری باتیں اپنے بچوں کے ذہن میں اتار بھی دیتے ہیں… لیکن وہ بچے جب کالجوں میں جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے یہ صورت آتی ہے کہ تمام علوم جو وہ پڑھ رہے ہیں‘ ان کے اندر ’’خدا‘‘ کہیں بیچ میں آتا ہی نہیں۔ وہ سائنس پڑھ رہے ہوں یا علومِ عمرانی‘ کبھی انہیں یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس کائنات کے اندر خدا کا بھی کوئی کام ہے‘ وہ بھی کچھ کررہا ہے۔ ان کے سامنے یہ آتا ہی نہیں کہ رسولوں نے بھی کوئی علم الاقتصاد دیا ہے‘ رسولوں نے بھی کوئی فلسفۂ قانون دیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ایک ایک علم جو وہ پڑھتے ہیں‘ وہ ان کے ذہنوں میںیہ بات بٹھاتا ہے کہ اسلام نے (معاذ اللہ) بہت سارے غلط کام کرڈالے ہیں۔ مثلاً اس نے سود کو حرام کیا‘ گویا نعوذ باللہ ایک بڑا فضول کام کیا‘ کیوں کہ سود کے بغیر دنیا کا کوئی معاشی نظام نہیں چل سکتا اور کوئی Financial System کھڑا نہیں ہوسکتا ہے۔ ان کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ اسلام نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا قرار دیا‘ گویا (معاذ اللہ) بڑا وحشیانہ کام کیا۔ پھر اس نے زنا جیسی ’’پرلطف اور تفریحی‘‘ چیز پر خواہ مخواہ اتنی سخت سزا تجویز کی کہ کوڑے مار مار کر کسی کی پیٹھ کی کھال ادھیڑ دی جائے۔ یہ بھی جیسے بہت وحشیانہ کام کیا۔

ذرا سوچیے! اس طرح کا طرزِ فکر جب ان کے سامنے آئے گا تو کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ اسلامی تہذیب کے سچے دل سے قائل اور اس کے پیرو کبھی ہوسکتے ہیں؟ اور پھر وہی لوگ جو اِن کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں‘ وہی آپ کے ملک کا نظام چلاتے ہیں‘ وہی آپ کے ملک کے سول سرونٹ بنتے ہیں‘ وہی جنرل بنتے ہیں‘ وہی عدلیہ و مقننہ کے اعلیٰ مدارج تک پہنچتے ہیں‘ وہی آپ کی حکومت کے کارپرداز بنتے ہیں۔ ان کے دماغ میں یہ بات کیسے اترسکتی ہے کہ یہ اسلام چلنے کے قابل ہے اور چلانے کے قابل ہے؟ چنانچہ آپ تعلیم یافتہ لوگوں کے ایک بڑے گروہ سے بات کرکے دیکھ لیں۔ آپ کو تھوڑی ہی دیر میں یہ محسوس ہوجائے گا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سارے علوم انہوں نے جس انداز سے پڑھے ہیں‘ اس کی وجہ سے ان کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی کہ کوئی طرزِ زندگی یا نظامِ حیات‘ مغربی نظامِ زندگی سے بہتر ہوسکتا ہے اور وہ چل بھی سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قابلِ عمل صورت وہی ہے جو مغربی طرزِ زندگی کی ہے۔ کیونکہ ایک چیز چل رہی ہے اور کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے‘ جب کہ دوسری چیز معطل ہے اور اس کا کوئی اثر اُن علوم و فنون پر نہیں ہے‘ جن کو وہ پڑھ رہے ہیں۔

لہٰذا تنقید کے کام کے ساتھ ساتھ دوسرا تعمیری کام جو ناگزیر ہے اور جسے کرنے کی شدید ضرورت پیدا ہوگئی ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمام علوم کو اسلام کے نقطۂ نظر سے مرتب کیا جائے تاکہ ہماری نئی نسلیں اسلام کے برحق ہونے پر واقعی مطمئن ہوسکیں اور ان کو یہ اطمینان ہو کہ یہ چیز چلنے کے قابل ہے اور ان کے اندر یہ ارادہ بھی پیدا ہو کہ اس کو چلانا چاہیے۔

۳۔ اس کے بعد جو تیسرا کام ہمارے سامنے ہے‘ وہ یہ ہے کہ ایک نصاب مرتب کیا جائے جو اس طرز پر تعلیم کے قابل کتابیں تیارکرے۔ ورنہ ابھی تک جو صورت حال ہے، وہ یہ ہے کہ نیچے سے اوپر تک جس کو دیکھیے‘ وہ یہ بات کہتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیم اس ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن اس وقت تک ایسی کوئی قابلِ لحاظ کوشش نہیں کی گئی کہ یہ مختلف علوم جو ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں‘ ان پر کتابیں بھی اسلام کے نقطۂ نظر سے تیار کی جائیں۔ میں آپ سے ابھی عرض کرچکا ہوں کہ کمیونسٹ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ وہ اکنامکس کی ایسی کتابیں پڑھائیں جو بورژوا ماہرینِ اقتصادیات نے لکھی ہوں۔ وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے کہ وہ ایسا فلسفۂ قانون پڑھائیں جسے سرمایہ داروں کے ماہرینِ قانون نے مرتب کیا ہو۔ غرض اس طرح وہ نہ صرف یہ کہ بورژوا لوگوں کی لکھی ہوئی سوشل سائنس پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہوئے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ ایک ’’سوویت سائنس‘‘ تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یعنی معاملہ محض علومِ عمرانی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سائنس کو بھی وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’سوویت سائنس‘‘ ہے۔تمام سائنٹفک کتابوں کو انہوں نے اپنے نقطۂ نظر سے مرتب کیا ہے اور وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کمیونسٹوں کی نئی نسل کی پرورش‘ سرمایہ داروں کے مرتب کردہ سائنسی ذخیرہ سے کریں۔ (واضح رہے کہ یہ تقریر ۱۹۶۳ء میں کی گئی تھی۔ ایڈیٹر)

ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ تمام اوقات (گھنٹوں۔Periods) میں تو ہم وہ علوم پڑھائیں جو ملحد مغربی مصنفین کی کتابوں میں ملتے ہیں اور دو ایک پیریڈ میں لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ایک ہستی کا نام خدا بھی ہے‘ جسے تم کو جاننا چاہیے اور ایک ہستی کو اللہ نے رسول بھی بنا کے بھیجا تھا۔ لیکن اس خدا اور اس رسول کا کوئی مظاہرہ (Function) ان کو باقی پیریڈز میں نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس کے برعکس تمام علوم و فنون اس طرز پر پڑھائے جارہے ہیں‘ جس طرز پر اہلِ مغرب نے انہیں مرتب کیا ہے۔ یا جو ہمارے ہاں کے ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جو اہلِ مغرب کی مکھی پر مکھی مارنے کے عادی ہیں۔ اس سے آپ بالکل توقع نہ رکھیں کہ آپ کے ہاں وہ نسل کبھی پروان چڑھ سکے گی جو یہاں اسلام کا احیا کرے اور احیا کرنا تو درکنار اسلام کو باقی رکھ سکے۔ یہ راستہ سیدھا اپنی انفرادیت کو ختم کرنے کی طرف جارہا ہے۔ روز بروز ہماری انفرادیت فنا ہوتی چلی جارہی ہے اور ہماری حکومت اور ہمارے برسرِ اقتدار طبقے اور ہمارے بااثر طبقے… خواہ وہ تُجّار کے ہوں اور خواہ صَنّاعوں کے… اہلِ مغرب کے سامنے یہ نقشہ پیش کررہے ہیں کہ ہم میں اور تم میں کسی لحاظ سے بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ جو تمہاری تہذیب‘ وہ ہماری تہذیب‘ جو تمہارا تمدن‘ وہ ہمارا تمدن‘ جو تمہارے اخلاق‘ وہ ہمارے اخلاق‘ جو تمہاری قدریں‘ وہ ہماری قدریں۔ حتیٰ کہ ہم اس بات کو بھی مان گئے ہیں کہ جس جس حرام کو انہوں نے حلال کیا ہے‘ وہ واقعی حلال ہے اور یہ غلطی ہماری تھی کہ اسے حرام قرار دے دیا تھا یا غلط فہمی تھی کہ وہ حرام ہے۔ اس صورت حال میں کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ یہاں اسلام باقی بھی رہ سکے گا‘ کجا آپ یہ توقع کریں کہ وہ نسلیں جو اس طریقے پر پرورش پارہی ہیں اور یہ ذہنی تربیت حاصل کررہی ہیں‘ وہ یہاں کبھی اسلام کے احیا کے لیے بھی کام کرسکیں گی اور اسلامی تہذیب و تمدن کی علمبردار بھی بن سکیں گی؟

۴۔ ایک اور مسئلہ جو اس وقت ہمارے سامنے ہے، وہ یہ کہ ہمارے ملک کا ایک حصہ جس کی آبادی اکثریت میں ہے‘ اس کی زبان میں اسلام کے متعلق لٹریچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ مغربی پاکستان میں تو کم از کم ایک اردو زبان ایسی موجود ہے کہ جس میں اچھا خاصا اسلامی لٹریچر موجود ہے‘ چاہے وہ مدرسوں (مراد اسکول ہیں۔ ایڈیٹر) میں نہ پڑھایا جاتا ہو‘ مگر وہ باہر موجود ہے کہ جس سے مدرسوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والا یا اپنے فارغ اوقات میں مطالعہ کرنے والا کچھ نہ کچھ دین کی معقول باتیں حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے مشرقی حصے میں بنگلہ زبان میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس معاملہ یہ ہے کہ بنگلہ زبان کا لٹریچر اور بنگلہ زبان کے علوم و فنون زیادہ تر ہندوئوں کے لکھے ہوئے ہیں اور وہ بھی ایسے ہندوئوں کے‘ جنہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید تعصب تھا۔ جنہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کا کوئی کارنامہ انسانی تہذیب و تمدن میں نہیں ہے‘ مسلمان اگر رہا ہے تو محض لچے اور لفنگے کی حیثیت سے رہا ہے‘ مسلمان نہ کبھی محب وطن رہا اور نہ کبھی انسانیت کا خادم ۔ آزادی کی تحریک میں بھی اس کا کوئی حصہ نہیں ہے اور آزادی کے لیے قربانیاں صرف ہندوئوں نے دی ہیں۔ غرض جن لوگوں کا نقطۂ نظر یہ تھا‘ ان لوگوں نے تاریخیں لکھی ہیں اور مسلمان نوجوان اِن کو پڑھتے ہیں۔ انہوں نے ناول لکھے ہیں اور مسلمان نوجوان ادب کے نام سے انہیں پڑھتے ہیں۔ لیکن اسلام کے متعلق بہت ہی کم لٹریچر بنگلہ زبان میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ہمارے لیے انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ ہمارے ملک کا آدھا حصہ اور وہ حصہ کہ جس کی آبادی اکثریت میں ہے‘ اگر وہ اس حالت میں مبتلا رہے‘ تو آپ اس حالت میں یہاں اسلام کے احیا کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ (یہاں مکرر یاددہانی ہے کہ یہ تقریر ۱۹۶۳ء کی ہے‘ جب پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہوکر بنگلہ دیش نہیں بنا تھا… دوم یہ کہ اب ڈھاکا میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی شاخ کی جگہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ریسرچ اکیڈمی کے نام سے نیا ادارہ انہی مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ایڈیٹر)

اسی کے ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں اس ادارے (اکیڈمی) میںجو کچھ مرتب کیاجائے‘ وہ صرف اردو اور بنگلہ میں ہی نہ ہو بلکہ انگریزی اور عربی زبانوں میں بھی ہو۔ یعنی ترجمہ کا کام بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں اور انگریزی اور عربی دونوں میں ان چیزوں کو لائیں۔ عربی میں لانا اس لیے ضروری ہے کہ دجلہ سے لے کر اطلانتک تک تمام مسلمان قومیں عربی زبان بولتی ہیں‘ ان کی زبان عربی ہے۔ اس وقت ان کی سولہ سترہ آزاد ریاستیں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑی طاقت ہے اور دنیائے اسلام کا دل ہے۔ جب تک قرآن مجید سے مسلمان وابستہ ہیں‘ لامحالہ وہ قرآن مجید کی زبان ‘ یعنی عربی زبان کی اہمیت محسوس کریں گے اور اس کا اثر ہوگا۔لہٰذا اگر وہ زبان (عربی) کفر کی اشاعت کرنے لگے‘ اگر اس زبان میں لوگوں کو فسق و فجور ملے‘ اگر اس زبان میں لوگوں کو الحاد ملے تو آپ غور کیجیے کہ اس سے زیادہ خطرناک عمل کیا ہوسکتا ہے؟ مزید برآں افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک کے مسلمانوں پر مغربی تہذیب اور تمدن کا غلبہ ہم سے بہت زیادہ ہے۔ ہم ان سے بہت پہلے مغرب سے مغلوب ہوئے تھے لیکن اتنے متاثر ہم نہیں ہوئے جتنے کہ وہ ان سے متاثر ہوئے‘ درآنحالیکہ وہ ہمارے بعد مغلوب ہوئے۔ جتنی ریاستیں اس وقت عرب ممالک میں ہیں‘ ان کے کارفرما زیادہ تر مغربی ذہن کے لوگ ہیں اور ایسا عملی کام وہاں بہت کم ہورہا ہے جو اسلام کے نقطۂ نظر کے ٹھیک مطابق ہو۔ تاہم وہاں بھی کام ہورہا ہے اور یہ خیال کرنا کہ وہاں کام بالکل نہیں ہورہا ہے‘ غلط ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہاں جو کام ہورہا ہے‘ اس کا مفید حصہ اردو اور بنگلہ میں منتقل کریں تاکہ وہاں کی تحقیقات سے یہاں استفادہ ممکن ہوسکے۔ اسی طرح جو کچھ ہم یہاں کریں‘ اس کو عربی کے ذریعے وہاں منتقل کریں تاکہ یہ ایک مشترک ذخیرہ بن سکے اور دوسرے مسلمان ملکوں میں بھی ایک صحیح اسلامی ذہن پرورش پاسکے۔ وہاں کے کارفرما بھی اس بات پر مطمئن ہوسکیں کہ اسلام کو چلایاجاسکتا ہے اور ان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو کہ وہ اس کو چلائیں اور ان کو بھی وہ طریقہ معلوم ہو‘ جس سے اسلام کو چلایا جاسکے۔ اس ضرورت کو ہم بھی پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور عرب ممالک کے بھی بعض حصوں میں یہ کام ہورہا ہے۔

انگریزی میں اس کام کی متعدد وجوہ سے ضرورت ہے اور آپ خود بھی محسوس کرتے ہوں گے کہ انگریزی میں اس چیز کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اول تو خود ہمارے ملک کا بالائی طبقہ انگریزی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں کچھ پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ان میں سے ایک اچھا خاصا گروہ ایسا ہے جو پڑھنے کے قابل بھی نہیں ہے اور ہمارے اونچے طبقے میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں‘ جن کے لیے اردو زبان میں اپنا نام لکھنا بھی مشکل ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے آدمی کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ان کے صاحبزادے جو انجینئر ہیں‘ ان کو کچھ اسلام سے واقفیت حاصل ہو۔ چنانچہ ایک صاحب ان کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے مقرر کیے گئے۔ معلوم یہ ہوا کہ وہ اردو زبان میں کوئی دینی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ اردو زبان میں وہ کچھ پڑھ ہی نہیں سکتے۔ لامحالہ ان کو انگریزی میں تعلیم دینے کی ضرورت پیش آئی‘ حالانکہ وہ اسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور اسی ملک میں ان کا پورا خاندان آباد ہے۔ لیکن وہ اس ملک کی زبان سے واقف نہیں تھے کہ دین کی تعلیم اردو میں حاصل کرسکیں۔ اس کے بعد کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہ کم از کم قرآن مجید تو پڑھنے کے قابل ہوجائیں تو ان کو اس قابل بنانے میں ایک مہینہ لگا کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں۔ وہ بے چارے کافی دنوں تک یہ کہتے رہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ الٹا کیسے لکھا ہوا ہے۔ یعنی جو سیدھا ہے ان کے نزدیک الٹا ہے۔ چونکہ ساری عمر اُن کی بائیں سے دائیں لکھنے اور پڑھنے میں گزری ہے۔ اس لیے دائیں سے بائیں جو کچھ لکھا اور پڑھا جاتا تھا ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ان کے سر میں درد ہونے لگتاتھا کہ بھلا کوئی زبان ایسے بھی لکھی جاتی ہے۔ یہ طبقہ ہمارے ہاں موجود ہے اور یہی طبقہ ملک کے معاملات کو چلارہا ہے۔ اسی کے ہاتھوں میں ملک کی باگیں ہیں۔ اب کہاں یہ لڑائی لڑنے جائیں کہ پہلے اردو سیکھو تو ہم تمہیں دین سکھائیں گے۔ اس لیے ہمیں ان کے لیے اس زبان میں بھی مواد فراہم کرنا ہے جس میں وہ سیکھ سکتے ہیں تاکہ کم از کم ان کے عقیدے اور ایمان کو تو بچایا جاسکے۔

اس کے علاوہ باہر کے ملکوں میں اگر آپ اسلام کی تعلیم کو پھیلانا چاہیں تو کم از کم ہمارے لیے انگریزی ہی وہ واسطہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہم یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یوں تو تنہا ایک انگریزی ہی بین الاقوامی زبان نہیں ہے‘ دوسری زبانیں بھی ہیں جن میں اسلام کے متعلق لٹریچر تیارکرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن فی الوقت ہمارے پاس انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں نشر و اشاعت کے ذرائع نہیں اور اگر ایک مرتبہ انگریزی زبان میں اسلامی علوم کو ان کی صحیح شکل میں پیش کردیا جائے تو اس کے بعد دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمے ہونے کا امکان ہے۔ دوسری زبانوں میں اسلام کی دعوت پہنچانے کا کام اللہ کے دوسرے بندے کریں گے۔ بالفعل ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ انگریزی زبان میں اسلام کے متعلق صحیح معلومات بہم پہنچائی جاسکیں۔یہ دنیا میں اسلام کی ترویج کا ایسا ذریعہ ہے جسے پوری طرح استعمال کیے جانے کی شدید ضرورت ہے۔

۵۔ ہمارے پیش نظر اس کے ساتھ ساتھ دو کام اور بھی ہیں اگرچہ اہمیت میں کم ہی سمجھے جائیں‘ لیکن فی الواقع ان کی بھی بڑی ضرورت ہے۔

ایک کام یہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جو مسلمانوں کی آبادیاں منتشر ہیں‘ وہاں ان کی نئی نسلوں کے ارتداد کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ مثلاً ویسٹ انڈیز میں اور دوسرے دور دراز کے جزائر میں۔ خود امریکا‘ کینیڈا اور جنوبی امریکا کے مختلف حصوں میں جو مسلمان آبادیاں ہیں وہ منتشر ہیں‘ وہاں وہ اقلیت میں ہیں۔ کفار کی حکومت بھی ہے اور اکثریت بھی ہے۔ ان کے یہاں تعلیم کا سارا نظام غیر اسلامی ہے۔ مسلمانوں کی تعلیم کا کوئی خاص الگ انتظام نہیں ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسلیں روز بروز غیر مسلم اکثریت میں جذب ہوتی چلی جارہی ہیں۔ ان کو اسلام کے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ ہم مسلمانوں کی اولاد ہیں اور اس لیے ہم مسلمان ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی ضروریات کے مطابق کچھ مختصر نصاب ایسا تیار کردیا جائے کہ کم از کم وہاں کی جو نئی مسلمان نسلیں ہیں‘ وہ مسلمان رہ سکیں اور ان کو اسلام کے متعلق ضروری معلومات حاصل ہوسکیں۔

دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کی کوششوں کے نتیجے میں جو افراد اسلام قبول کرلیں‘ ان کو اسلام کے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جائیں۔ اس کے بغیر کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ایک مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔

اس مقصد کے لیے ایک ایسا مختصر سا نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ضروری فقہی مسائل پر مشتمل ہو‘ تاکہ جو لوگ اسلام قبول کرتے جائیں‘ وہ اس کی مدد سے مسلمانوں کی سی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ وہ جان سکیں کہ طہارت اور نجاست کیا چیزیں ہیں اور ان میں کیا فرق ہے‘ طہارت کیسے حاصل کی جائے‘ نماز کیسے پڑھی جائے‘ روزے کے احکام کیا ہیں‘ زکوٰۃ کے احکام کیا ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کو اس قابل بنادیا جائے کہ وہ خود اسلام کے مبلغ بن سکیں۔ انہیں ایسا مواد فراہم کرکے دیا جائے جس سے وہ اسلام کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور اس کی تبلیغ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے بھی کچھ چیزیں تیار کرنا ہمارے پیش نظر ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ انگریزی کے ماسوا دوسری زبانوں میںبھی اس کا انتظام ہوسکے۔ مثلاً سواحلی اور ہائوسا زبانوں میں بھی‘ تاکہ افریقا میں یہ چیزیں پھیل سکیں۔ جیسے جیسے دوسری جتنی زبانوں میں یہ کام کرنے کے امکانات ہوتے جائیں گے‘ ان شاء اللہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔

یہ اس کام کا ایک مختصر سا نقشہ ہے جو ادارئہ معارف اسلامی کے قیام میں ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم نے یہ کام جس غرض کے لیے شروع کیا ہے اور جس ضرورت کو سامنے رکھ کر شروع کیا ہے اس کی وضاحت مختصر طور سے میں نے آپ کے سامنے کردی ہے۔

میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک کے دل میں اس کام کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو۔ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونے کے بعد اب یہ ہر شخص کے خود فیصلہ کرنے کا کام ہے کہ وہ اس میں کس کس طرح سے حصہ لے۔ اگر کوئی اپنی دماغی قابلیت اس کام میں صَرف کرنے کے لیے تیار ہو تو ہم بڑی خوشی سے اس کا خیرمقدم کریں گے کہ یہ کسی خاص گروہ کا کام نہیں ہے۔ اس ادارے کے دروازے ہر اُس شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں جو اسلام پر ایمان رکھتا ہے اور اپنی دماغی قابلیت اور اپنی ذہانت اور معلومات صَرف کرکے اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹانے کو تیار ہے۔ یہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے اور جتنے لوگ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں، ہم اُن کے شکرگزار بھی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں اجر کی دعا بھی کریں گے۔

جو لوگ اس معاملہ میں مادی ذرائع سے ہماری مدد کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کو بھی اجر دے گا۔ ہمارے پیش نظر جو کام ہے اس کے پس پشت کوئی ذاتی غرض نہیں۔ ہمارا کام اسی دین کے لیے ہے جس کے ماننے والے باقی سب ہیں۔ جو جن ذرائع سے بھی اور جو بھی مدد کرسکتا ہو‘ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس میں کمی نہ کرے۔ ہمارے ساتھ جو کم سے کم تعاون ہوسکتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس ادارہ کے حق میں اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک کلمہ خیر ہی کہہ دیں‘ بلکہ اگر کوئی شخص اس کام کو برائی سے یاد نہیں کرتا اور اس کے متعلق بدگمانی پھیلانے کی کوشش نہیں کرتا‘ وہ بھی ہمارے اوپر مہربانی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو بھی اس مہربانی کا اجر عطا کرے گا۔

یہ اس مقصد کا مختصر بیان ہے جس کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا ہے اور اس کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے مختصر سی دعوت ہے۔ مجھے توقع ہے کہ جو باتیں میں نے آپ سے عرض کی ہیں اُن پر آپ غور کریں گے اور جو اصحاب جس حد تک بھی ہمارے ساتھ ہمدردی کرسکتے ہیں‘ اس میں دریغ نہیں کریں گے۔

مودودیؒ لٹریچر