بناؤ اور بگاڑ

یہ تقریر ۱۰ مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) کے جلسۂ عام میں کی گئی تھی۔ سامعین میں مسلمانوں کے علاوہ بہت سے ہندو اور سکھ حضرات بھی شریک تھے۔ پس منظر میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا مشرقی پنجاب ایک کوہِ آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے لیے تیار تھا اور تین ہی مہینے بعد وہاں فتنہ و فساد کی وہ آگ بھڑکنے والی تھی جس کی تباہ کاریاں اب تاریخِ انسانی کا ایک دردناک باب بن چکی ہیں


حمد و ثناء

تعریف اور شکر اس خدا کے لیے ہے جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، برے اور بھلے کی تمیز بخشی اور ہماری ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنے بہترین بندوں کو بھیجا۔ سلام ہو خدا کے ان نیک بندوں پر جنہوں نے آدم کی اولاد کو آدمیت کی تعلیم دی، بھلے مانسوں کی طرح رہنا سکھایا، انسانی زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کیا اور وہ اصول ان کو بتائے جن پر چل کر وہ دنیا میں سُکھ اور آخرت میں نجات پاسکتے ہیں۔

قوموں کے عروج و زوال کا خدائی قانون

حاضرین و حاضرات! یہ دنیا جس خدا نے بنائی ہے اور جس نے اس زمین کا فرش بچھا کر اس پر انسانوں کو بسایا ہے وہ کوئی اندھا دھند اور الل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں ہے۔ وہ چوپٹ راجہ نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیر نگری ہو۔ وہ اپنے مستقل قانون، پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے جن کے مطابق وہ سارے جہان پر خدائی کر رہا ہے۔ اس قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں۔ جس طرح ہوا، پانی، درخت، اور جانور بندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم آپ، سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر، ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہمارے سانس کی آمد و رفت پر، ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر اور ہماری بیماری و تندرستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اتار چڑھاؤ پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزل پر اور ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میںکھانا ہضم کرنے کے بجائے دل میں ہضم کرنے لگے، تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رو سے جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیے وہ اسے بلندی پر لے جائے۔ اگر آگ ایک کے لیے گرم ہے اور دوسرے کے لیے ٹھنڈی نہیں ہے، تو برے کرتوت بھی، جو خدا کے قانون کی رو سے برے ہیں، ایک کو گرانے والے اور دوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بری تقدیر بنانے کے لیے مقرر کیے ہیں، وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں، نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتے ہیں، اور نہ ان میں کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی کے ساتھ رعایت پائی جاتی ہے۔ خدائی قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ:

’’وہ بناؤ کو پسند کرتا ہے اور بگاڑکو پسند نہیں کرتا‘‘۔

مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے، اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے، اس کے دیے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔۔۔ اور اس سے یہ توقع کی بھی نہیں جاسکتی کہ وہ کبھی اسے پسند کرے گا۔۔۔ کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اُجاڑی جائے اور اس کو بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کر ڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، ان میں سے صرف وہ لوگ خدا کی نظرِ انتخاب میں مستحق ٹھہرتے ہیں جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ انہی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔

زیادہ بگاڑنے والے نکال پھینکے جاتے ہیں

پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک ان کا بناؤ ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا امیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے۔ مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انہیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔

باغ کے مالک اور مالی کی مثال

یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا کوئی باغ ہو اور وہ اسے ایک مالی کے سپرد کرے تو آپ خود بتایئے کہ وہ اس مالی سے اولین بات کیا چاہے گا؟ باغ کا مالک اپنے مالی سے اس کے سوا اور کیا چاہ سکتا ہے کہ وہ اس باغ کو بنائے، نہ کہ خراب کرکے رکھ دے۔ وہ تو لازماً یہی چاہے گا کہ اس کے باغ کو زیادہ سے زیادہ بہتر حالت میں رکھا جائے، زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ اس کے حسن میں، اس کی صفائی میں، اس کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ جس مالی کو وہ دیکھے گا کہ وہ خوب محنت سے جی لگا کر سلیقے اور قابلیت کے ساتھ اس کے باغ کی خدمت کررہا ہے، اس کی رَوِشوں کو سنوار رہا ہے، اس کے اچھے درختوں کی پرورش کررہا ہے، اس کو بری ذات کے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کررہا ہے، اس میں اپنی جدت اور جودت سے عمدہ پھلوں اور پھولوں کی نئی نئی قسموں کا اضافہ کررہا ہے، تو ضرور ہے کہ وہ اس سے خوش ہو، اسے ترقی دے اور ایسے لائق، فرض شناس اور خدمت گزار مالی کو نکالنا کبھی پسند نہ کرے۔ لیکن اس کے برعکس اگر وہ دیکھے کہ مالی نالائق بھی ہے، کام چور بھی ہے اور جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے اس باغ کے ساتھ بدخواہی بھی کررہا ہے۔ سارا باغ گندگیوں سے اٹا پڑا ہے، رَوِشیں ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں، پانی کہیں بلا ضرورت بہہ رہا ہے اور کہیں قطعے کے قطعے سوکھتے چلے جارہے ہیں۔ گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکار بڑھتے جاتے ہیں اور پھولوں اور پھل دار درختوں کو بے دردی کے ساتھ کاٹ کاٹ کر اور توڑ توڑ کر پھینکا جارہا ہے۔ اچھے درخت مرجھا رہے ہیں اور خار دار جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں، تو آپ خود ہی سوچیے کہ باغ کا مالک ایسے مالی کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟ کون سی سفارش، کون سی عرض و معروض اور دست بستہ التجائیں اور کون سے آبائی حقوق یا دوسرے خود ساختہ حقوق کا لحاظ اس کو اپنا باغ ایسے مالی کے حوالے کیے رہنے پر آمادہ کرسکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ رعایت وہ بس اتنی ہی تو کرے گا کہ اسے تنبیہہ کرکے پھر ایک موقع دے دے۔ مگر جو مالی تنبیہہ پر بھی ہوش میں نہ آئے اور باغ کو اجاڑے ہی چلاجائے اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہے کہ باغ کا مالک کان پکڑ کر اسے نکال باہر کرے اور دوسرا مالی اس کی جگہ رکھ لے۔

اب غور کیجیے کہ اپنے ایک ذرا سے باغ کے انتظام میں جب آپ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو خدا، جس نے اپنی اتنی بڑی زمین اتنے سروسامان کے ساتھ انسانوں کے حوالہ کی ہے اور اتنے وسیع اختیارات ان کو اپنی دنیا اور اس کی چیزوں پر دیے ہیں، وہ آخر اس سوال کو نظر انداز کیسے کرسکتا ہے کہ آپ اس کی دنیا بنارہے ہیں یا اجاڑ رہے ہیں۔ آپ بنارہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ آپ کو خواہ مخواہ ہٹادے۔ لیکن اگر آپ بنائیں کچھ نہیں اور اس کے اس عظیم الشان باغ کوبگاڑتے اور اجاڑتے ہی چلے جائیں، تو آپ نے اپنے دعوے اپنی دانست میںخواہ کیسی ہی زبردست من مانی بنیادوں پر قائم کررکھے ہوں، وہ اپنے باغ پر آپ کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کچھ تنبیہات کرکے، سنبھلنے کے دوچار مواقع دے کر، آخر کار وہ آپ کو انتظام سے بے دخل کرکے ہی چھوڑے گا۔

مالک و ملازم کے نقطہ نظر کا فرق

اس معاملہ میں خدا کا نقطۂ نظر انسانوں کے نقطۂ نظر سے اسی طرح مختلف ہے جس طرح خود انسانوں میں ایک باغ کے مالک کا نقطۂ نظر اس کے مالی کے نقطۂ نظر سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ فرض کیجیے کہ مالیوں کا ایک خاندان دوچار پشت سے ایک شخص کے باغ میں کام کرتا چلاآرہا ہے۔ ان کا کوئی دادا پردادا اپنی لیاقت و قابلیت کی وجہ سے یہاں رکھا گیا تھا۔ پھر اس کی اولاد نے بھی کام اچھا کیا۔ مالک نے سوچا کہ خواہ مخواہ انہیں ہٹانے اور نئے آدمی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب کام یہ بھی اچھا ہی کررہے ہیں تو ان کا حق دوسروں سے زیادہ ہے۔ اس طرح یہ خاندان باغ میں جم گیا۔ لیکن اب اس خاندان کے لوگ نہایت نالائق، بے سلیقہ، کام چور اور نافرض شناس اٹھے ہیں۔ باغبانی کی کوئی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے۔ سارے باغ کا ستیاناس کیے ڈالتے ہیں اور اس پر ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم باپ دادا کے وقتوں سے اس باغ میں رہتے چلے آتے ہیں، ہمارے پردادا ہی کے ہاتھوں اول اول یہ باغ آباد ہوا تھا۔ لہٰذا ہمارے اس پر پیدائشی حقوق ہیں اور اب کسی طرح یہ جائز نہیں ہے کہ ہمیں بے دخل کرکے کسی دوسرے کو یہاں کا مالی بنادیا جائے۔ یہ ان نالائق مالیوں کا نقطہ نظر ہے مگر کیاباغ کے مالک کا نقطۂ نظر بھی یہی ہوسکتا ہے؟ کیا وہ یہ نہ کہے گا کہ میرے نزدیک سب سے مقدم چیز میرے باغ کا حُسنِ انتظام ہے۔ میں نے یہ باغ تمہارے پردادا کے لیے نہیں لگایا تھا، بلکہ تمہارے پردادا کو باغ کے لیے نوکر رکھا تھا۔ تمہارے اس پر جو حقوق بھی ہیں خدمت اور قابلیت کے ساتھ مشروط ہیں۔ باغ کو بناؤ گے تو تمہارے سب حقوق کا لحاظ کیاجائے گا۔ اپنے پرانے مالیوں سے آخر مجھے کیا دشمنی ہوسکتی ہے کہ وہ کام اچھا کریں تب بھی میں انہیں خواہ مخواہ نکال ہی دوں اور نئے امیدواروں کا بلا ضرورت تجربہ کروں؟ لیکن اگر اس باغ کو ہی تم بگاڑتے اور اجاڑتے رہے، جس کے انتظام کی خاطر تمہیں رکھا گیا تھا تو پھر تمہارا کوئی حق مجھے تسلیم نہیں ہے۔ دوسرے امیدوار موجود ہیں۔ باغ کا انتظام ان کے حوالے کردوں گا اور تم کو ان کے ماتحت پیش خدمت بن کر رہنا ہوگا۔ اس پر بھی اگر تم درست نہ ہوئے اور ثابت ہوا کہ ماتحت کی حیثیت سے بھی تم کسی کام کے نہیں ہو، بلکہ کچھ بگاڑنے ہی والے ہو، تو تمہیں یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا اور تمہاری جگہ خدمت گار بھی دوسرے ہی لاکر بسائے جائیںگے۔

خدا اور بندوں کے نقطہ نظر کا فرق

یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق دنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطۂ نظر میںبھی ہے۔ دنیاکی مختلف قومیں زمین کے جس جس خطہ میںبستی ہیں، ان کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے۔ پشت ہا پشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہاں رہتے چلے آرہے ہیں۔ اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں۔ لہٰذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہیے۔ کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آکر یہاں کا انتظام کرے۔ مگر زمین کے اصلی مالک، خدا کانقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ اس نے کبھی ان قومی حقوق کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ نہیں مانتا کہ ہر ملک پر اس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے، جس سے ان کوکسی حال میں بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میںکام کیا کررہی ہے۔ اگر وہ بناؤ اور سنوار کے کام کرتی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح و ترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیداوار روکنے اور بھلائیوں کی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو، تو مالک کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہو کہ یہاں کا انتظام تمہارے ہاتھ میںرہنے دیا جائے۔ تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو۔ لہٰذا تمہارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے۔ لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بناؤ کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جارہے ہوں۔ بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور برائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جارہی ہو۔ جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا ہے، اسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جارہا ہو اور کوئی بہتر کام اس سے لیا ہی نہ جاتا ہو، تو پھر خدا کی طرف سے پہلے کچھ ہلکی اور کچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں، تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویہ درست کرلیں۔ پھر جب وہ قوم اس پردرست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کردیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو، جو کم از کم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو وہاں کی حکومت دے دی جاتی ہے اور بات اس پر بھی ختم نہیں ہوجاتی۔ اگر ماتحت بننے کے بعد بھی باشندگان ملک کسی لیاقت و اہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے کچھ بھی بن نہ آئے گا بلکہ کچھ بگڑ ہی جائے گا، تو خدا پھر ایسی قوم کومٹادیتا ہے اور دوسروں کو لے آتا ہے، جو اس کی جگہ بستے ہیں۔ اس معاملہ میں خدا کا نقطۂ نظر ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میںدعوے داروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیںدیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں سے کون بناؤ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میںسے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں، انتخاب انہی کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بناؤ زیادہ رہتا ہے، یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیںآجاتا، اس وقت تک انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے۔

تاریخ کی شہادت

یہ جو کچھ عرض کررہا ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دور کیوں جایئے، خود اپنے اسی ملک کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ یہاں جو قومیں پہلے آباد تھیں، ان کی تعمیری صلاحیتیں جب ختم ہوگئیں تو خدا نے آریوں کو یہاں کے انتظام کا موقع دیا جو اپنے وقت کی قوموں میں سب سے زیادہ اچھی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ انہوں نے یہاں آکر ایک بڑے شاندار تمدن کی بنا رکھی، بہت سے علوم و فنون ایجاد کیے، زمین کے خزانوں کو نکالا اور انہیں بہتری میں استعمال کیا، بگاڑ سے زیادہ بناؤ کے کام کرکے دکھائے۔ یہ قابلیتیں جب تک ان میں رہیں، تاریخ کے سارے نشیبوں اور فرازوں کے باوجود وہی اس ملک کے منتظم رہے۔ دوسرے امیدوار بڑھ بڑھ کر آگے آئے مگر دھکیل دیے گئے، کیونکہ ان کے ہوتے دوسرے منتظم کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے حملے زیادہ سے زیادہ بس یہ حیثیت رکھتے تھے کہ جب کبھی یہ ذرا بگڑنے لگے تو کسی کو بھیج دیا گیا تاکہ انہیں متنبہ کردے۔ مگر جب یہ بگڑتے ہی چلے گئے اور انہوں نے بناؤ کے کام کم اور بگاڑ کے کام زیادہ کرنے شروع کر دیے۔ جب انہوں نے اخلاق میں وہ پستی اختیار کی جس کے آثار بام مارگی تحریک میں آپ اب بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جب انہوں نے انسانیت کی تقسیم کرکے خود اپنی ہی سوسائٹی کو ورنوں اور ذاتوں میں پھاڑ ڈالا اور اپنی اجتماعی زندگی کو ایک زینے کی شکل میں ترتیب دیا جس کی ہر سیڑھی کا بیٹھنے والا اپنے سے اوپر کی سیڑھی والے کا بندہ اور نیچے کی سیڑھی والے کا خدا بن گیا۔ جب انہوں نے خدا کے لاکھوں کروڑوں بندوں پر وہ ظلم ڈھایا جو آج تک اچھوت پن کی شکل میں موجود ہے۔ جب انہوں نے علم کے دروازے عام انسانوں پر بند کر دیے اور ان کے پنڈت علم کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے اور جب ان کے کارفرما طبقوں کے پاس اپنے زبردستی جمائے ہوئے حقوق وصول کرنے اور دوسروں کی محنتوں پر داد عیش دینے کے سوا کوئی کام نہ رہا، تو خدا نے آخر کار ان سے ملک کا انتظام چھین لیا اور وسط ایشیا کی ان قوموں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا جو اس وقت اسلامی تحریک سے متاثر ہوکر زندگی کی بہتر صلاحیتوں سے آراستہ ہوگئی تھیں۔

ہندوستان پر مسلمانوں کا اقتدار

یہ لوگ سیکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کرکے شامل ہوگئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑا اس سے زیادہ بنایا۔ کئی برس تک ہندوستان میں بناؤ کا جو کام بھی ہوا، انہی کے ہاتھوں ہوا یا پھر ان کے اثر سے ہوا۔ انہوں نے علم کی روشنی پھیلائی، خیالات کی اصلاح کی، تمدن و معاشرت کو بہت کچھ درست کیا، ملک کے ذرائع و وسائل کو اپنے عہد کے معیار کے لحاظ سے بہتری میں استعمال کیا اور امن و انصاف کا وہ عمدہ نظام قائم کیا، جو اگرچہ اسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا، مگر پہلے کی حالت اور گردو وپیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔

اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش روئوں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بناؤ کی صلاحیتیں گھٹنی شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے بھی اونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کرکے خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا، جس کے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔ انہوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ کرنا شروع کردیا۔ وہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر ناجائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انہوں نے بھی ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کرخدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا، اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی و عیش پرستی میں وہ اتنے کھوئے کہ جب آخری شکست کھاکر ان کے فرماں رواؤں کو دلی کے لال قلعہ سے نکلنا پڑا تو ان کے شاہزادے۔۔۔ وہی جو کل تک حکومت کے امیدوار تھے۔۔۔ جان بچانے کے لیے بھاگ بھی نہ سکتے تھے۔ کیونکہ زمین پر چلنا انہوں نے چھوڑ رکھا تھا۔

مسلمانوں کی عام اخلاقی پستی اس حد کو پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی جو انہیں دین فروشی، قوم فروشی اور ملک فروشی سے روکتی۔ ان میں ہزاروں لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے جن کی اخلاقی حالت پالتو کتوں کی سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر انہیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے ان سے شکار کرالے۔ ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ، جس کی بدولت ان کے دشمن خود انہی کے ہاتھوں ان کا ملک فتح کررہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالبؔ جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ ’’سوپشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری‘‘۔ یہ بات کہتے ہوئے اتنے بڑے شاعر کو ذرا خیال تک نہ گزرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی بات نہیں، ڈوب مرنے کی بات ہے۔

اقتدار سے مسلمانوں کی معزولی

جب ان کی یہ حالت ہوگئی تو خدا نے ان کی معزولی کا بھی فیصلہ کرلیا اور ہندوستان کے انتظام کا منصب پھر نئے امیدواروں کے لیے کھل گیا۔ اس موقع پر چار امیدوار میدان میں تھے۔ مرہٹے، سکھ، انگریز اور بعض مسلمان رئیس۔ آپ خود انصاف کے ساتھ، قومی تعصب کی عینک اتار کر اس دور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے کسی میں بھی بناؤ کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا اس سے کہیں زیادہ بگاڑ مرہٹوں، سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا وہ ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انہوں نے بگاڑا اس سے بہت زیادہ یہ امیدوار بگاڑ کر رکھ دیتے۔ مطلقاً دیکھئے تو انگریزوں میں بہت سے پہلوئوں سے بے شمار برائیاں آپ کو نظر آئیں گی۔ مگر مقابلتاً دیکھیے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے ان کی برائیاں بہت کم اور ان کی خوبیاں بہت زیادہ نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اس من مانے اصول کو توڑ دیا جو انہوں نے بغیر کسی حق کے بنارکھا ہے کہ ’’ہر ملک خود ملکیوں کے لیے ہے، خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں‘‘۔

اُس نے تاریخ کے اٹل فیصلہ سے ثابت کیا کہ نہیں، ملک تو خدا کا ہے، وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کا انتظام کس کے سپرد کرے اور کس سے چھین لے۔ اس کا فیصلہ کسی نسلی ، قومی یا آبائی حق کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُوْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُز وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُزِلُّ مَنْ تَشَآئُط بِیَدِکَ الْخَیْرُط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (آلِ عمران۔۲۶)

’’کہو، خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

اس طرح اللہ تعالیٰ ہزاروں میل کے فاصلہ سے ایک ایسی قوم کو لے آیا جو کبھی یہاں تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو، مسلم، سکھ، سب طاقتوں کو زیر کرکے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے اُن مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تن تنہا ایک ایک ضلع پر حکومت کی، بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دوسرا فرد اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندوستانیوں نے جو کچھ کیا، پیش خدمت کی حیثیت سے کیا، نہ کہ کارفرما کی حیثیت سے۔ ہم سب کو یہ ماننا پڑے گا، اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں، جب کہ انگریز یہاں رہے، بناؤ کا جو کچھ بھی کام ہوا، انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثر سے ہوا۔ جس حالت میں انہوں نے ہندوستان کو پایا تھا، اس کے مقابلہ میں آج کی حالت دیکھیے تو آپ اس بات سے انکار نہ کرسکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود، بناؤ کا بہت سا کام ہوا ہے، جس کے خود اہلِ ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہرگز توقع نہ کی جاسکتی تھی۔ اس لیے تقدیر الٰہی کا وہ فیصلہ غلط نہ تھا جو اس نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں کردیاتھا۔

انگریزوں کا اخراج

اب دیکھیے کہ جو کچھ انگریز بناسکتے تھے وہ بناچکے ہیں۔ ان کے بناؤ کے حساب میں اب کوئی خاص اضافہ نہیں ہوسکتا۔ اس حساب میں جو اضافہ وہ کرسکتے ہیں، وہ دوسروں کے ہاتھوں بھی ہوسکتا ہے۔ مگر دوسری طرف ان کے بگاڑ کا حساب بہت بڑھ چکا ہے اور جتنی مدت بھی وہ یہاں رہیں گے، بناؤ کی نسبت بگاڑ ہی زیادہ بڑھائیں گے۔ ان کی فردِ جرم اتنی لمبی ہے کہ اسے ایک صحبت میں بیان کرنا مشکل ہے اور اس کے بیان کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ سب کے سامنے ہے۔ اب تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ یہاں کے انتظام سے بے دخل کردیے جائیں۔ انہوں نے بہت عقلمندی سے کام لیا کہ خود سیدھی طرح رخصت ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ سیدھی طرح نہ جاتے تو ٹیڑھی طرح نکالے جاتے۔ کیونکہ خدا کے اٹل قوانین اب ان کے ہاتھ میں یہاں کا انتظام رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔

آزادی۔۔۔ ہندوستان کے باشندوں کا امتحان

یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں، تاریخ کے اہم مواقع میں سے ہے۔ جب زمین کا اصلی مالک، کسی ملک میں ایک انتظام کو ختم کرتا ہے اور دوسرے انتظام کا فیصلہ کرتا ہے۔ بظاہر جس طرح یہاں انتقالِ اختیارات کا معاملہ طے ہوتا نظر آرہا ہے، اس سے یہ دھوکا نہ کھا جایئے کہ یہ قطعی فیصلہ ہے جو ملک کا انتظام خود اہلِ ملک کے حوالے کیے جانے کے حق میں ہورہا ہے۔ آپ شاید معاملہ کی سادہ سی صورت سمجھتے ہوں گے کہ اجنبی لوگ جو باہر سے آکر حکومت کررہے تھے، واپس جارہے ہیں۔ اس لیے اب یہ آپ سے آپ ہونا ہی چاہیے کہ ملک کا انتظام خود ملکیوں کے ہاتھ میں آئے۔ نہیں، خدا کے فیصلے اس طرح کے نہیں ہوتے۔ وہ ان اجنبیوں کو نہ پہلے بلاوجہ لایا تھا، نہ اب بلاوجہ لے جارہا ہے۔ نہ پہلے الل ٹپ اس نے آپ سے انتظام چھینا تھا اور نہ اب الل ٹپ وہ اسے آپ کے حوالہ کردے گا۔

دراصل اس وقت ہندوستان کے باشندے امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندو، مسلمان، سکھ، سب امیدوار ہیں۔ چونکہ یہ پہلے سے یہاں آباد چلے آرہے ہیں، اس لیے پہلا موقع انہی کو دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ مستقل تقرر نہیں ہے، بلکہ محض امتحانی موقع ہے۔ اگر فی الواقع انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے اندر بگاڑ سے بڑھ کر بناؤ کی صلاحیتیں ہیں تب تو ان کا تقرر مستقل ہوجائے گا۔ ورنہ اپنے بناؤ سے زیادہ اپنا بگاڑ پیش کرکے یہ بہت جلدی دیکھ لیں گے کہ انہیں پھر اس ملک کے انتظام سے بے دخل کردیا جائے گا اور دور و نزدیک کی قوموں میں سے کسی ایک کو اس خدمت کے لیے منتخب کرلیا جائے گا۔ پھر اس فیصلے کے خلاف یہ کوئی فریاد تک نہ کرسکیں گے۔ دنیا بھر کے سامنے اپنی نالائقی کا کھلا ثبوت دے چکنے کے بعد ان کا کیا منہ ہوگا کہ کوئی فریاد کریں اور ڈھیٹ بن کرفریاد کریں گے بھی تو اس کی داد کون دے گا۔

ہماری اخلاقی حالت

اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندوستان کے لوگ۔۔۔ ہندو، مسلمان، سکھ۔۔۔ اس امتحان کے موقع پر اپنے خدا کے سامنے اپنی کیا صلاحیتیں اور قابلیتیں اور اپنے کیا اوصاف اور کارنامے پیش کررہے ہیں، جن کی بنا پر یہ امید کرسکتے ہوں کہ خدا اپنے ملک کا انتظام پھر ان کے سپرد کردے گا۔ اس موقع پر اگر میں بے لاگ طریقے سے کھلم کھلا وہ فردِ جرم سنادوں جو اخلاق کی عدالت میں ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں سب پر لگتی ہے، تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ برا نہ مانیں گے۔ اپنی قوم اور اپنے وطنی بھائیوں کے عیوب بیان کرکے خوشی تو مجھے بھی نہیں ہوتی۔ حقیقت میں میرا دل روتا ہے۔ مگر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ خواہ وہ راضی ہوں یا ناراض، بہرحال سچی بات ان سے کہہ دوں۔ کیوں کہ میں گویا اپنی آنکھوں سے اس انجام کو دیکھ رہا ہوں جو ان عیوب کی بنا پر کل انہیں دیکھنا ہی نہیں، بھگتنا بھی پڑے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ عیوب انہیں لے ڈوبیں گے۔ ہم، آپ، کوئی بھی ان کے انجامِ بد سے نہ بچے گا۔ اس لیے میں انہیں دلی رنج کے ساتھ بیان کرتا ہوں تاکہ جن کے کان ہوں وہ سنیں اور اصلاح کی کچھ فکر کریں۔

ہمارے افراد کی عام اخلاقی حالت جیسی کچھ ہے، آپ اس کا اندازہ خود اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بنا پر کیجیے۔ ہم میں کتنے فیصد آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں، کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے میں، کوئی ’’مفید‘‘ جھوٹ بولنے اور کوئی ’’نفع بخش‘‘ بے ایمانی کرنے میںصرف اس بنا پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً برا ہے؟ جہاں قانون گرفت نہ کرتا ہو، یا جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو، وہاں کتنے فی صدی اشخاص محض اپنے اخلاقی احساس کی بنا پر کسی جرم اور کسی برائی کاارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو، وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی، ہمدردی، ایثار، حق رسانی اور حسنِ سلوک کا برتاؤ کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے، جو دھوکے، فریب، جھوٹ اور ناجائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب کیا ہے، جو اپنے فائدے کے ساتھ کچھ اپنے خریداروں کے مفاد، اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ ہمارے زمینداروں میںکتنے ہیں جو غلہ روکتے ہوئے اور بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے وہ کتنے لاکھ، بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کوفاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟ ہمارے مالداروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی ظلم، کسی حق تلفی، کسی بددیانتی کا دخل نہیں ہے؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میںکتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے، ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے، اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں میں، ہمارے اخبار نویسوں میں، ہمارے ناشرین و مصنفین میں، ہمارے ’’قومی خدمت گزاروں‘‘ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلق خدا کو ذہنی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں؟ شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ کہوں کہ ہماری آبادی میںبمشکل ۵ فیصدی لوگ اس اخلاقی جذام سے بچے رہ گئے ہیں، ورنہ ۹۵ فیصدی کو یہ چھوت بری طرح لگ چکی ہے۔ اس معاملہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہریجن کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ سب کے سب یکساں بیمار ہیں، سب کی اخلاقی حالت انتہائی خوفناک حد تک گری ہوئی ہے اور کسی گروہ کا حال دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔

اخلاقی تنزل کے ثمرات

اخلاقی تنزل کی یہ وبا جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانے پر اجتماعی شکل میں اس کا ظہور شروع ہوجائے۔ اس آنے والے طوفان کی پہلی علامت ہمیں اس وقت نظر آئی جب جنگ کی وجہ سے ریلوں میںمسافروں کا ہجوم ہونے لگا۔ وہاں ایک ہی قوم اور ایک ہی ملک کے لوگوں نے آپس میںایک دوسرے کے ساتھ جس خود غرضی، بیدردی اور سنگ دلی کا سلوک کیاوہ پتا دے رہا تھا کہ ہمارے عام اخلاق کس تیز رفتاری کے ساتھ گررہے ہیں۔ پھر اشیا کی کمیابی و گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھر بنگال کاوہ ہولناک مصنوعی قحط رونما ہوا، جس میں ہمارے ایک طبقہ نے اپنے ہی ملک کے لاکھوں انسانوں کو اپنے نفع کی خاطر بھوک سے تڑپا تڑپا کر مار دیا۔ یہ سب ابتدائی علامات تھیں۔ اس کے بعد خباثت، کمینہ پن، درندگی اور وحشت کا وہ لاوا یکایک پھٹ پڑا جو ہمارے اندر مدتوں سے پک رہا تھا اور اب وہ فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں ہندوستان کو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک بھسم کررہا ہے۔ کلکتہ کے فساد کے بعد سے ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں کی قومی کشمکش کا جو نیا باب شروع ہوا ہے، اس میں یہ تینوں قومیں اپنی ذلیل ترین صفات کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ جن افعال کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی انسان ان کا بھی مرتکب ہوسکتا ہے، آج ہماری بستیوں کے رہنے والے اعلانیہ ان کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بڑے بڑے علاقوں کی پوری پوری آبادیاں غنڈہ بن گئی ہیںاور وہ کام کررہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیرخوار بچوں کو ماؤں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا ہے۔ شریف عورتوں کو برسرعام ننگا کیا گیا ہے اور ہزاروں کے مجمع میںان کے ساتھ بدکاری کی گئی ہے۔ باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے سامنے ان کی بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروں، زخمیوں اور بوڑھوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔ مسافروں کو چلتی ریل پر سے پھینکا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضا کاٹے گئے ہیں۔ نہتے اور بے بس انسانوں کا جانوروں کی طرح شکار کیا گیا ہے۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو لوٹا ہے۔ دوستوں نے دوستوں سے دغا کی ہے۔ پناہ دینے والوں نے خود اپنی ہی دی ہوئی پناہ کو توڑا ہے۔ امن و امان کے محافظوں (پولیس، فوج اور مجسٹریٹوں) نے اعلانیہ فساد میں حصہ لیا ہے، بلکہ خود فساد کیا اور اپنی حمایت و نگرانی میںفساد کرایا ہے۔ غرض ظلم و ستم، سنگ دلی و بے رحمی اور کمینگی و بدمعاشی کی کوئی قسم ایسی نہیں رہ گئی ہے جس کا ارتکاب ان چند مہینوں میں ہمارے ملک کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر نہ کیا ہو اور ابھی دلوں کا غبار پوری طرح نکلا نہیں ہے۔ آثار بتارہے ہیں کہ یہ سب کچھ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے اور بدرجہا بدتر صورت میں ابھی ہونے والا ہے۔

کیا یہ نتائج اتفاقی ہیں؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط فہمی میںمبتلا ہیں۔ ابھی میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ اس ملک کی آبادی کے ۹۵ فیصد افراد اخلاقی حیثیت سے بیمار ہوچکے ہیں۔ جب افراد کی اتنی بڑی اکثریت بداخلاق ہوجائے تو قوموں کا اجتماعی رویہ آخر کیسے درست ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان اور سکھ، تینوں قوموں میں سچائی، انصاف اور حق پسندی کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ راست باز، دیانتدار اور شریف انسان ان کے اندر نکّو بن کر رہ گئے ہیں۔ برائی سے روکنا اور بھلائی کی نصیحت کرنا، ان کی سوسائٹی میں ایک ناقابلِ برداشت جرم ہوگیا ہے۔ حق اور انصاف کی بات سننے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قوم کو وہی لوگ پسند ہیں جو اپنی قوم کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات اور اغراض کی وکالت کریں، دوسروں کے خلاف اس کے تعصبات کو بھڑکائیں اور اس کے جائز و ناجائز مقاصد کے لیے لڑنے کو تیار ہوں۔ اسی بنا پر ان قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بدترین آدمیوں کو چنا اور انہیں اپنا نمائندہ بنایا۔ انہوں نے اپنے اکابر مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انہیں اپنا سربراہ کار بنا لیا۔ ان کی سوسائٹی میں جو سب سے زیادہ پست اخلاق، بے ضمیر اور بے اصول تھے، وہ ان کی ترجمانی کے لیے اٹھے اور اخبار نویسی کے میدان میں وہی سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے۔ پھر یہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے کر چلے۔ انہوں نے متضاد قومی خواہشات کو کسی نقطۂ انصاف پر جمع کرنے کے بجائے اتنا بڑھایا کہ وہ آخر کار نقطۂ تصادم پر پہنچ گئیں۔ انہوں نے معاشی و سیاسی اغراض کی کشمکش میں غصے اور نفرت اور عداوت کا زہر ملایا اور اسے روز بروز بڑھاتے چلے گئے۔ انہوں نے برسوں اپنی زیر اثر قوموں کو اشتعال انگیز تقریروں کے انجکشن دے دے کر یہاں تک بھڑکایا کہ وہ جوش میں آکر کتوں اور بھیڑیوں کی طرح لڑنے کھڑی ہوگئیں۔ انہوں نے عوام اور خواص کے دلوں کو ناپاک جذبات کی سنڈاس اور اندھی دشمنی کا تنور بناکر رکھ دیا۔ اب جو طوفان آپ کی نگاہوں کے سامنے برپا ہے، یہ کوئی وقتی اور ہنگامی چیز نہیں ہے جو اچانک رونما ہوگئی ہو۔ یہ تو قدرتی نتیجہ ہے بگاڑ کے ان بے شمار اسباب کا جو مدتوں سے ہمارے اندر کام کررہے تھے اور یہ نتیجہ بس ایک ہی دفعہ ظاہر ہوکر نہیں رہ جائے گا، بلکہ جب تک وہ اسباب اپنا کام کیے جارہے ہیں، یہ روز افزوں ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتا چلاجائے گا۔ یہ ایک بِس بھری فصل ہے جو برسوں کی تخم ریزی و آبیاری کے بعد اب پک کر تیار ہوئی ہے اور اسے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو نہ معلوم کب تک کاٹنا پڑے گا۔

اپنے اعمال کا جائزہ لیجیے

حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانونِ قدرت کے مطابق اس ملک کی قسمت کا نیا انتظام درپیش ہے، ہم مالکِ زمین کے سامنے اپنی اہلیت و قابلیت کا کیا ثبوت پیش کررہے ہیں؟ موقع تو یہ تھا کہ ہم اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرتے کہ اگر وہ اپنی زمین کا انتظام ہمارے حوالے کرے گا تو ہم اسے خوب بنا سنوار کر گلزار بنادیں گے۔ ہم اس میں انصاف کریں گے۔ اسے ہمدردی اور تعاون اور رحمت کا گہوارہ بنائیں گے۔ اس کے وسائل کو اپنی اور انسانیت کی فلاح میں استعمال کریں گے۔ اس میں بھلائیوں کو پروان چڑھائیں گے اور برائیوں کو دبائیں گے۔ لیکن ہم اسے بتارہے ہیں کہ ہم ایسے غارت گر، اس قدر مُفسد اور اتنے ظالم ہیںکہ اگر تو نے یہ زمین ہمارے حوالے کی تو ہم اس کی بستیوں کو اجاڑ دیں گے، محلے کے محلے اور گاؤں کے گاؤں پھونک دیں گے، انسانی جان کو مکھی اور مچھر سے زیادہ بے قیمت کر دیں گے، عورتوں کو بے عزت کریں گے، چھوٹے بچوں کو شکار کریں گے، بوڑھوں اور بیماروں اور زخمیوں پر بھی رحم نہ کھائیں گے، عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں تک کو اپنے نفس کی گندگی سے لیس دیں گے اور جس زمین کو تو نے انسانوں سے آباد کیا ہے اس کی رونق ہم لاشوں اور جلی ہوئی عمارتوں سے بڑھائیں گے۔ کیا واقعی آپ کا ضمیر یہ گواہی دیتا ہے کہ اپنی یہ خدمات، یہ اوصاف، یہ کارنامے پیش کرکے آپ خدا کی نگاہ میں اس کی زمین کے انتظام کے لیے اہل ترین بندے قرار پائیں گے؟ کیا یہ کرتوت دیکھ کر وہ آپ سے کہے گا کہ ’’شاباش! اے میرے پرانے مالیوں کی اولاد! تم ہی سب سے بڑھ کرمیرے باغ کی رکھوالی کے قابل ہو۔ اسی اکھیڑ پچھاڑ، اسی اجاڑ اور بگاڑ، اسی تباہی و بربادی اور گندگی و غلاظت کے لیے تو میں نے یہ باغ لگایا تھا۔ لو اب اسے اپنے ہاتھ میں لے کر خوب خراب کرو‘‘؟

اصلاح کی فکر کیجیے

میں یہ باتیں آپ سے اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے اور اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس ہوجائیں۔ میں نہ تو خود مایوس ہوں، نہ کسی کو مایوس کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مدعا آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہندوستان کے لوگ اپنی حماقت اور جہالت سے اس زرین موقع کو کھونے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی ملک کی قسمت بدلتے وقت صدیوں کے بعد خداوند عالم اس کے باشندوں کو دیا کرتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے اعلیٰ اوصاف اور اپنی بہترین صلاحیتوں کا ثبوت پیش کرتے تاکہ خدا کی نگاہ میں انتظامِ زمین کے اہل قرار پاتے۔ مگر آج ان کے درمیان مقابلہ اس چیز میں ہورہا ہے کہ کون زیادہ غارت گر، زیادہ سفاک اور زیادہ ظالم ہے تاکہ سب سے بڑھ کر خدا کی لعنت کا وہی مستحق قرار پائے۔ یہ لچھن آزادی اور ترقی اور سرفرازی کے نہیں ہیں۔ ان سے تو اندیشہ ہے کہ کہیں پھر ایک مدت دراز کے لیے ہمارے حق میں غلامی اور ذلت کافیصلہ نہ لکھ دیا جائے۔ لہٰذا جو لوگ عقل و ہوش رکھتے ہیں انہیں ان حالات کی اصلاح کے لیے کچھ فکر کرنی چاہیے۔

اصلاح کیسے ہو؟

اس مرحلہ پر آپ کے دل میں یہ سوال خود بخود پیدا ہوگا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے کے لیے حاضر ہوں۔

اس تاریکی میں ہمارے لیے امید کی ایک ہی شعاع ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے، بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فیصد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتداء کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پہلا قدم۔۔۔ صالح عنصر کی تنظیم

اصلاح کی راہ میںپہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمتی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کررہی ہے، لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں۔ ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔ کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہیں۔ کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے ان کو بالکل بے اثر بنادیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گرد و پیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے، مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات اعلانیہ کہہ بیٹھتا ہے، مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کردیتی ہے اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کوداد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کرسکتا اور اس پر احتجاج کرگزرتا ہے، مگر ظالم لوگ ہجوم کرکے اسے دبالیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہوجاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے ۔ یہ حالت اب ختم ہونی چاہے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہوجائیں، تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں، وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنہ کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ مسائلِ زندگی کاایک بہتر حل اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلہ میںمنظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کردیا ہے اسے بالکل معدوم نہیں کیاجاسکتا۔ انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی سے ہی دلچسپی رکھتے ہوں اور اس کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنہیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی سے ہی انہیں غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علمبرداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انہیں اپنے راستہ کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علمبردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علمبردارانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علمبردار بھی میدان میں موجود ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علمبردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخر کار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو برے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ، ایمانداری کے مقابلہ میں بے ایمانی اور پاکبازی کے مقابلہ میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے، آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمانداری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور برے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخر کار اس کا فیصلہ یہی ہوکہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔

دوسرا قدم۔۔۔ بناؤ، بگاڑ کا واضح تصور

اصلاح کے لیے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بناؤ اور بگاڑ کا ایک واضح تصور موجود ہو۔ ہم اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ بگاڑ کیا ہے تاکہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے، اور بناؤ کیا ہے تاکہ اسے عمل میں لانے پر سارا زور لگادیا جائے۔ تفصیلات میں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے، میں بڑے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے ان دونوں چیزوں کی ایک تصویر پیش کروں گا۔

بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر

انسانی زندگی میں بگاڑ جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے ان کو ہم چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کرسکتے ہیں:

(۱) خدا سے بے خوفی۔ یہ دنیا میں بے انصافی، بے رحمی، خیانت اور ساری اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے۔

(۲) خدا کی ہدایت سے بے نیازی۔ اس نے انسان کے لیے کسی معاملہ میں بھی ایسے مستقل اخلاقی اصول باقی نہیں رہنے دیے ہیں جن کی پابندی کی جائے۔ اسی چیز کی بدولت اشخاص اور گروہوں اور قوموں کا سارا طرز عمل مفاد پرستی، لذت پرستی اور خواہشات کی غلامی پر قائم ہوگیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ اپنے مقاصد میں جائز و ناجائز کی تمیز کرتے ہیں اور نہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کے برے سے برے ذرائع اختیار کرنے میں انہیں ذرا سا تامل ہوتا ہے۔

(۳) خود غرضی۔ یہ صرف افراد ہی کو ایک دوسرے کی حق تلفی پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ بڑے پیمانے پر نسل پرستی، قوم پرستی اور طبقاتی امتیازات کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اس سے فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔

(۴) جمود یا بے راہ روی۔ اس کی وجہ سے انسان یا تو خدا کی دی ہوئی قوتوں کو استعمال ہی نہیں کرتا یا غلط استعمال کرتا ہے۔ یا تو خدا کے بخشے ہوئے ذرائع سے کام نہیں لیتا یا غلط کام لیتا ہے۔ پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کاہل اور نکمّے لوگوں کو زیادہ دیر تک اپنی زمین پر قابض نہیں رہنے دیتا، بلکہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے جو کچھ نہ کچھ بنانے والے ہوں۔ دوسری صورت میں جب غلط کار قوموں کی تخریب ان کی تعمیر سے بڑھ جاتی ہے، تو وہ ہٹا کر پھینک دی جاتی ہیں اور بسا اوقات خود اپنی ہی تخریبی کارروائیوں کا لقمہ بنادی جاتی ہیں۔

اصلاح کرنے والے عناصر

اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہیں:

(۱) خدا کا خوف۔ یہ آدمی کو برائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لیے ایک ہی قابلِ اعتماد ضمانت ہے۔ راست بازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبطِ نفس اور وہ تمام دوسری خوبیاں جن پر ایک پُرامن اور ترقی پذیر تہذیب و تمدن کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعہ سے بھی کسی نہ کسی حد تک انہیں پیدا کیا جاسکتا ہے، جس طرح مغربی قوموں نے کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے۔ لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشوونما بس ایک حد پر جاکر رک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل ہی رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر برائی سے رکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں، بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر تمام انسانی معاملات میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔

(۲) خدائی ہدایت کی پیروی۔ یہ انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویہ کو اخلاق کے مستقل اصولوں کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں کا خود واضع اور مصنف رہتا ہے، اس کے پاس باتیں بنانے کے لیے کچھ اور اصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لیے کچھ اور۔ کتابوں میں آبِ زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق بالکل دوسری ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت اس کے اصول کچھ ہوتے ہیں اور خود معاملہ کرتے وقت کچھ۔ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دباؤ سے اس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور ’’حق‘‘ کو نہیں، بلکہ ’’اپنے مفاد‘‘ کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔ اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک، سب کا رویہ غلط ہوجاتا ہے اور اسی سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس جو چیز انسان کو امن، خوشحالی اور فلاح و سعادت بخش سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی کے مفاد کے لحاظ سے نہیں، بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں اور انہیں اٹل مان کر تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے، خواہ وہ معاملات شخصی ہوں یا قومی، خواہ وہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست اور صلح و جنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان ان کے اندر رد و بدل کے اختیار سے دست بردار ہوکر انہیں واجب الاتباع تسلیم کرلے۔

(۳) نظامِ انسانیت۔ یہ شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خود غرضیوں کے بجائے تمام انسانوں کے مساوی مرتبے اور مساوی حقوق پر مبنی ہو۔ جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں۔ جس میں اونچ نیچ، چھوت چھات اور مصنوعی تعصبات نہ ہوں۔ جس میں بعض کے لیے مخصوص حقوق اور بعض کے لیے بناوٹی پابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں۔ جس میں سب کو یکساں پھولنے پھلنے کا موقع ملے۔ جس میں اتنی وسعت ہو کہ روے زمین کے سارے انسان اس میں برابری کے ساتھ شریک ہوسکتے ہوں۔

(۴) عملِ صالح۔ یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو پوری طرح استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔

حضرات! یہ چار چیزیں ہیں، جن کے مجموعے کا نام ’’بناؤ‘‘ اور ’’صلاح‘‘ ہے اور ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر نیک انسانوں کی ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بناؤ کی ان صورتوں کو عمل میںلانے کے لیے پیہم جدوجہد کرے۔ یہ جدوجہد اس ملک کے باشندوں کو راہِ راست پر لانے میں کامیاب ہوگئی تو خدا ایسا بے انصاف نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی زمین کا انتظام اس کے اصلی باشندوں سے چھین کر کسی اور کو دے دے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ ناکام ہوئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا، آپ کا اور اس سرزمین کے رہنے والوں کا کیاانجام ہوگا!

مودودیؒ لٹریچر