بسم اﷲ الرحمن الرحیم
یہ مقالہ ۲۶ فروری ۱۹۴۴ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں پڑھا گیا
معمولی حالات میں‘ جب کہ زندگی کا دریا سکون کے ساتھ بہہ رہا ہو انسان ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتا ہے۔ کیوں کہ اوپر کی صاف شفاف سطح ایک پردہ بن جاتی ہے جس کے نیچے تہہ میں بیٹھی ہوئی گندگیاں اور غلاظتیں چھپی رہتی ہیں اور پردے کی اوپری صفائی آدمی کو اس بات کا تجسس کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہونے دیتی ہے کہ تہہ میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اور کیوں چھپا ہوا ہے‘ لیکن جب اس دریا میں طوفان برپا ہوتا ہے اور نیچے کی چھپی ہوئی ساری گندگیاں اور غلاظتیں ابھر کر برسرِ عام سطح دریا پر بہنے لگتی ہیں اس وقت اندھوں کے سوا ہر وہ شخص جس کے دیدوں میں کچھ بھی بینائی کانور باقی ہو‘ ہر اشتباہ کے بغیر صاف صاف دیکھ لیتا ہے کہ زندگی کا دریا کیا کچھ اپنے اندر لیے ہوئے چل رہا ہے‘ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام انسانوں میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہوسکتا ہے کہ اس منبع کا سراغ لگائیں جہاں سے دریاے زندگی میں یہ گندگیاں آرہی ہیں اور اس تدبیر کی جستجو کریں جس سے اس دریا کو پاک کیا اور رکھا جا سکے۔ فی الواقع اگر ایسے وقت میںبھی لوگوں کے اندر اس ضرورت کا احساس بیدار نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ نوعِ انسانی اپنی غفلت کے نشے میں مدہوش ہوکر سود و زیاں سے بالکل ہی بے خبر ہوچکی ہے۔
موجودہ قوموں کی اخلاقی حالت:
یہ زمانہ جس سے ہم آج کل گزررہے ہیں انہی غیر معمولی حالات کا زمانہ ہے۔ زندگی کا دریا اس وقت اپنی طغیانی پر ہے۔ ملک ملک اور قوم قوم کے درمیان سخت کش مکش برپا ہے اور یہ کشمکش اتنی گہرائی تک اتری ہوئی ہے کہ بڑے بڑے مجموعوں سے گزر کر ایک ایک فرد تک کو نزاع کے میدان میں کھینچ لائی ہے۔ اس طرح عالمِ انسانی کے بیشتر حصہ نے اپنے وہ تمام اخلاقی اوصاف اگل کر منظرِ عام پر رکھ دیے ہیں جنہیں وہ مدتوں سے اندر ہی اندر پرورش کررہا تھا۔ اب ہم ان گندگیوں کو علانیہ سطح زندگی پر دیکھ رہے ہیں‘ جن کو تلاش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تعلق کی ضرورت تھی۔ اب صرف ایک مادر زاد اندھا ہی اس غلط فہمی میں مبتلا رہ سکتا ہے کہ ’’بیمار کا حال اچھا ہے۔‘‘ اور صرف وہی لوگ بیماری کی تشخیص اور علاج کی فکر سے غافل رہ سکتے ہیں جو حیوانات کی طرح اخلاقی حس سے بالکل خالی ہیں یا جن کے اخلاقی احساسات پر فالج گرگیاہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری پوری قومیں بہت بڑے پیمانے پر ان بدترین اخلاقی صفات کا مظاہرہ کررہی ہیں جن کو ہمیشہ سے انسانیت کے ضمیر نے انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بے انصافی‘ بے رحمی‘ ظلم و ستم‘ جھوٹ‘ دغا‘ فریب‘ مکر‘ بدعہدی‘ خیانت‘ بے شرمی‘ نفس پرستی، استحصال بالجبر اور ایسے ہی دوسرے جرائم محض انفرادی جرائم نہیں رہے ہیں بلکہ قومی اخلاق کی حیثیت سے ظاہر ہورہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی قومیں اجتماعی حیثیت سے وہ سب کچھ کررہی ہیں جس کا ارتکاب کرنے والے افراد ابھی تک ان کے ہاں جیلوں میں ٹھونسے جاتے ہیں۔ ہر قوم نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے بڑے سے بڑے مجرموں کو اپنا لیڈر اور سربراہ کاربنایا ہے اور ان کی قیادت میں بدمعاشی کی کوئی مکروہ سے مکروہ قسم ایسی نہیں رہ گئی جس کا وہ کھلم کھلا نہایت بے حیائی کے ساتھ وسیع پیمانے پر ارتکاب نہ کررہی ہوں۔ ہر قوم دوسری قوم کے خلاف جھوٹے دعوے تصنیف کر کر کے علانیہ نشر کر رہی ہے اور ریڈیو کے ذریعہ سے ان جھوٹوں نے فضائے اثیر تک کو گندہ کردیا ہے۔ پورے پورے ملکوں اور براعظموں کی آبادیاں لٹیروں اور ڈاکوئوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اور ہر ڈاکو عین اس وقت جب کہ وہ خود ڈاکہ ماررہا ہوتا ہے‘ نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنی گناہ کاریوں کا شکوہ کرتا ہے‘ جن سے داغدار ہونے میں اس کا اپنا دامن بھی اپنے حریف سے کچھ کم سیاہ نہیں ہوتا۔ انصاف کے معنی ان ظالموں کے نزدیک صرف اپنی قوم کے ساتھ انصاف کے رہ گئے ہیں حق جوکچھ ہے ان کے لیے ہے۔ دوسروں کے حقوق پر دست درازی ان کے اخلاقی قانون میں جائز بلکہ کارِ ثواب ہے۔ قریب قریب تمام قوموں کا حال یہ ہوچکا ہے کہ ان کے ہاں لینے کے پیمانے اور ہیں اور دینے کے اور۔ جتنے معیار وہ اپنے مفاد کے لیے قائم کرتی ہیں‘ دوسروں کا مفاد سامنے آتے ہی وہ سب معیار بدل جاتے ہیں‘ اور جن معیاروں کا وہ دوسروں سے مطالبہ کرتی ہیں ان کی پابندی خود کرنا حرام سمجھتی ہیں۔ بدعہدی کا مرض اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اب ایک قوم کو دوسری قوم پر کوئی اعتماد باقی نہیں رہا۔ بڑی بڑی قوموں کے نمائندے نہایت مہذب صورتیں لیے ہوئے جب بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کررہے ہوتے ہیں‘ اس وقت ان کے دلوں میں یہ خبیث نیت چھپی ہوئی ہوتی ہے کہ پہلا موقع ملتے ہی اس مقدس بکرے کو قومی مفاد کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھائیں گے اور جب ایک قوم کا صدر یا وزیر اعظم اس قربانی کے لیے چھری تیز کرتا ہے تو پوری قوم میں سے ایک آواز بھی اس بداخلاقی کے خلاف نہیں اٹھتی‘ بلکہ ملک کی پوری آبادی اس جرم میں شریک ہوجاتی ہے۔ مکاری کا حال یہ ہے کہ بڑے بڑے پاکیزہ اخلاقی اصولوں کی گفتگو کی جاتی ہے صرف اس لیے کہ دنیا کو بے وقوف بناکر اپنے مفاد کی خدمت اس سے لی جائے اور سادہ لوح انسانوں کو یقین دلایا جائے کہ تم سے جان و مال کی قربانی کا مطالبہ جو ہم کررہے ہیں یہ اپنے لیے نہیں بلکہ ہم بے غرض‘ نیکوں کے نیک لوگ یہ ساری تکلیفیں محض انسانیت کی بھلائی کے لیے برداشت کررہے ہیں۔ سنگدلی و بے رحمی اس مرتبہ کمال تک پہنچی ہے کہ ایک ملک‘ جب دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی آبادی کو روندنے اور کچلنے میں محض اسٹیم رولر کی سی بے حسی ہی اس سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت مزے لے لے کر دنیا کو اپنے ان کارناموں کی اطلاع دیتا ہے۔ گویا اسے معلوم ہے کہ اب دنیا انسانوں سے نہیں بلکہ بھیڑیوں سے آباد ہے۔ خودغرضانہ شقاوت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو اپنے مفاد کے لیے مسخر کرنے کے بعد صرف یہی نہیں کہ بے دردی کے ساتھ اسے لوٹتی کھسوٹتی ہے بلکہ نہایت منظم طریقہ سے پیہم کوشش کرتی رہتی ہے کہ انسانیت کے تمام شریفانہ خصائل سے اس کو خالی کردے اور وہ تمام کینہ اوصاف اس کے اندر پرورش کرے جنہیں وہ خود نہایت گھنائونا سمجھتی ہے۔
یہ چند نمایاں ترین اخلاقی خرابیاں میں نے محض نمونے کے طور پر بیان کی ہیں ورنہ تفصیل کے ساتھ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پوری انسانیت کا جسم اخلاقی حیثیت سے سڑگیا ہے۔ پہلے قحبہ خانے اور قمار بازی کے اڈے اخلاقی پستی کے سب سے بڑے پھوڑے سمجھے جاتے تھے‘ لیکن اب تو ہم جدھر دیکھتے ہیں انسانی تمدن پورا کا پورا ہی پھوڑا نظر آتا ہے۔ قوموں کی پارلیمنٹس اور اسمبلیاں‘ حکومتوں کے سیکریٹریٹ اور وزارت خانے‘ عدالتوں کے ایوان اور وکالت خانے، پریس اور نشرگاہیں‘ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے‘ بینک اور صنعتی و تجارتی کاروبار کے مجامع‘ سب کے سب پھوڑے ہی پھوڑے ہیں جو کسی تیز نشتر کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ علم جوانسانیت کا عزیز ترین جوہر ہے آج اس کا ہر شعبہ انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ طاقت اور زندگی کے تمام وسائل جو قدرت نے انسان کے لیے مہیا کئے تھے فساد اور خرابی کے کاموں میں ضائع کئے جارہے ہیں اور وہ صفات بھی‘ جوانسان کی بہترین اخلاقی صفات سمجھی جاتی تھیں‘ مثلاً شجاعت‘ ایثار‘ قربانی‘ فیاضی‘ صبر‘ تحمل‘ اولوالعزمی‘ بلند حوصلگی وغیرہ‘ آج ان کو بھی چند بڑی بنیادی بداخلاقیوں کا خادم بناکررکھ دیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ اجتماعی خرابیاں اس وقت ابھر کر نمایاں ہوتی ہیں جب انفرادی خرابیاں پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ آپ اس بات کا تصور نہیں کرسکتے کہ کسی سوسائٹی کے بیشتر افراد نیک کردار ہوں اور وہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی بدکرداری کا مظاہرہ کرے۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ نیک کردار لوگ اپنی قیادت اور نمائندگی اور سربراہ کاری بدکردار لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں اور اس بات پر راضی ہوجائیں کہ ان کے قومی، ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو غیر اخلاقی اصولوں پر چلایا جائے۔ اس لیے جب وسیع پیمانے پردنیا کی قومیں ان گھنائونے اور رذیل اخلاقی اوصاف کا اظہار اپنے اجتماعی اداروں کے ذریعہ سے کررہی ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آج نوع انسانی اپنی تمام علمی و تمدنی ترقیوں کے باوجود ایک شدید اخلاقی تنزل میں مبتلا ہے اور اس کے بیشتر افراد اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ یہ حالت اگر یونہی ترقی کرتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب انسانیت کسی بہت بڑی تباہی سے دوچار ہوگی اور ایک طویل عہدِ ظلمت اس پر چھاجائے گا۔
اب ہم اگر آنکھیں بند کرکے تباہی کے گڑھے کی طرف سرپٹ جانا نہیں چاہتے تو ہمیں کھوج لگانا چاہیے کہ اس خرابی کا سرچشمہ کہاں ہے جہاں سے یہ طوفان کی طرح امڈی چلی آرہی ہے‘ چونکہ یہ اخلاقی خرابی ہے لہٰذا لامحالہ ہمیں اس کا سراغ ان اخلاقی تصورات ہی میں ملے گا جو اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
موجودہ اخلاقی تصورات:
دنیا کے اخلاقی تصورات کیا ہیں؟ اس سوال کی جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولاً یہ تمام تصورا ت دو بڑی قسموں پر منقسم ہیں۔
ایک قسم کے تصورات وہ جو خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر مبنی ہیں دوسری قسم کے تصورات وہ جو ان عقیدوں سے الگ ہٹ کر کسی دوسری بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔
آیئے اب ہم ان دونوں قسم کے تصورات کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ دنیا میں اس وقت یہ کس صورت میں پائے جاتے ہیں اور ان کے نتائج کیا ہیں۔
خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر جتنے اخلاقی تصورات قائم ہوتے ہیں ان کی صورت کا تمام تر انحصار اس عقیدے کی نوعیت پر ہوتا ہے جو خدا اور حیات بعد موت کے متعلق لوگوں میں پایا جاتا ہو۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ دنیا اس وقت خدا کو کس شکل میں مان رہی ہے اور دوسری زندگی کے متعلق اس کے عام تخیلات کیا ہیں؟
خدا کو ماننے والے بیشتر انسان اس وقت شرک میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے اپنے زعم میں خدائی کے اکثر اختیارات‘ جن کا تعلق ان کی اپنی زندگی سے ہے‘ دوسری ہستیوں پر تقسیم کر دیے ہیں اور ان ہستیوں کا خیالی نقشہ اپنی خواہشات کے مطابق ایسا بنالیا ہے کہ وہ اپنے ان خدایانہ اختیارات کو ٹھیک اسی طرح استعمال کرتی ہیں جس طرح یہ چاہتے ہیں کہ وہ استعمال کریں۔ یہ گناہ کرتے ہیں‘ وہ بخشوا لیتی ہیں‘ یہ فرائض سے غافل اور حقوق سے بے پروا ہو کر بے مہار جانوروں کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر دنیا کی کھیتی کو چرتے پھرتے ہیں اور وہ کچھ نذر و نیاز کے عوض ان کی نجات کی ضمانت لے لیتی ہیں۔ یہ چوری بھی کرنے جاتے ہیں تو ان کی عنایت سے تھانہ دار سوتا رہ جاتا ہے۔ ان کے اور ان کے درمیان یہ سودا طے ہوگیا ہے کہ ان کی طرف سے عقیدہ اچھا رکھیں اور نذر پیش کرتے رہیں اور اس کے جواب میں وہ ان کے سب کام‘ جو کچھ بھی یہ کرنا چاہیں‘ بناتی رہیں گی اور مرنے کے بعد جب خدا انہیں پکڑنا چاہے گا تو وہ بیچ میں حائل ہوکے کہہ دیں گی کہ یہ ہمارے دامن کے سایہ میں ہیں‘ ان سے کچھ نہ کہا جائے بلکہ بعض جگہ تو اس پکڑ دھکڑ کی نوبت ہی نہ آئے گی‘ کیونکہ ان کے گناہوں کا کفارہ پہلے ہی کوئی ادا کرچکا ہے۔ ان مشرکانہ عقائد نے زندگی بعد موت کے عقیدے کو بھی بے معنی کردیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ساری اخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں جو مذہب نے تعمیر کی تھیں۔ مذہبی اخلاقیات کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں‘ اور زبانوں پر ان کا ذکر بھی احترام کے ساتھ آتا ہے‘ مگر عملاً ان کی پابندی سے بچنے کے لیے شرک نے فرار کی بے شمار راہیں فراہم کردی ہیں اور کچھ اس شان سے فراہم کی ہیں کہ جس راہ سے بھی یہ چاہیں بھاگیں بہرحال انہیں اطمینان ہے کہ آخر کار پہنچیں گے نجات ہی کی منزل پر۔
شرک سے قطع نظر کرکے جہاں خدا پرستی اور عقیدئہ آخرت کچھ بہتر صورت میں موجود ہے‘ وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے مطالبات سکڑ کر انسانی زندگی کے ایک بہت چھوٹے سے دائرے میں محدود ہوگئے ہیں۔ چند اعمال‘ چند رسوم‘ اور چند پابندیاں ہیں جن کا محدود انفرادی و معاشرتی زندگی میں خدا ان سے مطالبہ کرتا ہے اور انہی کے معاوضے میں اس نے ایک بہت بڑی جنت ان کے لیے مہیا کررکھی ہے۔ اگر یہ ان مطالبوںکو پورا کردیں تو پھر کوئی چیز خدا کی طرف سے ان کے کرنے کی نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد یہ آزاد ہیںکہ اپنی زندگی کے معاملات جس طرح چاہیں چلائیں۔ اور اگر ان خدائی مطالبوں میں بھی کوتاہی رہ جائے تو اس کی رحمت اور نکتہ نوازی پر بھروسا ہے کہ وہ گناہوں کے پشتارے ان سے جنت کے دروازے پر رکھوالے گا اور اندر جانے کے لیے اعزازی ٹکٹ عنایت فرمادے گا۔ اس تنگ مذہبی تصور نے اول تو زندگی کے معاملات پر مذہبی اخلاقیات کے انطباق کو بہت محدود کردیا ہے جس کی وجہ سے زندگی کے تمام بڑے بڑے شعبے ہر اس اخلاقی رہنمائی اور بندش سے آزاد ہوگئے ہیں جو مذہب سے حاصل ہوسکتی تھی‘ دوسرے اس تنگ دائرے میں بھی اخلاق کی گرفت سے بچ نکلنے کے لیے ایک راستہ یہاں کھلا ہوا ہے جس سے فائدہ اٹھانے میں کم ہی لوگ سستی دکھاتے ہیں۔
ان سب سے بہتر حالت جن مذہبی طبقوں کی ہے‘ جو شرک سے بھی پاک ہیں سچائی کے ساتھ خدا کو بھی مانتے ہیں اور آخرت کے متعلق بھی کسی جھوٹے بھروسے پر تکیہ نہیں کربیٹھتے ہیں‘ ان کے اندر اخلاق کی پاکیزگی تو بے شک پائی جاتی ہے اور بہترین سیرت و کردار کے لوگ ان میں مل جاتے ہیں‘ لیکن ان کو بالعموم مذہب و روحانیت کے محدود تصور نے خراب کررکھا ہے۔ وہ دنیا اور اس کے مسائلِ زندگی سے بڑی حد تک بے تعلق ہوکر یا تو چند مخصوص کاموں کو‘ جنہیں مذہبی کام سمجھا جاتا ہے‘ لے بیٹھتے ہیں‘ یا اپنے نفس کو مانجھ مانجھ کر صاف کرتے ہیں تاکہ وہ اس دنیا ہی میں عالمِ غیب کی آوازیں سننے اور حسنِ مطلق کی پرچھائیاں دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔ ان کے نزدیک نجات کا راستہ دنیوی زندگی کے کنارے کنارے بچ کر نکل جاتا ہے اور خدا کے قُرب سے سرفراز ہونے کی سبیل بس یہ ہے کہ ایک طرف مذہب کے دیے ہوئے نقشے پر اپنی زندگی کے ظاہری پہلوئوں کو ڈھال لیا جائے‘ دوسری طرف نفس کی صفائی کے چند طریقوں سے کام لے کر اسے مجلّٰی و مصفا کرلیا جائے‘ اور پھر ایک محدود دائرے کے اندر کچھ مذہبی و روحانی مشاغل میں مصروف رہ کر زندگی کے دن پورے کر دیے جائیں۔ گویا ان کے خدا کو چند خوش وضع شیشے کے برتن‘ چند مقطع لائوڈ اسپیکر‘ چند عمدہ گراموفون، چندلطیف ریڈیو سیٹ‘ چند خوش نما فوٹو کے کیمرے درکار تھے اور اسی غرض کے لیے اس نے زمین میں اتنا کچھ سامان دے کر انسانوں کو بھیجا تاکہ یہاں سے اپنے آپ کو ان چیزوں میں تبدیل کرکے پھر اس کے پاس واپس پہنچ جائیں۔ مذہب و روحانیت کے اس غلط تصور کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ جو نفوس بلند تر اور پاکیزہ تر اخلاقی صلاحیتوں کے حامل تھے انہیں یہ زندگی کے میدان سے ہٹا کر گوشوں میں لے گیا اور گھٹیا درجہ کے اوصاف رکھنے والوں کے لیے بغیر مزاحمت کے خود بخود میدان خالی ہوگیا۔
دنیا کی پوری مذہبی صورتِ حال کا یہ لُبِّ لباَب ہے اور اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ خدا پرستی سے جو اخلاقی طاقت انسان کو ملنی ممکن تھی‘ بیشتر انسان تو اس کو سرے سے حاصل ہی نہیں کررہے ہیں اور ایک بہت قلیل تعداد اس کو حاصل کررہی ہے لیکن انسانیت کی رہنمائی و سربراہ کاری سے وہ خود دست بردار ہوگئی ہے۔ اس لیے اس کا حال اس بیٹری کا سا ہے جس میں بجلی بھری جائے اور وہ یونہی رکھے رکھے اپنی عمر پوری کردے۔
انسانی تمدن کی گاڑی بالفعل جو لوگ اس وقت چلارہے ہیں ان کی اخلاقیات خدا اور آخرت کے اساسی تخیل سے خالی ہیں اور دانستہ خالی کی گئی ہیں۔ نیز اخلاق میں خدا کی رہنمائی قبول کرنے سے انہوں نے قطعی انکار کردیا ہے۔ اگرچہ ان میں کثیرالتعداد لوگ کسی نہ کسی مذہب کے قائل ہیں‘ مگر ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کامحض ایک شخصی و انفرادی معاملہ ہے جسے اپنی ذات تک آدمی کو محدود رکھنا چاہیے۔ اجتماعی زندگی اور اس کے معاملات سے مذہب کو کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ پھر اس کی کیا ضرورت کہ وہ ان معاملات کوچلانے کے لیے کسی فوق الفطری ہدایت کی طرف رجوع کریں۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں جس اخلاقی تحریک کی ابتدا امریکا سے ہوئی تھی اور جو بڑھتے بڑھتے انگلستان اور دوسرے ممالک میں پھیل گئی‘ اس کا بنیادی مسلک ’’امریکی انجمنِ اخلاق‘‘ (American Ethical Union) کے مقاصد کی فہرست میں بایں الفاظ واضح کیا گیا تھا:
’’انسانی زندگی کے تمام تعلقات میں خواہ وہ شخصی ہوں‘ اجتماعی ہوں‘ قومی ہوں یا بین الاقوامی‘ اخلاق کی انتہائی اہمیت پر زور دینا بغیر اس کے کہ مذہبی معتقدات یا مابعد الطبیعی تخیلات کا اس میں کوئی دخل ہو۔‘‘
اس تحریک کے زیر اثر انگلستان میں ’’اتحاد انجمن ہائے اخلاق‘‘ (Union of Ethical Societies) قائم ہوئی جو بعد میں ’’اخلاقی اتحاد‘‘ کے نام سے منظم کی گئی۔ اس کا اساسی مقصد یہ بیان کیا گیا تھا:
’’انسانی رفاقت اور خدمت کے ایک ایسے طریقے کی تلقین کرنا جو اس اصول پر مبنی ہو کہ مذہب کا سب سے بڑا مقصد بھلائی کی محبت ہے اور یہ کہ اخلاقی تصورات اور اخلاقی زندگی کے لیے دنیا کی حقیقت اور زندگی بعد موت کے متعلق کسی عقیدے کی حاجت نہیں ہے اور یہ کہ خالص انسانی اور فطری ذرائع سے انسان کو اپنے تمام تعلقاتِ زندگی میں حق سے محبت کرنے‘ حق جاننے اور حق پر عمل کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔‘‘
ان الفاظ میں درحقیقت اس پورے طبقے کی نمائندگی کی گئی ہے جو اس وقت دنیا کے افکار‘ تہذیب‘ تمدن اور معاملات کی رہنمائی کررہا ہے۔ آج دنیا کے کاروبار کو عملاً جو لوگ چلارہے ہیں ان سب کے ذہن پر وہی تخیل چھایا ہوا ہے جو اوپر کے چند فقروں میں بیان کیا گیا ہے۔ سب ہی نے بالفعل اپنی اخلاقیات کو خدا اور آخرت کے عقیدے اور مذہب کی اخلاقی رہنمائی سے آزاد کرلیا ہے۔ وہ اگر خدا کو مانتے بھی ہیں تو صرف اس کے ہونے کو مانتے ہیں۔ اپنی زندگی کے اصول اور ضابطے اس سے نہیں لیتے۔
غیر مذہبی اخلاقی فلسفوں کا جائزہ:
اب ہمیں ان غیر مذہبی اخلاقی فلسفوں کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان کی کیا کیفیت ہے۔
(۱)۔۔۔ فلسفۂ اخلاق کا پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ اصلی اور انتہائی بھلائی کیا ہے جس کو پہنچنا انسانی سعی و عمل کا مقصود ہونا چاہیے اور جس کے معیار پر انسان کے طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ وہ اچھا ہے یا برا‘ صحیح ہے یا غلط؟
اس سوال کا کوئی ایک جواب انسان نہیں پاسکا۔ اس کے بہت سے جوابات ہیں ایک گروہ کے نزدیک وہ بھلائی خوشی ہے۔ دوسرے کے نزدیک کمال ہے۔ تیسرے کے نزدیک فرض برائے فرض ہے۔
پھر خوشی کے متعلق مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیسی خوشی؟ آیا وہ جو جسمانی و نفسانی خواہشات کے پورا ہونے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو ذہنی ترقی کے مدارج پر چڑھنے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو اپنی شخصیت کو آرٹ یا روحانیت کے نقطۂ نظر سے آراستہ کرلینے سے حاصل ہوتی ہے؟ نیز یہ کہ کس کی خوشی؟ آیا ہر شخص کی اپنی خوشی؟ یا اس جماعت کی خوشی جس سے وہ وابستہ ہے؟ یا تمام انسانوں کی خوشی؟ یا فی الجملہ دوسروں کی خوشی؟
اسی طرح کمال کومقصود قرار دینے والوں کے لیے بھی بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کمال کا تصور اور اس کا معیار کیا ہے؟ اور کمال کس کامقصود ہے؟ فرد کا؟ جماعت کا؟ یا انسانیت کا؟
اسی طرح جو لوگ فرض برائے فرض کے قائل ہیں اور ایک غیر مشروط واجب الاطاعت قانونِ فرض (Catagorical Imperative) کے بے چون و چرا اطاعت ہی کو آخری و انتہائی بھلائی قرار دیتے ہیں ان کے لیے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قانون فی الواقع ہے کیا؟ کس نے اس کو بنایا؟ اور کس کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات مختلف گروہوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ محض فلسفہ کی کتابوں ہی میں مختلف نہیں ہیں بلکہ عملاً بھی مختلف ہیں۔ یہ ساری انسانوں کی بھیڑ جو آپ کے سامنے تمدنِ انسانی کی گاڑی کو چلارہی ہے‘ جس میں سلطنتوں کو چلانے والے وزیر‘ فوجوں کو لڑانے والے جنرل‘ انسانوں کے درمیان فیصلہ کرنے والے جج‘ انسانی معاملات کے قانون بنانے والے شارعین (Legislators) انسانوں کو تیار کرنے والے معلم‘ انسان کے معاشی ذرائع کو کنٹرول کرنے والے کاروباری لوگ‘ اور تمدن کے کارخانے میں کام کرنے والے مختلف مدارج کے کارکن‘ سب ہی شامل ہیں۔ ان کے پاس بھلائی کا کوئی ایک معیار نہیں ہے‘ بلکہ ہر ایک شخص اور ہر ایک گروہ اپنا الگ معیار رکھتا ہے اور ایک تمدنی نظام میں کام کرتے ہوئے بھی ہر ایک کا رخ ایک الگ مقصود کی طرف پھرا ہوا ہے۔ کسی کے نزدیک اپنی خوشی منتہا ہے اور خوشی سے اس کی مراد نفسانی و جسمانی خواہشات کی تکمیل ہے۔ کوئی اپنی خوشی کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کے ذہن میں خوشی سے کچھ اور مراد ہے۔ اس ذاتی خوشی کے حصول اور عدمِ حصول ہی کے لحاظ سے وہ فیصلہ کررہا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے لیے کونسا طرز عمل نیک ہے یا بد۔ مگر اس کی ظاہری شریفانہ صورت سے ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کے لیے وہ ایک موزوں وزیر یا جج‘ یا معلم یاکسی دوسری حیثیت سے تمدن کی مشین کا ایک اچھا پرزہ ہے۔ اسی طرح کوئی خوشی سے مراد انسانوں کے اس مخصوص لمحہ کی خوشی و خوشحالی سمجھتا ہے جس کے ساتھ اس کی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور یہی اس کے نزدیک وہ خیربرتر ہے جس کے حصول کی سعی کرنا اس کے نزدیک نیکی ہے۔ یہ نقطۂ نظر اسے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا ہر ایک کے لیے سانپ اور بچھو بنادیتا ہے۔ لیکن ہم اس کی ظاہری مہذب صورت کی وجہ سے اس کو ایک شریف انسان فرض کرلیتے ہیں اور وہ امانتیں اس کے حوالے کردیتے ہیں جن میں اس کے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا دوسروں کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی مختلف اقسام کی شخصیتیں کمال کو خیر اعلیٰ ماننے والوں اور فرض برائے فرض کے قائلین میں بھی پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر کے نظریات اپنے عملی نتائج کے اعتبار سے انسانی تہذیب و تمدن کے لیے زہر کا حکم رکھتے ہیں‘ مگر وہ تریاق کا لیبل لگائے ہوئے ہماری اجتماعی زندگی میں جذب ہوئے چلے جارہے ہیں۔
(۲)۔۔۔ اب آگے چلیے۔ فلسفۂ اخلاق کے بنیادی سوالات میں سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس خیر و شر کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے؟ کس ماخذ کی طرف ہم یہ معلوم کرنے کے لیے رجوع کریں کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا‘ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟
اس سوال کا بھی کوئی ایک جواب انسان کو نہیں ملا۔ اس کے بھی بہت سے جوابات ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ ذریعہ اور ماخذ انسانیت کا تجربہ ہے‘ کسی کے نزدیک قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا علم ہے‘ کسی کے نزدیک وجدان ہے‘ کسی کے نزدیک عقل ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ بدنظمی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جس کا آپ نے پہلے سوال کے معاملہ میں مشاہدہ کیا۔ ان چیزوں کومآخذ قرار دینے کے بعد اخلاق کے لیے مستقل اصول ہی یہ قرار پاجاتا ہے کہ اس کا کوئی متعین معیار نہ ہو‘ بلکہ وہ ایک سیال مادے کی طرح بہتا اور مختلف صورتوں اور پیمانوں میں ڈھلتا چلاجائے۔
انسانیت کے تجربے سے صحیح علم حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کے متعلق مکمل اور مفصل معلومات یکجا جمع ہوں اور کوئی ہمہ بین اور کامل متوازن ذہن ان سے نتائج اخذ کرے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں حاصل نہیں ہیں۔ اول تو انسانیت کا تجربہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جاری ہے۔ پھر اب تک کا جو تجربہ ہے اس کے بھی مختلف اجزا مختلف لوگوں کے سامنے ہیں اور وہ مختلف طور پر اپنی ذہنیت کے مطابق ان سے نتائج نکال رہے ہیں۔ تو کیا ان ناقص معلومات سے مختلف نامکمل ذہن اپنے رجحانات کے مطابق جو نتائج بھی اخذ کرلیں وہ سب صحیح ہوسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیسے سخت بیمار ہیں وہ ذہن جو اپنے خیر و شر کو جاننے کے لیے اس ذریعہ علم کو کافی سمجھتے ہیں۔
یہی معاملہ قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا ہے۔ یا تو آپ اخلاقی بھلائی اور برائی کو جاننے کے لیے اس وقت کا انتظار کریں جب ان قوانین اور حالات کا علم قابلِ اطمینان حد تک آپ کی گرفت میں آجائے۔ یا نہیں تو ناکافی معلومات کوناکافی جانتے ہوئے انہی کی بنیاد پر مختلف ذہنیت اور مختلف مراتبِ علمی کے لوگ مختلف طور پر فیصلے کرتے رہیں کہ ان کے لیے خیر کیا ہے اور شر کیا۔ اور علم کی ہر نئی قسط حاصل ہونے کے بعد ان فیصلوں کو بدلتے بھی رہیں۔ حتیٰ کہ آج کا خیر کل شر ہوجائے اور آج کا شر کل خیر قرارپائے۔
عقل اور وجدان کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ بلاشبہ خیر و شر کو جاننے کی کچھ استعداد عقل کو بھی حاصل ہے اور اس عقل سے ہر انسان نے کچھ نہ کچھ حصہ پایا ہے‘ اور خیر و شر کا کچھ علم وجدانی بھی ہے جس کا الہام ہر انسان کے ضمیر پر فطرتاً ہوتا ہے۔ لیکن اس علم کے لیے ان میں سے کوئی بھی کافی بالذات نہیںکہ اسی کو آخری اور واحد ذریعہ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ عقل یا وجدان ‘ جس کو بھی آپ کافی بالذات سمجھیں گے‘ بہرحال ایک ایسے ذریعہ علم پر آپ اعتماد کریں گے جو نہ صرف یہ کہ اپنی فطرت میں ناقص و محدود ہے‘ بلکہ وہ مختلف اشخاص‘ مختلف طبقوں مختلف حالات اور مختلف زمانوں میں پہنچ کر بالکل مختلف چیزوں پر خیر یا شر ہونے کا حکم لگاتا ہے۔
یہ ساری بدنظمی جس کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے‘ محض علمی مقالات اور فلسفیانہ بحثوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فی الواقع دنیا کے تمدن و تہذیب میں عملاً اس کا عکس پوری طرح نمایاں ہورہا ہے۔ آپ کے تمدن میں جو لوگ کام کررہے ہیں‘ خواہ وہ کارفرمائی کے مقام پر ہوں‘ یا کارکنی کے مقام پر‘ یا کارفرمائوں اور کارکنوں کے بنانے میںلگے ہوئے ہیں۔ یہ سب خیر و شر اور صحیح و غلط جاننے کے لیے اپنے اپنے طور پر انہی مختلف ماخذوں کی طرف رجوع کررہے ہیں‘ اور ہر شخص اور ہر گروہ کا خیر و شر دوسرے کے خیر و شر سے الگ ہے‘ حتیٰ کہ ایک کا خیر دوسرے کا انتہائی شر ہے اور ایک کا شر دوسرے کا انتہائی خیر۔ اس بدنظمی نے اخلاق کے لیے کوئی پائیدار بنیاد باقی ہی نہیں رہنے دی ہے۔ جن چیزوں کو دنیا میں ہمیشہ سے جرم اور گناہ سمجھا جاتا رہا ہے آج کسی نہ کسی گروہ کی نگاہ میں وہ عین خیر ہیں یا مطلقاً خیر نہیں تو اضافی خیر بن گئی ہیں۔ اسی طرح جن بھلائیوں کو ہمیشہ سے انسان خوبی سمجھتا رہا ہے ان میں سے اکثر آج حماقت اور مضحکہ قرار پاچکی ہیں اور مختلف گروہ ان کو شرم کے ساتھ نہیں بلکہ فخر کے ساتھ اعلانیہ پامال کررہے ہیں۔ پہلے جھوٹا جھوٹ بولتا تھا مگر معیار اخلاق سچائی ہی کو مانتا تھا‘ لیکن آج کے فلسفوں نے جھوٹ کو خیربنادیا ہے اور جھوٹ بولنے کا ایک مستقل فن مدون کیا جارہا ہے اور بڑے پیمانے پر قومیں اور سلطنتیں جھوٹ پھیلارہی ہیں۔ یہی حال ہر بداخلاقی کا ہے کہ پہلے بداخلاقیاں‘ بداخلاقیاں ہی تھیں مگر آج نئے فلسفوں کے طفیل وہ سب مطلق یا اضافی خیر میں تبدیل کردی گئی ہیں۔
(۳)۔۔۔ فلسفۂ اخلاق کے بنیادی سوالات میں سے تیسرا سوال یہ ہے کہ قانونِ اخلاق کے پیچھے وہ کون سی قوت ہے جس کے زور سے یہ قانون نافذ ہو؟ اس کے جواب میں مسرت اور کمال کے پرستار کہتے ہیں کہ خوشی یا کمال کی طرف لے جانے والی بھلائیاں اپنی پیروی کرانے کی طاقت آپ ہی اپنے اندر رکھتی ہیں اور رنج یا پستی کی طرف لے جانے والی برائیاں آپ اپنے ہی زور پر اپنے سے اجتناب کرالیتی ہیں۔ اس کے سوا قانونِ اخلاق کے لیے کسی خارجی اقتدار کی ضرورت ہی نہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قانونِ فرض انسان کے ارادہ معقول کا اپنے اوپر آپ عائد کیا ہوا قانون ہے‘ اس کے لیے کسی بیرونی زور کی حاجت نہیں۔ تیسرا گروہ سیاسی اقتدار کو قانونِ اخلاق کی اصل قوتِ نافذہ سمجھتا ہے اور اس مسلک کی رو سے اسٹیٹ کی طرف وہ تمام اختیارات منتقل ہوجاتے ہیں جو پہلے خدا کے لیے تھے‘ یعنی باشندوں کے حق میں یہ فیصلہ کرنا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے۔ چوتھے گروہ نے یہ مرتبہ اسٹیٹ کے بجائے سوسائٹی کو دیا ہے۔ یہ سب جوابات فساد کی بے شمار صورتیں دنیا میں عملاً پیدا کرچکے ہیں اور اب تک کررہے ہیں۔ پہلے دونوں جوابوں نے انفرادی خودسری و بے راہ روی یہاں تک بڑھادی کہ اجتماعی زندگی کا شیرازہ درہم برہم ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر اس کا ردعمل ان فلسفوں کی صورت میں رونما ہوا جنہوں نے یا تو اسٹیٹ کو خدا بنا کر افراد کو بالکل اس کا بندہ بناڈالا‘ یا پھر افراد کی روٹی کے ساتھ ان کے خیر و شر کی باگیں بھی معاشرے کے ہاتھوں میںدے دیں‘ حالانکہ سبوح و قدوس نہ اسٹیٹ ہے نہ معاشرہ۔
(۴)۔۔۔ یہی معاملہ اس سوال کے جواب میں پیش آتا ہے کہ وہ کونسا محرک ہے جوانسان کو اپنے طبعی رجحانات کے علی الرغم اخلاقی احکام کی پابندی پر آمادہ کرے؟ کسی کے نزدیک بس خوشی کی طمع اور رنج و تکلیف کاخوف اس کے لیے کافی محرک ہے۔ کوئی محض کمال کی خواہش اور نقص سے بچنے کی تمنا کو اس کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ کوئی اس کے لیے محض آدمی کے اپنے جذبۂ احترام قانون پر اعتماد کرتا ہے۔ کوئی اسٹیٹ کے اجر کی امید اور اس کے غضب کو اہمیت دیتا ہے اور کوئی معاشرے کے اجر اور اس کے غضب کو طمع و خوف کے لیے استعمال کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ ان میں سے ہر جواب کو عملاً ہمارے اخلاقی نظامات میں سے کسی نہ کسی کے اندر تقدم کا مقام حاصل ہے اور تھوڑا سا تجسس کرنے پر یہ حقیقت باآسانی کھل سکتی ہے کہ یہ سب محرکات بداخلاقی کے لیے بھی اتنے ہی اچھے محرک بن سکتے ہیں جتنے خوش اخلاقی کے لئے۔ بلکہ ان میں بداخلاقی کے لیے محرک بننے کی قوت بہت زیادہ ہے‘ اور بہرحال کسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقیت کے لیے تو یہ تمام محرکات قطعاً ناکافی ہیں۔
یہ بہت مختصر جائزہ جو میں نے دنیا کی موجودہ اخلاقی حالت کالیا ہے اس سے بیک نظر یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دنیا میں اس وقت ایک ہمہ گیر اخلاقی انتشار پایا جاتا ہے۔ خدا سے بے نیاز ہوکر انسان کوئی ایسی بنیاد نہیں پاسکا جس پر وہ قابلِ اطمینان طریقے سے اپنے اخلاق کی تعمیر کرتا۔ اخلاق کے سارے بنیادی سوالات اس کے لیے حقیقتاً لاجواب ہوکر رہ گئے۔ نہ وہ اس خیر و برتر کا کہیں سراغ لگاسکا جو اس کی کوششوں کا منتہا بننے کے قابل ہوتی اور جس کے لحاظ سے اعمال کے نیک یا بد اور صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا۔ نہ اسے وہ ماخذ کہیں ہاتھ لگا جس سے وہ صحیح طور پر معلوم کرسکتا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا۔ نہ اسے وہ اقتدار فراہم کرنے میں کامیابی ہوئی اور نہ اسے کوئی ایسا محرک مل سکا جو انسانوں میں راستی پر عمل کرنے اور ناراستی سے پرہیز کرنے کے لیے حقیقی آمادگی پیدا کرنے کے قابل ہو۔ خدا سے بغاوت کرکے انسان نے خود سری کے ساتھ ان سوالات کو حل کرنا چاہا اور اپنے نزدیک حل کیا بھی‘ مگر یہ اسی حل کے پیدا کردہ نتائج ہیں جو آج ہم کو اخلاقی تنزل کے ایک خوفناک طوفان کی شکل میں اٹھتے اور پوری انسانی تہذیب کو تباہی کی دھمکیاں دیتے نظر آرہے ہیں۔
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اس بنیاد کو تلاش کریں جس پر انسانی اخلاق کی صحیح تعمیر ہو سکے؟ فی الواقع یہ تلاش و جستجو محض ایک علمی بحث نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی کی ایک عملی ضرورت ہے اور وقت کی نزاکت نے اس کو اہم ترین ضرورت بنادیا ہے۔ اسی لحاظ سے میں اپنی تلاش کے نتائج پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو لوگ اس ضرورت کو محسوس کررہے ہیں وہ نہ صرف میرے ان نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کریں بلکہ خود بھی سوچیں کہ اخلاقِ انسانی کے لیے آخر کون سی بنیاد صحیح ہو؟
انسانی اخلاق کی صحیح بنیادیں:
میں اپنی تلاش و تحقیق سے جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاق کے لیے صرف ایک ہی بنیاد صحیح ہے اور وہ اسلام فراہم کرتا ہے۔ یہاں فلسفہ اخلاق کے تمام بنیادی سوالات کا جواب ہم کو ملتا ہے اورایسا جواب ملتا ہے جس کے اندر وہ کمزوریاں موجود نہیں ہیں جو فلسفیانہ جوابات میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں مذہبی اخلاقیات کی ان کمزوریوں میں سے بھی کوئی کمزوری موجود نہیں ہے جن کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی مستحکم سیرت کی تعمیر کرسکتے ہیں اور نہ انسان کو تمدن کی وسیع ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہاں ایک ایسی ہمہ گیر اخلاقی رہنمائی ملتی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کے انتہائی ممکن درجات تک ہمیں لے جاسکتی ہے۔ یہاں وہ اخلاقی اصول ہم کو ملتے ہیں جن پر ایک صالح ترین نظامِ تمدن قائم ہوسکتا ہے اور اگر ان اصولوں پر انفرادی و اجتماعی کردار کی بنیاد رکھی جائے تو انسانی زندگی اس فساد سے محفوظ رہ سکتی ہے جس سے وہ اس وقت دوچار ہے۔
اس نتیجہ پر میں کن دلائل سے پہنچا ہوں؟ اس کی مختصر تشریح میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔
فلسفہ جس مقام سے اپنی اخلاقی بحث شروع کرتا ہے درحقیقت وہ اخلاق کے مسئلے کا سرا نہیں ہے بلکہ بیچ کے چند نقطے ہیں جنہیں سرے کو چھوڑ کر اس نے نقطہ آغاز بنالیا ہے اور یہی اس کی پہلی غلطی ہے۔ یہ سوال کہ انسان کے لیے کردار کی صحت و غلطی کا معیار کیا ہے اور وہ کون سی بھلائی ہے جس کو پہنچنے کی سعی انسان کے لیے مقصود بالذات ہونی چاہیے‘ دراصل یہ بعد کا سوال ہے۔ اس سے پہلے جو سوال حل ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ یہ سوال اس لیے تمام سوالات پر مقدم ہے کہ حیثیت کے تعین کے بغیر اخلاق کا سوال محض بے معنی ہی نہیں ہوجاتا بلکہ اس میں بیشتر امکان اسی امر کا ہوتا ہے کہ اس طرح جو اخلاقیات متعین کی جائیں گی وہ بنیادی طور پر غلط ہوں گے۔ مثلاً کسی جائیداد کے متعلق آپ کو یہ طے کرنا ہے کہ اس میں کس طرح مجھے کام کرنا چاہیے اور کس قسم کے تصرفات میرے لیے حق ہیں اور کس قسم کے تصرفات باطل۔ کیا آپ اس سوال کوصحیح طور پر حل کرسکتے ہیں تاوقتیکہ پہلے اس بات کا تعین نہ کرلیں کہ اس جائیداد میں آپ کی حیثیت کیا ہے اور اس سے آپ کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اگر یہ جائیداد کسی دوسرے کی ملکیت ہے اور آپ اس میں امین کی حیثیت رکھتے ہیں تو آپ کے لیے اس میں اخلاقی طرز عمل کی نوعیت کچھ اور ہوگی اور اگر آپ خود اس کے مالک ہیں اور اس پر آپ کے مالکانہ اختیارات غیر محدود ہیں تو آپ کے اخلاقی طرزِ عمل کی نوعیت بالکل دوسری ہوجائے گی۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ حیثیت کا سوال اخلاقی طرزِ عمل کی نوعیت کے معاملہ میں فیصلہ کن ہے بلکہ درحقیقت اسی پر اس امر کے فیصلہ کا بھی انحصار ہے کہ اس جائیداد میں آپ کے لیے صحیح طرزِ عمل متعین کرنے کا حق دار کون ہے؟ آپ خود یا وہ جس کے آپ امین ہیں؟
اسلام سب سے پہلے اسی سوال کی طرف توجہ کرتا ہے اور ہمیں بالکل واضح طور پرہر شائبہ اشتباہ کے بغیر یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی حیثیت خدا کے بندے اور نائب کی ہے۔ یہاں انسان کوجتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے وہ سب خدا کی مِلک ہیں۔ حتیٰ کہ انسان کا اپنا جسم اور وہ تمام قوتیں بھی جو اس جسم میںبھری ہوئی ہیں‘ انسان کی اپنی مِلک نہیں ہیں بلکہ خدا کی ملک ہیں۔ خدا نے اس کو ان تمام چیزوں پر تصرف کرنے کے اختیارات دے کر یہاں اپنے نائب کی حیثیت سے مامور کیا ہے‘ اور اس ماموریت میں اس کا امتحان ہے۔ امتحان کا آخری نتیجہ اس دنیا میں نہیں نکلے گا بلکہ جب افراد کا‘ قوموں کا ‘ اور پوری نوع انسانی کا کام ختم ہوچکے گا اور انسانوں کی مساعی کے اثرات و نتائج پایہ تکمیل کوپہنچ جائیں گے تب خدا بیک وقت ان سب کا حساب لے گا اور اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کس نے اس کی بندگی اور نیابت کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کیا ہے اور کس نے نہیں کیا۔ یہ امتحان کسی ایک امر میںنہیں بلکہ تمام امور میں ہے۔ کسی ایک شعبہ زندگی میں نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پوری زندگی میں ہے۔ نفس و جسم کی جتنی قوتیں انسان کودی گئی ہیں سب کا امتحان ہے اور خارج میں جن جن چیزوں پر جس جس طرح کے اختیارات اسے عطا کئے گئے ہیں‘ ان سب میں بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح ان پر اپنا اختیار استعمال کرتا ہے۔
حیثیت کے اس تعین کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں اپنے لیے اخلاقی طرز عمل کے تعین کا حق ہی سرے سے انسان کو حاصل نہیں رہتا‘ بلکہ اس کا فیصلہ کرنا خدا کا حق ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فلسفۂ اخلاق کے وہ تمام سوالات جن کو فلسفیوں نے چھیڑا ہے‘ نہ صرف یہ کہ حل ہوجاتے ہیں بلکہ اس امر کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ایک ایک سوال کے چھتیس چھتیس جوابات ہوں‘ اور ایک ایک جواب پر انسانوں کا ایک ایک گروہ اخلاق کے ایک جداگانہ رخ پر چل پڑے اور ایک ہی تمدنی و اجتماعی زندگی میں رہتے ہوئے یہ مختلف سمتوں پر چلنے والے لوگ اپنی بے راہ رویوں سے بدنظمی‘ انتشار اور فساد برپا کریں۔ اگر انسان کی اس حیثیت کو تسلیم کرلیا جائے جو اسلام نے قرار دی ہے تو یہ بات خود متعین ہوجاتی ہے کہ خدا کے امتحان میں کامیاب ہونا اور اس کی رضا کو پہنچنا ہی وہ بلند ترین بھلائی ہے جو مقصود بالذات ہونی چاہیے اور کسی طرز عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا مدار اسی امر پر ہے کہ وہ اس بھلائی کے حصول میں کہاں تک مددگار یا مانع ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی یہیں سے متعین ہوجاتی ہے کہ انسان کے لیے نیک اور بد‘ صحیح اور غلط کے علم کا اصل ماخذ خدا کی ہدایت ہے اور اس کے سوا دوسرے ذرائع علم اور اس اصل ماخذ کے مددگار تو بن سکتے ہیں مگر خود اصل ماخذ نہیں بن سکتے۔ نیز یہ امر بھی طے ہوجاتا ہے کہ قانونِ اخلاق کے واجب الاطاعت ہونے کی اصل بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ خدا کا ٹھہرایا ہوا قانون ہے اور یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ اچھے اخلاق کی پابندی اور بُرے اخلاق سے اجتناب کے لیے اصل محرک خدا کی محبت‘ اور اس کی رضا کی طلب اور اس کی ناراضی کا خوف ہونا چاہیے۔
پھر نہ صرف یہ کہ اس سے فلسفۂ اخلاق کے سارے اصولی سوالات حل ہوجاتے ہیں بلکہ درحقیقت اس بنیاد پر جو اخلاقی سسٹم بنتا ہے اس کے اندر نہایت متوازن اور متناسب طریقے سے وہ تمام اخلاقی سسٹم اپنی اپنی موزوں جگہ پالیتے ہیں جوفلسفۂ اخلاق کے مفکرین نے تجویز کئے ہیں۔ فلسفیانہ اخلاقی نظاموں کی اصل قباحت یہ نہیں ہے کہ ان میں حقیقت و صداقت کا جزو بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کی اصل قباحت یہ ہے کہ انہوں نے صداقت کے ایک جز کو لے کر پوری صداقت بنالیا ہے۔ اس لیے جز کے کُل بننے میں جس قدر زائد کی ضرورت پڑتی ہے اس کی تکمیل کے لیے لامحالہ انہیں باطل کے بہت سے اجزا لینے پڑتے ہیں۔ اسلام اس کے برعکس پوری صداقت پیش کرتا ہے اور اس کُل صداقت میں وہ تمام جزوی صداقتیں جذب ہوجاتی ہیں جو لوگوں کے پاس الگ الگ تھیں اور ناقص تھیں۔
یہاں خوشی کا بھی ایک مقام ہے‘ مگر اس سے مراد وہ خوشی و خوشحالی ہے جو خدا کے قانون کی پیروی سے اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہو‘ اور یہ خوشی و خوشحالی جسمانی و مادی بھی ہے‘ ذہنی و نفسی بھی‘ آرٹسٹک اور روحانی بھی۔ نیز یہ خوشی و خوشحالی فرد کی بھی ہے‘ جماعت کی بھی اور تمام انسانیت کی بھی۔ ان مختلف خوشیوں میں تصادم نہیں بلکہ توافق ہے۔
یہاں کمال کا بھی ایک مقام ہے‘ مگر وہ کمال جوخدا کے امتحان میں سو فیصدی نمبر پانے کا مستحق ہو‘ اور یہ فرد کا جماعت کا‘ قوم کا‘ پوری انسانیت کا‘ غرض سب ہی کا کمال ہے۔ صحیح اخلاقی طرز عمل وہ ہے جس سے ہر فرد نہ صرف خود کمال کی طرف ترقی کرے بلکہ دوسروں کی تکمیل میں بھی مددگار ہو کوئی کسی کی تکمیل میںمزاحم نہ ہو۔
یہاں کانت کے ’’قطعی واجب الاطاعت‘‘ (Categorical Imperative) کو بھی پوری عزت کی جگہ مل جاتی ہے‘ اور اس جہاز کو وہ لنگر بھی مل جاتا ہے جس کے بغیر یہ فلسفہ کے دریا میں ڈگمگا رہا تھا۔ جس قطعی واجب الاطاعت قانون کا ذکر کانت نے کیا ہے اور جس کی وہ خود کوئی توضیح نہ کرسکا‘ دراصل وہ خدا کا قانون ہے۔
خدا کی طرف سے اس کی صورت معین کی گئی ہے۔ خدا ہی کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے اور اسی کی بے چون و چرا اطاعت کا نام نیکی ہے۔
اسی طرح یہاں اخلاقی خیر و شر کے علم کا جو ماخذ ہمیں بتایا گیا ہے‘ وہ ان دوسرے ذرائع علم کی نفی نہیں کرتا‘ جن کی طرف فلاسفہ رجوع کرتے ہیں‘ بلکہ ان سب کو ایک سسٹم کا جز بنالیتا ہے۔ البتہ وہ نفی جس چیز کی کرتا ہے وہ صرف یہ بات ہے کہ انہیں‘ یا ان میں سے کسی ایک کو اصلی اور آخری ذریعہ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ خدا کی ہدایت کے ذریعہ سے خیر و شر کا جو علم ہمیں بخشا گیا ہے‘ وہ اصل علم ہے۔ رہا تجربی علم‘ قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود سے استنباط کیا ہوا علم‘ عقلی علم‘ اور وجدانی علم‘ تو یہ سب اس اصلی علم کے شواہد ہیں۔ جن چیزوں کو خدا کی ہدایت خیر کہتی ہے‘ انسانیت کا تجربہ ان کے خیر ہونے پر شہادت دیتا ہے۔ قوانینِ حیات اس کی تصدیق کرتے ہیں‘ عقل اور وجدان دونوں اس پر گواہ ہیں۔ لیکن معیارِ صداقت خدائی ہدایت ہی ہے نہ کہ یہ ذرائع علم‘ انسانیت کے تاریخی تجربات سے‘ یا قوانینِ حیات سے اگر کوئی ایسا استنباط کیا جائے یا عقل اور وجدان سے کوئی ایسی رائے قائم کی جائے جو خدا کی ہدایت کے خلاف ہو تو اصل اعتبار خدا کی ہدایت کا کیا جائیگا‘ نہ کہ اس استنباط یا اس رائے کا۔ ہمارے پاس علم کا ایک مستند معیار ہونے کا فائدہ ہی یہ ہے کہ ہمارے علوم میں ڈسپلن پیدا ہو اور ہم اس انارکی اور بدنظمی سے بچ جائیں جو کسی معیار کے نہ ہونے اور اِعجابٔ کال ذی رأیٍ برایَہٖ سے پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح یہاں قانونِ اخلاق کی پشتیبان قوت (Sanction) اور محرکات کا مسئلہ بھی اسی طور پر حل ہوتا ہے کہ اس سے ان دوسری چیزوں کی نفی نہیں ہوتی۔ جو فلسفیوں نے تجویز کی ہیں‘ بلکہ صرف ان کی تصحیح ہوجاتی ہے‘ اور جن غلط حدود پر وہ پھیلادی گئی ہیں یا خود پھیل جاتی ہیں وہاں سے ان کو ہٹا کر ایک جامع سسٹم میں ٹھیک مقام پر رکھ دیا جاتا ہے۔ خدا کا قانون‘ اس لیے کہ وہ خدا کاقانون ہے اپنے قیام کی طاقت آپ اپنے اندر رکھتا ہے‘ اور یہ طاقت اس مومن کے نفس میں بھی موجود ہے جو خدا کی رضا چاہنے میں خوشی محسوس کرتا ہے اور خود اس کمال کا طالب ہے جو خدا کی طرف بڑھنے سے حاصل ہو۔ نیز یہ طاقت مومنین کی سوسائٹی اور اس صالح ریاست میں بھی موجود ہے‘ جو خدا کے قانون پر مبنی ہو۔ قانون کی پابندی پر مومن کو آمادہ کرنے والی چیز اس کی خالص فرض شناسی بھی ہے‘ اس کا حق کو حق جانتے ہوئے اسے پسند کرنا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے اس سے نفرت کرنا بھی ہے اور وہ طمع اور خوف بھی ہے جو اپنے خدا سے رکھتا ہے۔
اسلامی تصور اخلاق کا انسانی زندگی پر اثر:
دیکھیے‘ اس طرح اسلام اس پوری فکری اور عملی انارکی کو ختم کردیتا ہے جو انسان کو بے خدا فرض کر کے اس کے لیے ایک نظامِ اخلاق تجویز کرنے کی کوششوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آگے چلیے۔ اسلام خدا کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا ہی انسان کا اور ساری کائنات کا واحد مالک‘ خالق‘ معبود اور حاکم ہے۔ اس خدائی میںکوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ اس کے ہاں بجز دعائے خیر کے کسی ایسی سفارش کی گنجائش بھی نہیںجو زور سے منوائی جاتی ہو اور رد نہ کی جاسکتی ہو۔ اس کے ہاں ہرشخص کی کامیابی و ناکامی کا مدار اس کے اپنے طرز عمل پر ہے۔ نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکتا ہے‘ نہ کسی کے عمل کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالی جاتی ہے اور نہ کسی کے عمل کا صلہ دوسرے کو ملتا ہے۔ اس کے ہاں جانبداری نہیں کہ ایک شخص یا خاندان یا قوم یا نسل سے اس کو دوسرے کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی ہو۔ سب انسان اس کی نگاہ میں یکساں ہیں۔ سب کے لیے ایک ہی قانون اخلاق ہے اور فضیلت جو کچھ بھی ہے اخلاقی فضیلت کے اعتبار سے ہے۔ وہ خود رحیم ہے اور رحم کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود فیاض ہے اور فیاضی کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود غفور ہے اور درگزر کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود عادل ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے۔ وہ ظلم سے ‘ تنگ نظری و تنگدلی سے‘ بے رحمی و سنگ دلی سے تعصب اور نفسانی جانبداری سے پاک ہے‘ اس لیے انہی کو پسند کرتا ہے جو ان صفات سے پاک ہوں۔ پھر کبریائی تنہا اس کا حق ہے اس لیے تکبر اسے ناپسند ہے۔ خدائی صرف اسی کے لیے ہے‘ اور دوسرے سب اس کے بندے ہیں‘ اس لیے ایک بندے پر دوسرے کی خداوندی اس کو پسند نہیں۔ مالک وہ اکیلا ہے اور دوسروں کے پاس جو کچھ ہے امانت کی حیثیت سے ہے‘ اس لیے کسی بندے کی خودمختاری اور کسی کا کسی کے لیے قانون بنانا اور کسی کاکسی کے لیے بذات خود واجب الاطاعت ہونا یہ سب فی الحقیقت غلط ہے۔ سب کا مُطاع وہی ایک ہے اور سب کے لیے خیر اسی میں ہے کہ اس کی بے چون و چرا اطاعت کریں۔ پھر وہ محسن ہے اور شکر‘ احسان مندی اور محبت کا مستحق ہے۔ وہ منعم ہے اور اس کا حق دار ہے کہ اس کی نعمتوں میں اسی کے منشا کے مطابق تصرف کیا جائے۔ وہ منصف ہے اور لازم ہے کہ انسان اس کے انصاف میں سزا پانے کا خوف اور جزاپانے کی طمع رکھے۔ وہ علیم و خبیر ہے اور دلوں کی چھپی ہوئی نیتوں سے بھی واقف ہے اس لیے ظاہری حسنِ اخلاق سے اس کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ وہ محیط ہے اس لیے کوئی یہ امید بھی نہیں کرسکتا کہ جرم کرکے اس کی پکڑ سے بچ نکلے گا۔
خدا کے اس تصور پر غور کیجیے۔ اس سے بالکل ایک فطری نتیجہ کے طور پر انسان کے لیے ایک مکمل اخلاقی زندگی کا نقشہ وجود میں آتا ہے اور وہ نقشہ ان تمام کمزوریوں سے خالی ہے جو مشرکانہ مذاہب کی اخلاقیات اور دہریانہ مسلکوں کی اخلاقیات میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں نہ تو اخلاقی ذمہ داریوں سے بچ نکلنے کے چور دروازے کہیں موجود ہیں‘ نہ ان ظالمانہ فلسفوں کے لیے کوئی جگہ ہے جن کی بنا پرانسان اپنی دلچسپیوں کے لحاظ سے عالمِ انسانیت کو تقسیم کرکے ایک حصہ کے لیے مجسّم فرشتہ اور دوسرے حصہ کے لیے مجسم شیطان بن جاتا ہے۔ نہ دہریانہ اخلاقیات کی وہ بنیادی کمزوریاں اس میں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اخلاق میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔ ان سلبی خوبیوں کے ساتھ اس نقشہ میں یہ ایجابی خوبی موجود ہے کہ یہ اخلاقی فضیلت کا ایک بلند ترین اور وسیع ترین منتہا پیش کرتا ہے جس کی وسعت اور بلندی کی کوئی حد نہیں اور اس منتہا کی طرف بڑھنے کے لیے ایسے محرکات فراہم کرتا ہے جو پاکیزہ ترین ہیں۔
پھر یہ تصور کہ امتحان کسی ایک چیز میں نہیں بلکہ ان تمام چیزوں میں ہے جو خدا نے انسان کو دی ہیں‘ کسی ایک حیثیت میں نہیں بلکہ ان تمام حیثیتوں میں ہے جو انسان کو یہاں حاصل ہیں‘ اور کسی ایک شعبہ حیات میںنہیں‘ بلکہ پوری زندگی میںہے‘ یہ اخلاق کے دائرے کو اتنا ہی پھیلادیتا ہے جتنا امتحان کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ انسان کی عقل اس کے ذرائع علم‘ اس کی ذہنی و فکری قوتیں‘ اس کے حواس‘ اس کے جذبات‘ اس کی خواہشات‘ اس کی جسمانی طاقتیں‘ سب کی سب امتحان میں شریک ہیں‘ یعنی امتحان آدمی کی پوری شخصیت کا ہے‘ پھر خارج کی دنیا میں جن جن اشیا سے آدمی کو سابقہ پیش آتا ہے‘ جن اشیا پر وہ تصرف کرتا ہے‘ جن انسانوں سے مختلف طور پر اس کو واسطہ پڑتا ہے‘ ان سب کے ساتھ اس کے برتائومیں امتحان ہے اور سب سے بڑھ کر اس امر میں امتحان ہے کہ انسان یہ سب کچھ خدا کی خداوندی اور اپنی عبدیت و نیابت کے احساس کے ساتھ کررہا ہے یا آزادی و مختاری کی ہوا میںمبتلا ہوکر؟ یا خدا کے سوادوسروں کا بندہ بن کر؟ ان وسیع ترین تصور اخلاق میںوہ تنگی نہیںہے جو مذہب کے محدود تصوّر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ آدمی کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھاتا ہے۔ ہر میدان کی اخلاقی ذمہ داریاں اسے بتاتا ہے‘ اور وہ اخلاقی اصول اسے دیتا ہے‘ جن کی پیروی کرنے سے وہ خدا کے اس امتحان میںکامیاب ہوسکے جو ایک ایک میدانِ زندگی سے متعلق ہے۔
پھر یہ تصور کہ امتحان کا اصلی اور آخری فیصلہ اس زندگی میںنہیں‘ بلکہ دوسری زندگی میں ہوگا اور حقیقی کامیابی و ناکامی وہ ہے جو وہاں ہو نہ کہ یہاں‘ یہ دنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر انسان کی نظر کو بنیادی طور پر بدل دیتا ہے۔ اس تصور کی وجہ سے وہ نتائج جو اس دنیا میں نکلتے ہیں‘ ہمارے لیے حسن و قبیح‘ صحت اور غلطی‘ حق اور باطل اور کامیابی و ناکامی کے قطعی‘ اصلی اور آخری معیار نہیں رہتے۔ اس لیے قانونِ اخلاق کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا انحصار بھی ان نتائج پر نہیں ہوسکتا ہے جو شخص اس تصور کوقبول کرلے گا‘ وہ قانونِ اخلاق کی پیروی پر بہرحال ثابت قدم رہے گا خواہ اس دنیا میں اس کا نتیجہ بظاہر اچھا ہو یا برا‘ کامیابی کی صورت میں نکلتا نظر آئے یا ناکامی کی صورت میں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی نگاہ میں دنیوی نتائج بالکل ہی ناقابلِ لحاظ ہوں گے بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ وہ اصلی اور آخری لحاظ ان کا نہیں بلکہ آخرت کے پائیدار نتائج کا کرے گا اور اپنے لیے صحیح صرف اسی طرزِ عمل کو سمجھے گا جو ان نتائج پر نگاہ رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے۔ وہ کسی چیز کو چھوڑنے اور کسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کرے گا کہ زندگی کے اس ابتدائی مرحلہ میں وہ لذت اور خوشی اور نفع کی موجب ہے یا نہیں۔ بلکہ اس بنیاد پر کرے گا کہ زندگی کے آخری مرحلہ میں اپنے قطعی و حتمی نتائج کے اعتبار سے وہ کیسی ہے۔ اس طرح اس کا نظامِ اخلاق ترقی پذیر تو ضرور رہے گا مگر اس کے اصولِ اخلاق تغیر پذیر نہیں ہوں گے اور نہ اس کی سیرت ہی تلون پذیر ہوگی۔ یعنی تمدن و تہذیب کے نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے اخلاقی تصورات میں وسعت تو یقیناً ہوگی‘ مگر یہ ممکن نہ ہوگا کہ واقعات کی ہر کروٹ اور حالات کی ہرگردش کے ساتھ اخلاق کے اصول بھی بدلتے جائیں اور آدمی ایک اخلاقی گرگٹ بن کر رہ جائے کہ اس کے اخلاقی رویہ میںسرے سے کوئی پائیدار ہی نہ ہو۔
پس اخلاق کے نقطۂ نظر سے آخرت کا یہ اسلامی تصور دو اہم فائدے عطا کرتا ہے‘ جو کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتے ایک یہ کہ اس سے اصولِ اخلاق کو غایت درجہ کا استحکام نصیب ہوتا ہے جس میں تزلزل کا کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس سے انسان کی اخلاقی سیرت کو وہ استقامت میسر آتی ہے جس میں (بشرطِ ایمان) انحراف کا کوئی اندیشہ نہیں۔ دنیا میں سچائی کے دس مختلف نتیجے نکل سکتے ہیں اور ان پر نگاہ رکھنے والا ایک ابن الوقت انسان مواقع اور امکانات کے لحاظ سے دس مختلف طرزِ عمل اختیار کرسکتا ہے۔ لیکن آخرت میں سچائی کا نتیجہ لازماً ایک ہی ہے اور اس پر نظر رکھنے والا ایک مومن انسان دنیوی فائدے اور نقصان کا لحاظ کئے بغیر لازماً ایک ہی طرز عمل اختیار کرے گا۔ دنیوی نتائج کا اعتبار کیجیے تو خیرو شر کسی متعین چیز کا نام نہیں رہتا بلکہ ایک ہی چیز اپنے مختلف نتیجوں کے لحاظ سے کبھی خیر اور کبھی شر بنتی رہتی ہے اور اس کے اتباع میں دنیا پرست آدمی کاکردار بھی اپنی پوزیشن تبدیل کرتا رہتا ہے۔ لیکن آخرت کے نتائج پر نظر رکھئے تو خیر اور شر دونوں قطعی طور پرمتعین ہوجاتے ہیں اور مومن آدمی کے لیے یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ کبھی خیر کو بد انجام یا شر کو نیک انجام سمجھ کر اپنے کردار کو بدل دے۔
پھر یہ تصور کہ انسان اس دنیا میں خدا کا خلیفہ ہے اور تصرف کے جو اختیارات یہاں اسے حاصل ہیں وہ سب دراصل نائب خدا ہونے کی حیثیت سے ہیں‘ انسانی زندگی کے لیے راستے اور مقصد دونوں کا تعین کردیتا ہے۔ اس تصور سے لازم آتا ہے کہ انسان کے لیے خودمختاری اور بندگی غیر اور خداوندانہ بڑائی کے تمام رویئے غلط ہوں اور صرف یہی ایک رویہ صحیح ہو کہ اپنے تمام تصرفات میں وہ خدا کی مرضی کا تابع اور اس کے نازل کردہ اخلاقی قانون کا پابند بن کررہے۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان ایک طرف تو اپنے اخلاقی رویہ میں ہر ایسے طرز عمل سے بشدت اجتناب کرے جس میں خودمختاری و بغاوت کا یا خدا کے سوا کسی اور کی بندگی‘ یا خداوندانہ کبریائی کا ذرہ برابر شائبہ پایا جاتا ہو۔ کیوں کہ یہ تینوں چیزیں اس کی نائبانہ حیثیت کے منافی ہیں مگر دوسری طرف خدا کی املاک میں اس کا تصرف‘ اور خدا کی پیدا کردہ قوتوں میں اس کا برتائو‘ اور خدا کی رعیت میں اس کی فرماں روائی اس اخلاق اور اس برتائو کے عین مطابق ہو جو اس سلطنت کا اصل مالک اپنے ملک اور اپنی رعیت میں اختیار کررہا ہے۔ کیونکہ نائبانہ حیثیت کا فطری اقتضا یہی ہے کہ نائب سلطان کی پالیسی خود سلطان کی پالیسی سے اور نائب سلطان کے اخلاق خود سلطان کے اخلاق سے منافی نہ ہوں۔ نیز اس تصور سے یہ بھی لازم آتا ہے جو قوتیں اللہ نے انسان کو عطا کی ہیں اور جو ذرائع اور وسائل اسے دنیا میں بخشے ہیں ان سب کو استعمال کرنے اور منشا الٰہی کے مطابق استعما ل کرنے پر انسان مامور ہو۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہ نائب سلطان بھی سخت مجرم ہو جس نے سلطان کے منشا کے خلاف اس کی ملک اور اس کی رعیت میں تصرف کیا اور وہ نائب بھی بڑا مجرم قرار پائے جس نے سلطان کے دیے ہوئے اختیارات میں سے کسی اختیار کوسرے سے استعمال ہی نہ کیا بلکہ اس کی بخشی ہوئی قوتوں میں سے کسی قوت کو بلاوجہ ضائع کردیا۔ اس کے بنائے ہوئے ذرائع و وسائل سے کام لینے میں جان بوجھ کر کوتاہی کی اور اس ڈیوٹی سے منہ موڑ کر کھڑا ہوگیا جس پر سلطان نے اسے مامور کیاتھا۔ نیز اس تصور سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ پوری نوعِ انسانی کی اجتماعی زندگی ایسے ڈھنگ پر قائم ہوکہ سارے انسان‘ یعنی خدا کے سب خلیفہ‘ ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں جو خدا نے ان پر عائد کی ہیں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوں اور نظام تمدن و عمران میں ایسی کوئی چیز کارفرما نہ رہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کی‘ یا انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کی خلافت کو عملاً سلب کرلے یا اس کے اجراء میں مانع و مزاحم ہو‘ بجز اس صورت کے جب کہ کوئی انسان خلافت سے محروم ہوکر اپنے حقیقی سلطان سے بغاوت کا مرتکب ہورہا ہو۔
یہ تو ہے وہ اخلاقی منہاج جو تصورِ خلافت سے ایک لازمی نتیجہ کے طور پر انسان کے لیے بنتی ہے۔ رہا انسان کی اخلاقی زندگی کا مقصد اور اس کی تمام سعی و عمل کا نصب العین تو وہ بھی اسی تصور سے بالکل ایک منطقی لزوم کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔ نائب سلطان کی حیثیت سے انسان کا زمین پر مامور ہونا خودبخود اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ خدا نے زمین کے انتظام کا جتنا حصہ انسان سے متعلق کیا ہے اس حصہ میں خدا کے قانون کو جاری کرنا‘ خدا کے منشا کے مطابق امن اور عدل اور صلاح کا نظام قائم کرنا اور قائم رکھنا‘ اس نظام میں شروفساد کی جو صورتیں شیاطین جن و انس پیدا کریں ان کو دبانا اور مٹانا اور ان بھلائیوں کو زیادہ سے زیادہ نشوونما دینا جو خدا کو محبوب ہیں اور جن سے خداوندِ عالم زمین اور اپنی رعیت کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ ہے وہ مقصد جس پر ہر وہ انسان اپنی تمام مساعی کو مرکوز کردے گا جس کے اندر خلیفۂ الٰہی ہونے کا شعور پیدا ہوچکا ہو۔ یہ مقصد صرف یہی نہیں کہ ان تمام مقاصد کی نفی کردیتا ہے جو لذت پرستوں اور مادہ پرستوں اور قوم پرستوں اور دوسرے مہملات کے پرستاروں نے اپنی زندگی کے لیے مقرر کئے ہیں۔ بلکہ یہ ان کے لایعنی مقاصد کی بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ نفی کرتا ہے جو روحانیت کے ایک غلط تصور کے تحت اہلِ مذاہب نے متعین کئے ہیں۔ ان دونوں غلط انتہائوں کے درمیان خلافتِ الٰہیہ کا تصور انسان کے سامنے ایک ایسا بلند ترین اور پاکیزہ ترین مقصدِ حیات رکھ دیتا ہے جو اس کی قوتوں اور قابلیتوں کو زندگی کے ہر میدان میں برسرِ کار لاتا ہے اور انہیں ایک صالح ترین نظامِ تہذیب و تمدن کے قیام و ارتقا کی خدمت میں استعمال کرتا ہے۔