تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

یہ تقریر ۲۱ اپریل ۱۹۴۵ء کو دارالاسلام‘ نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب)
میں جماعت اسلامی کے کُل ہند اجتماع کے آخری اجلاس میں کی گئی تھی


رفقاء و حاضرین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے‘ ہماری جدوجہد کا آخری مقصود ’’انقلابِ امامت‘‘ ہے۔ یعنی دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت ختم ہوکر امامت صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی مقصد عظیم کے لیے سعی و جہد کو ہم دنیا و آخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کے ذریعہ سمجھتے ہیں۔

یہ چیز جسے ہم نے اپنا مقصد قرار دیا ہے افسوس ہے کہ آج اس کی اہمیت سے مسلم اور غیر مسلم سبھی غافل ہیں۔ مسلمان اس کو محض سیاسی مقصد سمجھتے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ دین میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ غیر مسلم کچھ تعصب کی بنا پر اور کچھ ناواقفیت کی وجہ سے اس حقیقت کو جانتے ہی نہیں کہ دراصل فساق و فجار کی قیادت ہی نوع انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میںہو۔ آج دنیا میں جو فساد عظیم برپا ہے‘ جو ظلم اور طغیان ہورہا ہے‘ انسانی اخلاق میں جو عالمگیر بگاڑ رونما ہے‘ انسانی تمدن اور معیشت و سیاست کی رگ رگ میں جو زہر سرایت کرگئے ہیں‘ زمین کے تمام وسائل اور انسانی علوم کی دریافت کردہ ساری قوتیں جس طرح انسان کی فلاح و بہبود کے بجائے اس کی تباہی کے لیے استعمال ہورہی ہیں‘ ان سب کی ذمہ داری اگر کسی چیز پر ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ دنیا میں چاہے نیک لوگوں اور شریف انسانوں کی کمی نہ ہو‘ مگر دنیا کے معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں‘ بلکہ خدا سے پھرے ہوئے اور مادہ پرستی و بد اخلاقی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اب اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہو اور فساد کو اصلاح سے‘ اضطراب کو امن سے‘ بداخلاقیوں کو اخلاق صالحہ سے اور برائیوں کوبھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حسنِ اخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوعِ انسانی میںجتنے صالح عناصر اس کو مل سکیں انہیںملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدن کی زمام کار فاسقوں سے چھینی جاسکے اور امامت کے نظام میں تغیر کیاجاسکے۔

زمامِ کار کی اہمیت

انسانی زندگی کے مسائل میں جس کو تھوڑی سی بصیرت حاصل ہو وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہ سکتا کہ انسانی معاملات کے بنائو اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملاتِ انسانی کی زمام کار کس کے ہاتھ میںہے۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت چلا کرتی ہے جس سمت پر ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہے اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں خواستہ و ناخواستہ اسی سمت پر سفر کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت پر وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں‘ قوت و اقتدار کی باگیں جن کے ہاتھ میں ہوں‘ عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو‘ خیالات و افکار اور نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں‘ انفرادی سیرتوں کی تعمیر اور اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو‘ ان کی رہنمائی و فرماں روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہیں۔ یہ رہنما و فرمانروا‘ اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر و اصلاح پر چلے گا‘ برے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے‘ بھلائیوں کو نشوونما نصیب ہوگا اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو کم از کم پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی۔ لیکن اگر رہنمائی و قیادت اور فرمانروائی کا یہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق و فجور میںسرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظام زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم و بداخلاقی و معاملات‘ عدل و قانون‘ سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی۔ بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور ہوا اور پانی ان کو غذا دینے سے انکار کردیں گے اور خدا کی زمین ظلم و جور سے لبریز ہوکر رہے گی۔ ایسے نظام میںبرائی کی راہ پر چلنا آسان اور بھلائی کی راہ پر چلنا کیا معنی‘ قائم رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح آپ نے کسی بڑے مجمع میں دیکھا ہوگا کہ سارا مجمع جس طرف جارہا ہو اس طرف چلنے کے لیے تو آدمی کو کچھ قوت لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ مجمع کی قوت سے خود بخود اسی طرف بڑھتا چلاجاتا ہے۔ لیکن اگر اس کی مخالف سمت میں کوئی چلنا چاہے تو وہ بہت زور مار کر بھی بہ مشکل ایک آدھ قدم چل سکتا ہے‘ اور جتنے قدم وہ چلتا ہے مجمع کا ایک ہی ریلا اس سے کئی گنے زیادہ قدم اسے پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ اسی طرح اجتماعی نظام بھی جب غیرصالح لوگوں کی قیادت میں کفر و فسق کی راہوں پر چل پڑتا ہے تو افراد اور گروہوں کے لیے غلط راہ چلنا تو اتنا آسان ہوجاتا ہے کہ انہیں بطور خود اس پرچلنے کے لیے کچھ زور لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی‘ لیکن اگر وہ اس کے خلاف چلنا چاہیں تو اپنے جسم و جان کا سارا زور لگانے پر بھی ایک آدھ قدم ہی راہ راست پر بڑھ سکتے ہیں اور اجتماعی رو‘ ان کی مزاحمت کے باوجود انہیں دھکیل کر میلوں پیچھے ہٹالے جاتی ہے۔

یہ بات جو میں عرض کررہا ہوں‘ یہ اب کوئی ایسی نظری حقیقت نہیں رہی ہے جسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہو‘ بلکہ واقعات نے اسے ایک بدیہی حقیقت بنادیا ہے جس سے کوئی صاحبِ دیدئہ بینا انکار نہیں کرسکتا۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ پچھلے سو برس کے اندر آ پ کے اپنے ملک میں کس طرح خیالات و نظریات بدلے ہیں‘ مذاق اور مزاج بدلے میں‘ سوچنے کے انداز اور دیکھنے کے زاویے بدلے ہیں‘ تہذیب و اخلاق کے معیار اور قدر و قیمت کے پیمانے بدلے ہیں اور کونسی چیز رہ گئی ہے جو بدل نہ گئی ہو۔ یہ سارا تغیر جو دیکھتے ہیں آپ کی اسی سرزمین میں ہوا اس کی اصلی وجہ آخر کیا ہے؟ کیا آپ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور بتاسکتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار تھی اور رہنمائی و فرمانروائی کی باگوں پر جن کا قبضہ تھا‘ انہوں نے پورے ملک کے اخلاق‘ اذہان‘ نفسیات‘ معاملات اور نظام تمدن کو اس سانچے میں ڈھال کررکھ دیا جو ان کی اپنی پسند کے مطابق تھا۔ پھر جن طاقتوں نے اس تغیر کی مزاحمت کی‘ ذرا ناپ کر دیکھیے کہ انہیں کامیابی کتنی ہوئی اور ناکامی کتنی۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ کل جو مزاحمت کی تحریک کے پیشوا تھے‘ آج ان کی اولاد وقت کی رو میں بہی چلی جارہی ہے اور ان کے گھروں تک میں بھی وہی سب کچھ پہنچ گیا ہے جو گھروں سے باہر پھیل چکا تھا؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ مقدس ترین مذہبی پیشوائوں تک کی نسل سے وہ لوگ اٹھ رہے ہیں جنہیں خدا کے وجود اور وحی و رسالت کے امکان میںبھی شک ہے؟ اس مشاہدے اور تجربے کے بعد بھی کیا کسی کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تامل ہوسکتا ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل۔ میں اصل فیصلہ کن مسئلہ زمام کار کا مسئلہ ہے؟ اور یہ اہمیت اس مسئلے نے کچھ آج ہی اختیار نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ سے اس کی یہی اہمیت رہی ہے۔ الناس علی دین ملوکھم بہت پرانا مقولہ ہے۔ اور اسی بنا پر حدیث میں قوموں کے بنائو اور بگاڑ کا ذمہ داران کے علماء اور امراء کو قرار دیا گیا ہے‘ کیونکہ لیڈر شپ اور زمامِ کار انہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

امامتِ صالحہ کا قیام دین کا حقیقی مقصود ہے

اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ کا دین اول تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیہ بندئہ حق بن کر رہیں اور ان کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے اور ان منکرات کااستیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور ان خیرات و حسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں۔ ان تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اس طرح پورا نہیں ہوسکتا کہ نوعِ انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملاتِ انسانی کی سربراہ کاری آئمہ کفر و ضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرو محض ان کے ماتحت رہ کر ان کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یادِ خدا کرتے رہیں۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہلِ خیر و اصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظام حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی کا منصب مومنین و صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدعا حاصل ہی نہیں ہوسکتا جو دین کا اصل مدعا ہے۔

اسی لیے دین میں امامتِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہوسکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے‘ آخر قرآن و حدیث میں التزامِ جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خروج اختیار کرلے تو اس سے قتال واجب ہے‘ خواہ وہ کلمہ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامتِ صالحہ اور نظام حق کا قیام و بقاء دین کا حقیقی مقصود ہے۔ اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے‘ لہٰذا جو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہوسکتی ہے اور نہ اقرارِ توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتا ہے؟ جہاد‘ نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلط پر راضی ہوسکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے‘ پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچاسکتا ہے؟

اس وقت اتنا موقع نہیں ہے کہ میں آپ کے سامنے اس مسئلے کی پوری تفصیل بیان کروں۔ مگر جو کچھ میںنے عرض کیا ہے وہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لیے بالکل کافی ہے کہ اسلام کے نقطئہ نظر سے امامتِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اس ایک مقصد پر مرکوز کردے کہ زمام کار کفار و فساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چونکہ یہ مقصد اعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اس لیے ایک ایسی جماعتِ صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے‘ باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دنیا میں کوئی دوسری غرض پیش نظر نہ رکھے۔ روئے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلط پر راضی ہوجائے یا اہون البلعیتین کے شرعی حیلے تلاش کرکے غلبہ کفر و فسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کردے۔ بلکہ اس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ صرف یہی ایک ہے کہ بندگان خدا کو اس طریق زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سن کر نہ دے تو اس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہوکر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مرجانا اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دنیا کو مرغوب ہوں اور ان راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہو اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہوجائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اس مقصد عظیم کے لیے جدوجہد کرنے میںصرف کردے جس کا میں ذکر کررہا ہوں۔

حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن و حدیث کے مطالعہ سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں۔ یہی میرے نزدیک کتابِ الٰہی کا مطالبہ ہے یہی انبیاء کی سنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسول کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کردے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔

امامت کے باب میں خدا کی سنت

اپنی سعی کے اس مقصد منتہا کو سمجھ لینے کے بعد اب ہمیں اس سنت اللہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے تحت ہم اپنے اس مقصود کو پاسکتے ہیں۔ یہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں‘ اس کو اللہ تعالیٰ نے ایک قانون پر بنایا ہے اور اس کی ہر چیز ایک لگے بندھے ضابطے پر چل رہی ہے۔ یہاں کوئی سعی محض پاکیزہ خواہشات اور اچھی نیتوں کی بنا پر کامیاب نہیں ہوسکتی‘ اور نہ محض نفوسِ قدسیہ کی برکتیں ہی اس کو بار آور کرسکتی ہیں‘ بلکہ اس کے لیے ان شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے جو ایسی مساعی کی بار آوری کے لیے قانونِ الٰہی میں مقرر ہیں۔ آپ اگر زراعت کریں تو خواہ آپ کتنے ہی بزرگ صفت انساں ہوں اور تسبیح و تحلیل میں کتنا ہی مبالغہ کرتے ہوں‘ بہرحال آپ کا پھینکا ہوا کوئی بیج بھی برگ و بار نہیں لاسکتا جب تک آپ اپنی سعی کاشتکاری میں اس قانون کی پوری پوری پابندی ملحوظ نہ رکھیں‘ جو اللہ تعالیٰ نے کھیتوں کی بار آوری کے لیے مقرر کردیا ہے۔ اسی طرح نظامِ امامت کا وہ انقلاب بھی جو آپ کے پیش نظر ہے‘ کبھی محض دعائوں اور پاک تمنائوں سے رونما نہ ہوسکے گا۔ بلکہ اس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ آپ اس قانون کو سمجھیں اور اس کی ساری شرطیں پوری کریں جس کے تحت دنیا میں امامت قائم ہوتی ہے‘ کسی کو ملتی ہے اور کسی سے چھنتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی میں اس مضمون کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں اشارۃً بیان کرتا رہا ہوں‘ لیکن آج میں اسے مزید تفصیل و تشریح کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ یہ وہ مضمون ہے جسے پوری طرح سمجھے بغیر ہمارے سامنے اپنی راہ عمل واضح نہیں ہوسکتی۔

انسان کی ہستی کا اگر تجزیہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر دو مختلف حیثیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور باہم ملی جلی بھی۔

اس کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ اپنا ایک طبعی و حیوانی وجود رکھتا ہے جس پر وہی قوانین جاری ہوتے ہیں جو تمام طبیعات و حیوانات پر فرمانروائی کررہے ہیں۔ اس وجود کی کارکردگی منحصر ہے ان آلات و وسائل پر‘ ان مادی ذرائع پر اور ان طبعی حالات پر جن پر دوسری تمام طبعی اور حیوانی موجودات کی کارکردگی کا انحصار ہے۔ یہ وجود جو کچھ کرسکتا ہے قوانین طبعی کے تحت‘ آلات و وسائل کے ذریعے سے اور طبعی حالات کے اندر ہی رہتے ہوئے کرسکتا ہے اور اس کے کام پر عالمِ اسباب کی تمام قوتیں مخالف یا موافق اثر ڈالتی ہیں۔

دوسری حیثیت جو انسان کے اندر نمایاں نظر آتی ہے وہ اس کے انسان ہونے‘ یا بالفاظ دیگر ایک اخلاقی وجود ہونے کی حیثیت ہے۔ یہ اخلاقی وجود طبیعات کا تابع نہیں ہے۔ بلکہ ان پر ایک طرح سے حکومت کرتا ہے۔ یہ خود انسان کے طبعی و حیوانی وجود کو بھی آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے اور خارجی دنیا کے اسباب کو بھی اپنا تابع بنانے اور ان سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کارکن قوتیں وہ اخلاقی اوصاف ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت فرمائے ہیں۔ اور اس پر فرمانروائی بھی طبعی قوانین کی نہیں بلکہ اخلاقی قوانین کی ہے۔

انسانی عروج و زوال کا مدار اخلاق پر ہے

یہ دونوں حیثیتیں انسان کے اندر ملی جلی کام کررہی ہیں اور مجموعی طور پر اس کی کامیابی و ناکامی اور اس کے عروج و زوال کا مدار مادی اور اخلاقی دونوں قسم کی قوتوں پر ہے۔ وہ بے نیاز نہ تو مادی قوت ہی سے ہوسکتا ہے اور نہ اخلاقی قوت ہی سے۔ اسے عروج ہوتا ہے تو دونوں کے بل پر ہوتا ہے اور وہ گرتا ہے تو اسی وقت گرتا ہے جب یہ دونوں طاقتیں اس کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہیں‘ یا ان میں وہ دوسروں کی نسبت کمزور ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی میںاصل فیصلہ کن مادی وسائل کا حصول‘ طبعی ذرائع کا استعمال‘ اور اسبابِ خارجی کی موافقت بھی کامیابی کے لیے شرط لازم ہے اور جب تک انسان اس عالم طبعی میں رہتا ہے یہ شرط کسی طرح ساقط نہیں ہوسکتی۔ مگر وہ اصل چیز جو انسان کو گراتی اور اٹھاتی ہے اور جسے اس کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میںسب سے بڑھ کردخل حاصل ہے وہ اخلاقی طاقت ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جس چیز کی وجہ سے انسان کو انسان کہتے ہیں وہ اس کی جسمانیت یا حیوانیت نہیں بلکہ اس کی اخلاقیت ہے۔ آدمی دوسری موجودات سے جس خصوصیت کی بنا پر ممیز ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ جگہ گھیرتا ہے یا سانس لیتا ہے یانسل کَشی کرتا ہے۔ بلکہ اس کی وہ امتیازی خصوصیت جو اسے ایک مستقل نوع ہی نہیں خلیفۃ اللہ فی الارض بناتی ہے‘ وہ اس کا اخلاقی اختیار اور اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونا ہے۔ پس جب اصل جوہرِ انسانیت اخلاق ہے تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اخلاقیات ہی کو انسانی زندگی کے بنائو اور بگاڑ میں فیصلہ کن مقام حاصل ہے اور اخلاقی قوانین ہی انسان کے عروج و زوال پر فرمانروا ہیں۔

اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد جب ہم اخلاقیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اصولی طور پر ہمیں دو بڑے شعبوں میں منقسم نظر آتے ہیں۔

ایک بنیادی انسانی اخلاقیات‘ دوسرے اسلامی اخلاقیات۔

بنیادی انسانی اخلاقیات

بنیادی انسانی اخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اخلاقی وجود کی اساس قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں جودنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرطِ لازم ہیں‘ خواہ وہ صحیح مقصد کے لیے کام کررہا ہو یا غلط مقصد کے لیے۔ ان اخلاقیات میں اس سوال کا کوئی دخل نہیں ہے کہ آدمی خدا اور وحی اور رسول اور آخرت کو مانتا ہے یا نہیں‘ طہارتِ نفس اور نیت خیر اور عملِ صالح سے آراستہ ہے یا نہیں‘ اچھے مقصد کے لیے کام کررہا ہے یابرے مقصد کے لیے۔ قطع نظر اس سے کہ کسی میں ایمان ہو یا نہ ہو‘ اور اس کی زندگی پاک ہو یا ناپاک‘ اس کی سعی کا مقصد اچھا ہو یا برا‘ جو شخص اور جو گروہ بھی اپنے اندر وہ اوصاف رکھتا ہوگا جو دنیا میں کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں وہ یقیناً کامیاب ہوگا اور ان لوگوں سے بازی لے جائے گا جو ان اوصاف کے لحاظ سے اس کے مقابلے میں ناقص ہوں گے۔

مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد‘ مصلح ہو یا مفسد‘ غرض جو بھی ہو‘ وہ اگر کارگر انسان ہوسکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو‘ عزم اور حوصلہ‘ صبر و ثبات اور استقلال ہو‘ تحمل اور برداشت ہو‘ ہمت اور شجاعت ہو‘ مستعدی و جفاکشی ہو‘ اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لیے ہر چیز قربان کردینے کا بل بوتا ہو‘ حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبر ہو‘ حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کوڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو‘ اپنے جذبات و خواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو‘ اور دوسرے انسانوں کو موہنے اور ان کے دل میںجگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔

پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم ہوتا ہے۔ مثلاً خود داری‘ فیاضی‘ رحم‘ ہمدردی‘ انصاف‘ وسعتِ قلب و نظر‘ سچائی‘ امانت‘ راست بازی‘ پاسِ عہد‘ معقولیت‘ اعتدال‘ شائستگی‘ طہارت و نظافت اور ذہن و نفس کا انضباط۔

یہ اوصاف اگر کسی قوم یا گروہ کے بیشتر افراد میں موجود ہوں تو گویا یوں سمجھئے کہ اس کے پاس وہ سرمایہ انسانیت موجود ہے جس سے ایک طاقتور اجتماعیت وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن یہ سرمایہ مجتمع ہوکر بالفعل ایک مضبوط و مستحکم اور کارگر اجتماعی طاقت نہیں بن سکتا جب تک کچھ دوسرے اخلاقی اوصاف بھی اس کی مدد پر نہ آئیں۔ مثلا تمام یا بیشتر افراد کسی اجتماعی نصب العین پر متفق ہوں اور اس نصب العین کو اپنی انفرادی اغراض‘ بلکہ اپنی جان‘ مال اور اولاد سے بھی عزیز تر رکھیں۔ ان کے اندر آپس کی محبت اور ہمدردی ہو‘ انہیں مل کر کام کرنا آتا ہو۔ وہ اپنی خودی و نفسانیت کو کم از کم اس حد تک قربان کرسکیں جو منظم سعی کے لیے ناگزیر ہے۔ وہ صحیح و غلط رہنما میں تمیز کرسکتے ہوں اور موزوں آدمیوں ہی کو اپنا رہنما بنائیں۔ ان کے رہنمائوں میں اخلاص اور حسنِ تدبیر اور رہنمائی کی دوسری ضروری صفات موجود ہوں۔ اور خود قوم یا جماعت بھی اپنے رہنمائوں میں اخلاص اور حسنِ تدبیر اور رہنمائی کی دوسری ضروری صفات موجود ہوں۔ اور خود قوم یا جماعت بھی اپنے رہنمائوں کی اطاعت کرنا جانتی ہو‘ ان پر اعتماد رکھتی ہو‘ اور اپنے تمام ذہنی‘ جسمانی اور مادی ذرائع ان کے تصرف میں دے دینے پر تیار ہو۔ نیز پوری قوم کے اندر ایسی زندہ اور حساس رائے عام پائی جاتی ہو جو کسی ایسی چیز کو اپنے اندر پنپنے نہ دے جو اجتماعی فلاح کے لیے نقصان دہ ہو۔

یہ ہیں وہ اخلاقیات جن کو میں ’’بنیادی اخلاقیات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہوں۔ کیونکہ فی الواقع یہی اخلاقی اوصاف انسان کی اخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور انسان کسی مقصد کے لیے بھی دنیا میں کامیاب سعی نہیں کرسکتا جب تک ان اوصاف کا زور اس کے اندر موجود نہ ہو۔ ان اخلاقیات کی مثال ایسی ہے جیسے فولاد کہ وہ اپنی ذات میں مضبوطی و استحکام رکھتا ہے اور اگر کوئی کارگر ہتھیار بن سکتا ہے تو اسی سے بن سکتا ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ غلط مقصد کے لیے استعمال ہو یاصحیح مقصد کے لیے۔ آپ کے پیش نظر صحیح مقصد ہو تب بھی آپ کے لیے مفید وہی ہتھیار ہوسکتا ہے جو فولاد سے بنا ہو نہ کہ سڑی گلی پُھس پُھسی لکڑی سے جو ایک ذرا سے بوجھ اور معمولی سی چوٹ کی بھی تاب نہ لاسکتی ہو۔ یہی وہ بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میںبیان فرمایا ہے کہ خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام۔ ’’تم میں جو لوگ اپنے اندر جوہر قابل رکھتے تھے وہی زمانہ اسلام میں مردان کار ثابت ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی قابلیتیں پہلے غلط راہوں میں صرف ہورہی تھیں اور اسلام نے آکر انہیں صحیح راہ پر لگادیا۔ مگربہرحال ناکارہ انسان نہ جاہلیت کے کسی کام کے تھے نہ اسلام کے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میںجو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور جس کے اثرات تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد دریائے سندھ سے لے کر اٹلانٹک کے ساحل تک دنیا کے ایک بڑے حصے نے محسوس کرلیے‘ اس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا تھا جس کے اندر کیرکٹر کی زبردست طاقت موجود تھی۔ اگر خدانخواستہ آپ کو بودے‘ کم ہمت ضعیف الارادہ اور ناقابل اعتماد لوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے؟

اسلامی اخلاقیات

اب اخلاقیات کے دوسرے شعبے کو لیجیے جسے میں ’’اسلامی اخلاقیات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کر رہا ہوں۔ یہ بنیادی انسانی اخلاقیات سے الگ کوئی چیزنہیں ہے بلکہ اس کی تصحیح اور تکمیل ہے۔

اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو ایک صحیح مرکز و محور مہیا کردیتا ہے جس سے وابستہ ہوکر وہ سراپا خیر بن جاتے ہیں۔ اپنی ابتدائی صورت میں تو یہ اخلاقیات مجرد ایک قوت ہیںجو خیربھی ہوسکتی ہے اور شر بھی۔ جس طرح تلوار کا حال ہے کہ وہ بس ایک کاٹ ہے جوڈاکو کے ہاتھ میں جاکر آلہ ظلم بھی بن سکتی ہے اور مجاہدفی سبیل اللہ کے ہاتھ میں جاکر وسیلہ خیر بھی۔ اسی طرح ان اخلاقیات کا بھی کسی شخص یا گروہ میں ہونا بجائے خود خیر نہیں ہے بلکہ اس کا خیر ہونا موقوف ہے اس امر پر کہ یہ قوت صحیح راہ میں صرف ہو اور اس کو صحیح راہ پر لگانے کی خدمت اسلام انجام دیتا ہے۔ اسلام کی دعوتِ توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میںانسان کی تمام کوششوں اور محنتوں کا اور اس کی دوڑ دھوپ کامقصد وحید اللہ تعالیٰ کی زندگی میں انسان کی تمام کوششوں اور محنتوں کا اور اس کی دوڑ دھوپ کا مقصدِ واحد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ والیک نسعیٰ و نحفد۔ خدا یا ہماری ساری کوششیں اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کے لیے ہے اور اس کا پورا دائرہ فکر و عمل ان حدود سے محدود ہوجائے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردی ہیں۔ ایاک نعبدو لک نصلی و نسجد خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز اور سجدے کرتے ہیں۔ اس اساسی اصلاح کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمام بنیادی اخلاقیات جن کا ابھی میں نے آپ سے ذکر کیا ہے صحیح راہ پر لگ جاتے ہیں اور وہ قوت جو ان اخلاقیات کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نفس یا خاندان یا قوم یا ملک کی سربلندی پر ہر ممکن طریقے سے صرف ہو خالص حق کی سربلندی پر صرف جائز طریقوں ہی سے صرف ہونے لگتی ہے۔ یہی چیز اس کو ایک مجرد قوت کے مرتبے سے اٹھا کر ایجاباً ایک بھلائی اور دنیا کے لیے ایک رحمت بنادیتی ہے۔

دوسرا کام جو اخلاق کے باب میں اسلام کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو مستحکم بھی کرتا ہے اور پھر ان کے اطلاق کو انتہائی حدود تک وسیع بھی کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر صبر کو لیجیے۔ بڑے سے بڑے صابر آدمی میں بھی جوصبر دنیوی اغراض کے لیے ہو اور جسے شرک یا مادہ پرستی کی فکری جڑوں سے غذا مل رہی ہو‘ اس کی برداشت اور اس کے ثبات و قرار کی بس ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھبرا اٹھتا ہے۔ لیکن جس صبر کو توحید کی جڑ سے غذا ملے اور جو دنیا کے لیے نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے لیے ہو‘ وہ تحمل و برداشت اور پامردی کا ایک اتھاہ خزانہ ہوتا ہے جسے دنیا کی تمام ممکن مشکلات مل کر بھی لُوٹ نہیں سکتیں۔ پھر غیر مسلم کا صبر نہایت محدود نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ابھی گولوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں نہایت استقلال کے ساتھ ڈٹا ہوا تھا اور ابھی جو جذباتِ شہوانی کی تسکین کا کوئی موقع سامنے آیا تو نفس امارہ کی ایک معمولی تحریک کے مقابلے میں بھی نہ ٹھہر سکا لیکن اسلام صبر کو انسان کی پوری زندگی میں پھیلادیتا ہے اور اسے صرف چند مخصوص قسم کے خطرات‘ مصائب اور مشکلات ہی کے مقابلے میںنہیں بلکہ ہر اس لالچ‘ ہر اس خوف‘ ہر اس اندیشے اور ہر اس خواہش کے مقابلے میں ٹھیرائو کی ایک زبردست طاقت بنادیتا ہے جو آدمی کو راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ درحقیقت اسلام مومن کی پوری زندگی کو ایک صابرانہ زندگی بناتا ہے جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عمر بھر صحیح طرز عمل پر قائم رہو خواہ اس میں کتنے ہی خطرات و نقصانات اور مشکلات ہوں اور اس دنیا کی زندگی میں اس کا کوئی مفید نتیجہ نکلتا نظر نہ آئے‘ اور کبھی فکر و عمل کی برائی اختیار نہ کرو خواہ فائدوں اور امیدوں کا کیسا ہی خوشنما سبز باغ تمہارے سامنے لہلہارہا ہو۔ یہ آخرت کے قطعی نتائج کی توقع پر دنیا کی ساری زندگی میں بدی سے رکنا اور خیر کی راہ پر جم کر چلنا اسلامی صبر ہے اور اس کا ظہور لازماً ان شکلوں میں بھی ہوتا ہے جو بہت محدود پیمانے پر کفار کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ اسی مثال پر دوسرے تمام بنیادی اخلاقیات کو بھی آپ قیاس کرسکتے ہیں۔ کفار کی زندگی میں صحیح فکری بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضعیف اور محدود ہوتے ہیں اور اسلام ان سب کو ایک صحیح بنیاد دے کر محکم بھی کرتا ہے اور وسیع بھی کردیتا ہے۔

اسلام کا تیسرا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی اخلاقیات کی ابتدائی منزل پر اخلاقِ فاضلہ کی ایک نہایت شاندار بالائی منزل تعمیر کرتا ہے‘ جس کی بدولت انسان اپنے شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خود غرضی سے‘ نفسانیت سے‘ ظلم سے‘ بے حیائی اور خلاعت و بے قیدی سے پاک کردیتا ہے۔ اس میں خدا ترسی‘ تقویٰ و پرہیز گاری اور حق پرستی پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر اخلاقی ذمہ داریوں کا شعور و احساس ابھارتا ہے۔ اس کو ضبطِ نفس کا خوگر بناتا ہے۔ اسے تمام مخلوقات کے لیے کریم‘ فیاض‘ رحیم‘ ہمدرد‘ امین‘ بے غرض‘ خیرخواہ‘ بے لوث مصنف‘ اور ہرحال میں صادق و راست باز بنادیتا ہے‘ اور اس میں ایک ایسی بلند پایہ سیرت پرورش کرتا ہے جس سے ہمیشہ صرف بھلائی ہی متوقع ہو اور برائی کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔ پھر اسلام آدمی کو محض نیک ہی بنانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ حدیث رسولؐ کے الفاظ میں وہ اسے مفتاح للخیر مغلاق للشر (بھلائی کا دروازہ کھولنے والا اور برائی کا دروازہ بند کرنے والا) بناتا ہے‘ یعنی وایجاباً یہ مشن اس کے سپرد کرتا ہے کہ دنیا میں بھلائی پھیلائے اور برائی کوروکے۔ اس سیرت و اخلاق میں فطرتاً وہ حسن ہے‘ وہ کشش ہے‘ وہ بلا کی قوتِ تسخیر ہے کہ اگر کوئی منظم جماعت اس سیرت کی حامل ہو اور عملاً اپنے اس مشن کے لیے کام بھی کرے جو اسلام نے اس کے سپرد کیا ہے تو اس کی جہانگیری کا مقابلہ کرنا دنیا کی کسی قوت کے بس کا کام نہیں ہے۔

سنت اللہ دربابِ امامت کا خلاصہ

اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللہ کو بیان کئے دیتا ہوں جوامامت کے باب میں ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب تک نوع انسانی اپنی موجودہ فطرت پر زندہ ہے اس وقت تک برابر جاری رہے گی۔ اور وہ یہ ہے:

اگر دنیا میں کوئی منظم انسانی گروہ ایسا موجود نہ ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں سے آراستہ ہو اور پھر مادی اسباب و وسائل بھی استعمال کرے‘ تو دنیا کی امامت و قیادت لازماً کسی ایسے گروہ کے قبضے میں دے دی جاتی ہے جو اسلامی اخلاقیات سے چاہے بالکل ہی عاری ہو لیکن بنیادی انسانی اخلاقیات اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنی دنیا کا انتظام چاہتا ہے اور یہ انتظام اسی گروہ کے سپرد کیاجاتا ہے جو موجود الوقت گروہوں میںاہل تر ہو۔

لیکن اگر کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں میں باقی ماندہ انسانی دنیا پر فضیلت رکھتا ہو‘ اور وہ مادی اسباب و وسائل کے استعمال میں بھی کوتاہی نہ کرے‘ تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قابض رہ سکے۔ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے‘ اللہ کی اس سنت کے خلاف ہے جو انسانوں کے معاملے میں اس نے مقرر کررکھی ہے‘ ان وعدوں کے خلاف ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میںمومنین و صالحین سے کئے ہیں اور اللہ ہرگز فساد پسند نہیںکرتا کہ اس کی دنیا میں ایک صالح گروہ انتظامِ عالم کو ٹھیک ٹھیک اس کی رضا کے مطابق درست رکھنے والا موجود ہو اور پھر بھی وہ مفسدوں ہی کے ہاتھ میں اس انتظام کی باگ ڈور رہنے دے۔

مگر یہ خیال رہے کہ اس نتیجے کا ظہور صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ ایک جماعتِ صالحہ ان اوصاف کی موجود ہو۔ کسی ایک صالح فرد‘ یامتفرق طور پر بہت سے صالح افراد کے موجود ہونے سے استخلاف فی الارض کانظام تبدیل نہیں ہوسکتا‘ خواہ وہ افراد اپنی جگہ کیسے ہی زبردست اولیاء اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ نے استخلاف کے متعلق جتنے وعدے بھی کئے ہیں‘ منتشر و متفرق افراد سے نہیں‘ بلکہ ایک ایسی جماعت سے کئے ہیں جو دنیا میں اپنے آپ کوعملاً ’’خیرِ امت‘‘ اور ’’امتِ وسط‘‘ ثابت کردے۔

نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے ایک گروہ کے محض وجود میں آجانے ہی سے نظام امامت میں تغیر واقع نہ ہوجائے گا کہ ادھر وہ بنے اور ادھر اچانک آسمان سے کچھ فرشتے اتریں اور فساق و فجار کو اقتدار کی گدی سے ہٹا کر انہیں مسند نشین کردیں۔ بلکہ اس جماعت کوکفر و فسق کی طاقتوں سے زندگی کے ہر میدان میں‘ ہر قدم پر کشمکش اور مجاہد کرنا ہوگا اوراقامت حق کی راہ میںہر قسم کی قربانیاں دے کر اپنی محبت حق اور اپنی اہلیت کا ثبوت دینا پڑے گا۔ یہ ایسی شرط ہے جس سے انبیائؑ تک مستثنیٰ نہ رکھے گئے‘ کجا کہ آج کوئی اس سے مستثنیٰ ہونے کی توقع کرے۔

بنیادی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات کی طاقت کا فرق

مادی طاقت اور اخلاقی طاقت کے تناسب کے باب میںقرآن اور تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو سنت اللہ میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں اخلاقی طاقت کا سارا انحصار صرف بنیادی انسانی اخلاقیات پر ہو‘ وہاں مادی وسائل بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس امر کا بھی امکان ہے کہ اگر ایک گروہ کے پاس مادی وسائل کی طاقت بہت زیادہ ہو تو وہ تھوڑی اخلاقی طاقت سے بھی دنیا پر چھاجاتا ہے اور دوسرے گروہ اخلاقی طاقت میںفائق تر ہونے کے باوجود محض وسائل کی کمی کے باعث دبے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں اخلاقی طاقت میں اسلامی اور بنیادی دونوں قسم کے اخلاقیات کا پورا زور شامل ہو وہاں مادی وسائل کی انتہائی کمی کے باوجود اخلاق کو آخر کار ان تمام طاقتوں پر غلبہ حاصل ہوکر رہتا ہے جو مجرد بنیادی اخلاقیات اور مادی سروسامان کے بل بوتے پر اٹھی ہوں۔ اس نسبت کو یوں سمجھئے کہ بنیادی اخلاقیات کے ساتھ اگر سو درجے مادی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تو اسلامی اور بنیادی اخلاقیات کی مجموعی قوت کے ساتھ صرف ۲۵ درجے مادی طاقت کافی ہوجاتی ہے‘ باقی ۷۵ فیصدی قوت کی کمی کو محض اسلامی اخلاق کا زور پورا کردیتا ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اسلامی اخلاق اگر اس پیمانے کاہو جو حضورؐ اور آپ کے صحابہ کا تھا تو صرف پانچ فیصدی مادی طاقت سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف آیت اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِأَتَیْنِ ’’اگر تم میں سے بیس صابر آدمی ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے‘‘ (الانفال رکوع ۹) میں اشارہ کیاگیاہے۔

یہ آخری بات جو میں نے عرض کی ہے اسے محض خوش عقیدگی پر محمل نہ کیجیے‘ اور نہ یہ گمان کیجیے کہ میں کسی معجزے و کرامت کا آپ سے ذکرکررہاہوں۔ نہیں‘ یہ بالکل فطری حقیقت ہے جو اسی عالم اسباب میںقانون علت و معلول کے تحت پیش آتی ہے اور ہر وقت رونما ہوسکتی ہے اگر اس کی علت موجود ہو۔ میںمناسب سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے چند الفاظ میں اس کی تشریح کردوں کہ اسلامی اخلاقیات سے‘ جن میں بنیادی اخلاقیات خود بخود شامل ہیں‘ مادی اسباب کی ۷۵ فیصدی بلکہ ۹۵ فیصدی تک کمی طرح پوری ہوجاتی ہے۔

اس چیز کوسمجھنے کے لیے آپ ذرا خود اپنے زمانے ہی کی بین الاقوامی صورت حال پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھئے۔ ابھی آپ کے سامنے وہ فساد عظیم جو آج سے ساڑھے پانچ سال پہلے شروع ہوا تھا (اشارہ ہے جنگ عظیم نمبر ۲ کی طرف جو اس تقریرکے وقت جاری تھی)۔ جرمنی کی شکست پر ختم ہوا ہے اور جاپان کی شکست بھی قریب نظر آرہی ہے۔ جہاں تک بنیادی اخلاقیات کا تعلق ہے ان کے اعتبار سے اس فساد کے دونوں فریق تقریباً مساوی ہیں‘ بلکہ بعض پہلوئوں سے جرمنی اور جاپان نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ زبردست اخلاقی طاقت کاثبوت دیا ہے۔ جہاں تک علومِ طبعی اور ان کے عملی استعمال کا تعلق ہے اس میںبھی دونوں فریق برابر ہیں‘ بلکہ اس معاملے میں کم از کم جرمنی کی فوقیت تو کسی سے مخفی نہیں ہے۔ مگر صرف ایک چیز ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے‘ اور وہ ہے مادی اسباب کی موافقت اس کے پاس آدمی اپنے دونوں حریفوں (جرمنی و جاپان) سے کئی گنے زیادہ ہیں اس کومادی وسائل ان کی نسبت بدرجہا زیادہ حاصل ہیں۔ اس کی جغرافی پوزیشن اس سے بہتر ہے۔ اور اس کو تاریخی اسباب نے ان کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر حالات فراہم کردیے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کوفتح نصیب ہوئی ہے اور اسی وجہ سے آج کسی ایسی قوم کے لیے بھی جس کی تعداد کم ہو اور جس کی دسترس میں مادی وسائل کم ہوں‘ اس امر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ کثیرالتعداد اور کثیر الوسائل قوموں کے مقابلے میں سر اٹھاسکے‘ خواہ وہ بنیادی اخلاقیات میں اور طبعی علوم کے استعمال میںان سے کچھ بڑھ ہی کیوں نہ جائے۔ اس لیے کہ بنیادی اخلاقیات اور طبعی علوم کے بل پر اٹھنے والی قوم کا معاملہ دوحال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو وہ خود اپنی قومیت کی پرستار ہوگی اور دنیا کو اپنے لیے مسخر کرنا چاہے گی‘ یا پھر وہ کچھ عالمگیر اصولوں کی حامی بن کر اٹھے گی اور دوسری قوموں کو ان کی طرف دعوت دے گی۔ پہلی صورت میں تو اس کے لیے کامیابی کی کوئی شکل بجز اس کے ہے ہی نہیںکہ وہ مادی طاقت اور وسائل میں دوسروں سے فائق تر ہو۔ کیونکہ وہ تمام قومیں جن پر اس کی حرص اقتدار کی زد پڑرہی ہوگی‘ انتہائی غصہ و نفرت کے ساتھ اس کی مزاحمت کریں گی اور اس کا راستہ روکنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھارکھیں گی۔ رہی دوسری صورت اس میں بلاشبہ اس کا امکان تو ضرور ہے کہ قوموں کے دل و دماغ خود بخود اس کی اصولی دعوت سے مسخر ہوتے چلے جائیں اور اسے مزاحمتوں کو راستے سے ہٹانے میںبہت تھوڑی قوت استعمال کرنی پڑے۔ لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ دل صرف چند خوش آئند اصولوں ہی سے مسخر نہیںہوجایا کرتے بلکہ انہیں مسخر کرنے کے لیے وہ حقیقی خیرخواہی‘ نیک نیتی‘ راست بازی‘ بے غرضی‘ فراخدلی‘ فیاضی‘ ہمدردی اور شرافت و عدالت درکار ہے جوجنگ اور صلح‘ فتح اور شکست‘ دوستی اور دشمنی‘ تمام حالات کی کڑی آزمائشوں میںکھری اور بے لوث ثابت ہو۔ اور یہ چیز اخلاقِ فاضلہ کی اس بلند منزل سے تعلق رکھتی ہے‘ جس کا مقام بنیادی اخلاقیات سے بہت برتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرد بنیادی اخلاقیات اور مادی طاقت کے بل پر اٹھنے والے خواہ کھلے قوم پرست ہوں یا پوشیدہ قوم پرستی کے ساتھ کچھ عالمگیر اصولوں کی دعوت و حمایت کا ڈھونگ رچائیں‘ آخر کار ان کی ساری جدوجہد اور کشمکش خالص شخصی یا طبقاتی یاقومی خود غرضی ہی پر آٹھہرتی ہے‘ جیسا کہ آج آپ امریکا‘ برطانیہ اور روس کی سیاست خارجیہ میںنمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی کشمکش میں یہ ایک بالکل فطری امر ہے کہ ہر قوم دوسری قوم کے مقابلے میںایک مضبوط چٹان بن کرکھڑی ہوجائے‘ اپنی پوری اخلاقی و مادی طاقت اس کی مزاحمت میںصرف کر دے اور اپنے حدود میں اس کو ہرگز راہ دینے کے لیے تیار نہ ہو جب تک کہ مخالف کی برتر مادی قوت اس کو پیس کر نہ رکھ دے۔

اچھا‘ اب ذرا تصور کیجیے کہ اسی ماحول میں ایک ایسا گروہ (خواہ وہ ابتداً ایک ہی قوم میںسے اٹھا ہو مگر ’’قوم‘‘ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ’’جماعت‘‘ کی حیثیت سے اٹھا ہو) پایا جاتا ہے جو شخصی‘طبقاتی اورقومی خود غرضیوں سے بالکل پاک ہے۔ اس کی سعی و جہد کی کوئی غرض اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ نوع انسانی کی فلاح چند اصولوں کی پیروی میںدیکھتا ہے اور انسانی زندگی کانظام ان پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ ان اصولوں پر جو سوسائٹی وہ بناتا ہے اس میں قومی و وطنی اور طبقاتی و نسلی امتیازات بالکل مفقود ہیں۔ تمام انسان اس میںیکساں حقوق اور مساوی حیثیت سے شامل ہوسکتے ہیں۔ اس میں رہنمائی و قیادت کامنصب ہر اس شخص یامجموعۂ اشخاص کو حاصل ہوسکتا ہے جو ان اصولوں کی پیروی میںسب پر فوقیت لے جائے قطع نظر اس سے کہ اس کی نسلی و وطنی قومیت کچھ ہی ہو۔ حتیٰ کہ اس میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ اگر مفتوح ایمان لاکر اپنے آپ کو صالح تر ثابت کردے تو فاتح اپنی سرفروشیوں اور جانفشانیوں کے سارے ثمرات اس کے قدموں میںلاکر رکھ دے اور اس کوامام مان کر خود مقتدری بننا قبول کرلے۔ یہ گروہ جب اپنی دعوت لے کر اٹھتا ہے تو وہ لوگ جو اس کے اصولوں کو چلنے دینا نہیں چاہتے‘ اس کی مزاحمت کرتے ہیں اور اس طرح فریقین میںکشمکش شروع ہوجاتی ہے۔ مگر اس کشمکش میںجتنی شدت بڑھتی جاتی ہے‘ یہ گروہ اپنے مخالفوں کے مقابلے میںاتنے ہی زیادہ افضل و اشرف اخلاق کا ثبوت دیتا چلاجاتا ہے۔ وہ اپنے طرز عمل سے ثابت کردیتا ہے کہ واقعی وہ خلقِ اللہ کی بھلائی کے سوا کوئی دوسری غرض پیش نظر نہیں رکھتا۔ اس کی دشمنی اپنے مخالفوں کی ذات یا قومیت سے نہیں بلکہ صرف ان کی ضلالت و گمراہی سے ہے جسے وہ چھوڑ دیں تو وہ اپنے خون کے پیاسے دشمن کو بھی سینے سے لگاسکتا ہے۔ اسے لالچ ان کے مال و دولت یا ان کی تجارت و صنعت کانہیں بلکہ خود انہی کی اخلاقی اور روحانی فلاح کا ہے جو حاصل ہوجائے تو ان کی دولت انہیں کو مبارک رہے۔ وہ سخت سے سخت آزمائش کے موقعوں پر بھی جھوٹ‘ دغا اور مکرو فریب سے کام نہیں لیتا۔ ٹیڑھی چالوں کا جواب بھی سیدھی تدبیروں سے دیتا ہے۔ انتقام کے جوش میں بھی ظلم و زیادتی پر آمادہ نہیں ہوتا۔ جنگ کے سخت لمحوں میں بھی اپنے ان اصولوں کی پیروی نہیں چھوڑتا جن کی دعوت دینے کے لیے وہ اٹھا ہے۔ سچائی‘ وفائے عہد اور حسنِ معاملت پر ہر حال میں قائم رہتا ہے۔ بے لاگ انصاف کرتا ہے اور امانت و دیانت کے اس معیار پر پورا اترتا ہے جسے ابتداً اس نے دنیا کے سامنے معیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ مخالفین کی زانی‘ شرابی‘ جواری اور سنگ دل و بے رحم فوجوں سے اس گروہ کے خدا ترس‘ پاک باز‘ عبادت گزار‘ نیک دل اور رحیم و کریم مجاہدوں کا مقابلہ پیش آتا ہے تو فرداً فرداً ان کی انسانیت ان کی درندگی و حیوانیت پر فائق نظر آتی ہے۔ وہ ان کے پاس زخمی یا قیدی ہوکر آتے ہیں تو یہاں ہر طرف نیکی‘ شرافت اور پاکیزگئ اخلاق کا ماحول دیکھ کر ان کی آلودہ نجاست روحیں بھی پاک ہونے لگتی ہیں۔ اور یہ وہاں گرفتار ہوکر جاتے ہیں تو ان کا جوہر انسانیت اس تاریک ماحول میں زیادہ چمک اٹھتا ہے۔ ان کو کسی علاقے پر غلبہ حاصل ہوتا ہے تو مفتوح آبادی کو انتقام کی جگہ عفو‘ ظلم و جور کی جگہ رحم و انصاف‘ شقاوت کی جگہ ہمدردی‘ پروپیگنڈوں کی جگہ اصولِ حق کی تبلیغ کا تجربہ ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھ کر عش عش کرنے لگتے ہیں کہ فاتح سپاہی نہ ان سے عورتیں مانگتے ہیں‘ نہ دبے چھپے مال ٹٹولتے پھرتے ہیں‘ نہ ان کے صنعتی رازوں کا سراغ لگاتے ہیں‘ نہ ان کی معاشی طاقت کو کچلنے کی فکر کرتے ہیں‘ نہ ان کی قومی عزت کو ٹھوکر مارتے ہیں‘ بلکہ انہیں اگر کچھ فکر ہے تو یہ کہ جو ملک اب ان کے چارج میں ہے اس کے باشندوں میں سے کسی کی عصمت خراب نہ ہو‘ کسی کے مال کو نقصان نہ پہنچے‘ کوئی اپنے جائز حقوق سے محروم نہ ہو‘ کوئی بداخلاقی ان کے درمیان پرورش نہ پاسکے اور اجتماعی ظلم و جور کسی شکل میںبھی وہاں باقی نہ رہے۔ بخلاف اس کے جب فریقِ مخالف کسی علاقہ میں گھس آتا ہے تو ساری آبادی اس کی زیادتیوں اور بے رحمیوں سے چیخ اٹھتی ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ ایسی لڑائی میں قوم پرستانہ لڑائیوں کی بہ نسبت کتنا بڑا فرق واقع ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے مقابلے میں بالاتر انسانیت کمتر مادی سروسامان کے باوجود اپنے مخالفوں کی آہن پوش حیوانیت کو آخر کار شکست دے کر رہے گی۔ اخلاقِ فاضلہ کے ہتھیار توپ و تفنگ سے زیادہ دور مار ثابت ہوں گے۔ عین حالت جنگ میں دشمن دوستوں میںتبدیل ہوں گے۔ جسموں سے پہلے دل مسخر ہوں گے۔ آبادیوں کی آبادیاں لڑے بھڑے بغیر مفتوح ہوجائیں گی اور یہ صالح گروہ جب ایک مرتبہ مٹھی بھر جمعیت اور تھوڑے سے سروسامان کے ساتھ اپنا کام شروع کردے گا تو رفتہ رفتہ خود مخالف کیمپ ہی سے اس کو جنرل سپاہی‘ ماہرین فنون‘ اسلحہ‘ رسد‘ سامان جنگ سب کچھ حاصل ہوتے چلے جائیں گے۔

یہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں یہ نرا قیاس اور اندازہ نہیں ہے بلکہ اگر آپ کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور مبارک کی تاریخی مثال موجود ہو تو آپ پر واضح ہوجائے گا کہ فی الواقع اس سے پہلے یہی کچھ ہوچکا ہے اور آج بھی یہی کچھ ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ کسی میں یہ تجربہ کرنے کی ہمت ہو۔

حضرات مجھے توقع ہے کہ اس تقریر سے یہ حقیقت آپ کے ذہن نشین ہوگئی ہوگی کہ طاقت کا اصل منبع اخلاقی طاقت ہے۔ اگر دنیا میں کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو بنیادی اخلاقیات کے ساتھ اسلامی اخلاقیات کا زور بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور مادی وسائل سے بھی کام لے تو یہ بات عقلاً محال اور فطرتاً غیر ممکن ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قابض رہ سکے۔ اس کے ساتھ مجھے امید ہے کہ آپ نے یہ بھی اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا کہ مسلمانوں کی موجودہ پست حالی کا اصل سبب کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ نہ مادی وسائل سے کام لیں‘ نہ بنیادی اخلاقیات سے آراستہ ہوں‘ اور نہ اجتماعی طور پر ان کے اندر اسلامی اخلاقیات ہی پائے جائیں‘ وہ کسی طرح بھی امامت کے منصب پر فائز نہیں رہ سکتے۔ خدا کی اٹل بے لاگ سنت کا تقاضا یہی ہے کہ ان پر ایسے کافروں کو ترجیح دی جائے جو اسلامی اخلاقیات سے عاری سہی مگر کم از کم بنیادی اخلاقیات اور مادی وسائل کے استعمال میں تو ان سے بڑھے ہوئے ہیں‘ اور اپنے آپ کو ان کی بہ نسبت انتظامِ دنیا کے لیے اہل تر ثابت کررہے ہیں۔ اس معاملے میں اگر آپ کو کوئی شکایت ہو تو سنت اللہ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہونی چاہیے اور اس شکایت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اب اپنی اس خامی کو دور کرنے کی فکر کریں جس نے آپ کو امام سے مقتدی اور پیش رَو سے پس رَو بناکر چھوڑا ہے۔

اس کے بعد ضرورت ہے کہ میں صاف اور واضح طریقے سے آپ کے سامنے اسلامی اخلاقیات کی بنیادوں کو بھی پیش کردوں‘ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس معاملے میں عام طور پر مسلمانوں کے تصورات بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ اس الجھن کی وجہ سے بہت ہی کم آدمی یہ جانتے ہیںکہ اسلامی اخلاقیات فی الواقع کس چیز کا نام ہے اور اس پہلو سے انسان کی تربیت و تکمیل کے لیے کیا چیزیں کس ترتیب و تدریج کے ساتھ اس کے اندر پرورش کی جانی چاہییں۔

اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب

جس چیزکو ہم اسلامی اخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں وہ قرآن و حدیث کی رو سے دراصل چار مراتب پر مشتمل ہے … ایمان‘ اسلام‘ تقویٰ اور احسان۔ یہ چاروں مراتب یکے بعد دیگرے اس فطری ترتیب پر واقع ہیں کہ ہر بعد کا مرتبہ پہلے مرتبے سے پیدا اور لازماً اسی پر قائم ہوتا ہے اور جب تک نیچے والی منزل پختہ و محکم نہ ہوجائے دوسری منزل کی تعمیر کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ اس پوری عمارت میں ایمان کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ اس بنیاد پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔ پھر اس کے اوپر تقویٰ اور سب سے اوپر احسان کی منزلیں اٹھتی ہیں۔ ایمان نہ ہو تو اسلام و تقویٰ یا احسان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔ ایمان کمزور ہو تو اس پر کسی بالائی منزل کابوجھ نہیں ڈالا جاسکتا یا ایسی کوئی منزل تعمیر کر بھی دی جائے تو وہ بودی اور متزلزل ہوگی۔ ایمان محدود ہو تو جتنے حدود میں وہ محدود ہوگا اسلام‘ تقویٰ اور احسان بھی بس انہی حدود تک محدود رہیں گے۔ پس جب تک ایمان پوری طرح صحیح‘ پختہ اور وسیع نہ ہو‘ کوئی مرد عاقل جو دین کا فہم رکھتا ہو اسلام‘ تقویٰ یا احسان کی تعمیر کا خیال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح تقویٰ سے پہلے اسلام اور احسان سے پہلے تقویٰ کی تصحیح‘ پختگی اور توسیع ضروری ہے۔ لیکن اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس فطری و اصولی ترتیب کو نظر انداز کرکے ایمان و اسلام کی تکمیل کے بغیر تقویٰ و احسان کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں ایمان و اسلام کا ایک نہایت محدود تصور جاگزیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ محض وضع‘ قطع‘ لباس‘ نشست و برخاست‘ اکل و شرب اور ایسی ہی چند ظاہری چیزوں کو ایک مقرر نقشے پر ڈھال لینے سے تقویٰ کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ اور پھر عبادات میں نوافل‘ و اذکار‘ اور ادو وظائف اور ایسے ہی بعض اعمال اختیار کرلینے سے احسان کا بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بسا اوقات اسی ’’تقویٰ‘‘ اور ’’احسان‘‘ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں میں ایسی صریح علامات بھی نظر آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی ان کا ایمان ہی سرے سے درست اور پختہ نہیں ہوا ہے۔ یہ غلطیاں جب تک موجود ہیں کسی طرح یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ہم اسلامی اخلاقیات کا نصاب پورا کرنے میں کبھی کامیاب ہوسکیں گے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہمیں ایمان‘ اسلام‘ تقویٰ اور احسان کے ان چاروں مراتب کا پورا پورا تصور بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ہم ان کی فطری ترتیب کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں۔

ایمان

اس سلسلے میں سب سے پہلے ایمان کو لیجیے جو اسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہرشخص جانتا ہے کہ توحید و رسالت کے اقرار کا نام ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا اقرار کرلے تو اس سے وہ قانونی شرط پوری ہوجاتی ہے جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے رکھی گئی ہے اور وہ اس کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیاجائے۔ مگر کیا یہی سادہ اقرار جو ایک قانونی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے‘ اس غرض کے لیے بھی کافی ہوسکتا ہے کہ اسلامی زندگی کی ساری سہ منزلہ عمارت صرف اسی بنیاد پر قائم ہوسکے؟ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اسی لیے جہاں یہ اقرار موجود ہوتا ہے وہاں عملی اسلام اور تقویٰ اور احسان کی تعمیر شروع کردی جاتی ہے جو اکثر ہوائی قلعہ سے زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن فی الواقع ایک مکمل اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ایمان اپنی تفصیلات میں پوری طرح وسیع اور اپنی گہرائی میں اچھی طرح مستحکم ہو۔ ایمان کی تفصیلات میں سے جو شعبہ بھی چھوٹ جائے گا‘ اسلامی زندگی کا وہی شعبہ تعمیر ہونے سے رہ جائے گا اور اس کی گہرائی میں جہاں بھی کسر رہ جائے گی اسلامی زندگی کی عمارت اسی مقام پر بودی ثابت ہوگی۔

مثال کے طور پر ایمان باللہ کو دیکھئے جو دین کی اولین بنیاد ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ خدا کا اقرار اپنی سادہ صورت سے گزر کر جب تفصیلات میں پہنچتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں اس کی بے شمار صورتیں بن جاتی ہیں۔ کہیں وہ صرف اس حد پر ختم ہوجاتا ہے کہ بے شک خدا موجود ہے اور دنیا کا خالق ہے اور اپنی ذات میں اکیلا ہے کہیں اس کی انتہائی وسعت بس اتنی ہوتی ہے کہ خدا ہمارا معبود ہے اور ہمیں اس کی پرستش کرنی چاہیے۔ کہیں خدا کی صفات اور اس کے حقوق و اختیارات کا تصور کچھ زیادہ وسیع ہوکر بھی اس سے آگے نہیں بڑھتا کہ عالم الغیب‘ سمیع و بصیر‘ سمیع الدعوات و قاضی الحاجات اور ’’پرستش‘‘ کی تمام جزوی شکلوں کا مستحق ہونے میں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے‘ اور یہ کہ ’’مذہبی معاملات‘‘ میں آخری سند خدا ہی کی کتاب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان مختلف تصورات سے ایک ہی طرز کی زندگی نہیں بن سکتی‘ بلکہ جو تصور جتنا محدود ہے عملی زندگی اور اخلاق میں بھی لازماً اسلامی رنگ اتنا ہی محدود ہوگا‘ حتیٰ کہ جہاں عام مذہبی تصورات کے مطابق ایمان باﷲ اپنی انتہائی وسعت پر پہنچ جائے گا وہاں بھی اسلامی زندگی اس سے آگے نہ بڑھ سکے گی کہ خدا کے باغیوں کی وفاداری اور خدا کی وفاداری ایک ساتھ لی جائے، یا نظامِ کفر اور نظامِ اسلام کو سمو کر ایک مرکب بنا لیا جائے۔

اسی طرح ایمان باﷲ کی گہرائی کا پیمانہ بھی مختلف ہے۔ کوئی خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنی کسی معمولی سے معمولی چیز کو بھی خدا پر قربان کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ کوئی بعض چیزوں سے خدا کو عزیز تر رکھتا ہے مگر بعض چیزیں اسے خدا سے عزیز تر ہوتی ہیں۔ کوئی اپنی جان مال تک خدا پر قربان کر دیتا ہے مگر اپنے رجحاناتِ نفس اور اپنے نظریات و افکار کی پائیداری و ناپائیداری بھی متعین ہوتی ہے اور انسان کا اسلامی اخلاق ٹھیک اسی مقام پر دغا دے جاتا ہے جہاں اس کے نیچے ایمان کی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے۔

ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اُٹھ سکتی ہے تو صرف اُسی اقرارِ توحید پر اُٹھ سکتی ہے جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی ملک سمجھے۔ اس کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک، معبود، مطلع اور صاحبِ امرونہی تسلیم کرے۔ اسی کو ہدایت کا سرچشمہ مانے اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہو جائے کہ خدا کی اِطاعت سے انحراف، یا اس کی ہدایت سے بے نیازی، یا اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور جس رنگ میں بھی ہے سراسر ضلالت ہے۔ پھر اس عمارت میں اگر استحکام پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسی وقت جبکہ آدمی پورے شعور اور پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ وہ اور اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے۔ اپنے معیار پسند و ناپسند کوختم کرکے اللہ کی پسند و ناپسند کے تابع کردے۔ اپنی خودسری کو مٹا کر اپنے نظریات و خیالات‘ خواہشات و جذبات اور انداز فکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے کو خدا نے اپنی کتاب میںدیا ہے۔ اپنی تمام ان وفاداریوں کو دریا برد کردے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہ ہوں بلکہ اس کے مدمقابل بنی ہوئی ہوں یا بن سکتی ہوں اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خدا کی محبت کو بٹھائے اور ہر اس بت کو ڈھونڈ کر اپنے نہانخانہ دل سے نکال پھینکے جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتا ہو۔ اپنی محبت اور نفرت‘ اپنی دوستی اور دشمنی‘ اپنی رغبت اور کراہیت‘ اپنی صلح اور جنگ‘ ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کردے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا ہے اور اسی سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند ہے۔ یہ ہے ایمان باللہ کا حقیقی مرتبہ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیںکہ جہاں ایمان ہی ان حیثیات سے اپنی وسعت و ہمہ گیری اور اپنی پختگی و مضبوطی میں ناقص ہو وہاں تقویٰ یا احسان کا کیا امکان ہوسکتا ہے۔ کیا اس نقص کی کسر داڑھیوں کے طول اور لباس کی تراش خراش یا سبحنہ‘ گردانی و تہجد خوانی سے پوری کی جاسکتی ہے؟

اسی پر دوسرے ایمانیات کو بھی قیاس کرلیجیے۔ نبوت پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان کانفس زندگی کے سارے معاملات میں نبی کو اپنا رہنما نہ مان لے اور اس کی رہنمائی کے خلاف یا اس سے آزاد جتنی رہنمائیاں ہوں ان کو رد نہ کردے۔ کتاب پر ایمان اس وقت تک ناقص ہی رہتا ہے جب تک نفس میںکتاب اللہ کے بتائے ہوئے اصول زندگی کے سوا کسی دوسری چیز کے تسلط پر رضامندی کا شائبہ بھی باقی ہو یا اتباعِ ماانزل اللہ کو اپنی اور ساری دنیا کی زندگی کا قانون دیکھنے کے لیے قلب و روح کی بے چینی میں کچھ بھی کسر اٹھا نہ رکھے گا۔ اسی طرح آخرت پر ایمان بھی مکمل نہیں کہا جاسکتا جب تک نفس پوری طرح آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے اور اخروی قدروں کے مقابلے میں دنیوی قدروں کو ٹھکرادینے پر آمادہ نہ ہوجائے اور آخرت کی جوابدہی کا خیال اسے زندگی کی ہر راہ پر چلتے ہوئے قدم قدم پر کھٹکنے نہ لگے یہ بنیادیں ہی جہاں پوری نہ ہوں آخر وہاں اسلامی زندگی کی عالیشان عمارت کس شے پرتعمیر ہوگی؟ جب لوگوں نے ان بنیادوں کی توسیع و تکمیل اور پختگی کے بغیر تعمیر اخلاق اسلامی کو ممکن سمجھا‘ تب ہی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کرنے والے جج‘ غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقدمے لڑانے والے وکیل‘ نظامِ کفر کے مطابق معاملات زندگی کا انتظام کرنے والے کارکن‘ کافرانہ اصول تمدن و ریاست پر زندگی کی تشکیل و تاسیس کے لیے لڑانے والے لیڈر اور پیرو‘ غرض سب کے لیے تقویٰ و احسان کے مراتب عالیہ کا دروازہ کھل گیا‘ بشرطیکہ وہ اپنی زندگی کے ظاہری انداز و اطوار کو ایک خاص نقشہ پر ڈھال لیں‘ اور کچھ نوافل و اذکار کی عادت ڈال لیں۔

اسلام

ایمان کی یہ بنیادیں جن کا میں نے بھی آپ سے ذکر کیا ہے‘ جب مکمل اور گہری ہوجاتی ہیں‘ تب ان پر اسلام کی منزل شروع ہوتی ہے۔ اسلام دراصل ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان اور اسلام کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا بیج اور درخت کا تعلق ہوتا ہے۔ بیج میں جو کچھ اور جیسا کچھ موجود ہوتا ہے وہی درخت کی شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے‘ حتیٰ کہ درخت کا امتحان کرکے باآسانی یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بیج میں کیا تھا اور کیا نہ تھا۔ آپ نہ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ بیج اس میں موجود بھی ہو‘ پھر بھی درخت پیدا نہ ہو۔ ایسا ہی معاملہ ایمان اور اسلام کا ہے جہاں ایمان موجود ہوگا‘ لازماً اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں‘ اخلاق میں‘ برتائو میں‘ تعلقات کے کٹنے اور جڑنے میں‘ دوڑ دھوپ کے رخ میں‘ مذاق و مزاج کی افتاد میں‘ سعی و جہد کے راستوں میں‘ اوقات اور قوتوں اور قابلیتوں کے مصرف میں‘ غرض مظاہر زندگی کے ہر ہر جزو میں ہوکر رہے گا ان میںسے جس پہلو میں بھی اسلام کے بجائے غیر اسلام ظاہر ہورہا ہو۔ یقین کرلیجیے کہ اس پہلو میں ایمان موجود نہیں ہے یا ہے تو بالکل بودا اور بے جان ہے۔ اور اگر عملی زندگی ساری کی ساری ہی غیر مسلمانہ شان سے بسر ہورہی ہو‘ تو جان لیجیے کہ دل ایمان سے خالی ہے یا زمین اتنی بنجر ہے کہ ایمان کا بیج برگ و بار نہیں لارہا ہے۔ بہرحال میں نے جہاں تک قرآن و حدیث کو سمجھا ہے‘ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دل میں ایمان ہو اور عمل میں اسلام نہ ہو۔

(اس موقع پر ایک صاحب نے اٹھ کر پوچھا کہ ایمان اور عمل کو آپ ایک ہی چیز سمجھتے ہیں یا ان دونوں میں کچھ فرق ہے؟ اس کے جواب میں کہا…)

آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن سے ان بحثوں کو نکال دیں جوفقہا اور متکلمین نے اس مسئلے میں کی ہیں اور قرآن سے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعتقادی ایمان اور عملی اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ جگہ جگہ ایمان اور عمل صالح کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے اور تمام اچھے وعدے جو اس نے اپنے بندوں سے کئے ہیں انہی لوگوں سے متعلق ہیں جو اعتقاداً مومن اور عمل مسلم ہوں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں منافقین کو پکڑا ہے وہاں ان کے عمل ہی کی خرابیوں سے ان کے ایمان کے نقص پر دلیل قائم کی ہے اور عملی اسلام ہی کو حقیقی ایمان کی علامت ٹھہرایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانونی لحاظ سے کسی شخص کو کافر ٹھہرانے اور امت سے اس کا رشتہ کاٹ دینے کا معاملہ دوسرا ہے اور اس میں انتہائی احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے۔ مگر میں یہاں اس ایمان و اسلام کا ذکر نہیں کررہا ہوں جس پر دنیا میں فقہی احکام مترتب ہوتے ہیں‘ بلکہ یہاں ذکر اس ایمان و اسلام کا ہے جو خدا کے ہاں معتبر ہے اور جس پر اخروی نتائج مرتب ہونے والے ہیں۔ قانونی نقطہ نظر کو چھوڑ کر حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے اگر آپ دیکھیں گے تو یقیناً یہی پائیں گے کہ جہاں عملاً خدا کے آگے سپراندازی اور سپردگی و حوالگی میں کمی ہے‘ جہاں نفس کی پسند خدا کی پسند سے مختلف ہے‘ جہاں خدا کی وفاداری کے ساتھ غیر کی وفاداری نبھ رہی ہے‘ جہاں خدا کا دین قائم کرنے کی سعی کے بجائے دوسرے مشاغل میں انہماک ہے‘ جہاں کوششیں اور محنتیں راہ خدا کے بجائے دوسری راہوں میں صرف ہورہی ہیں‘ وہاں ضرور ایمان میں نقص ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ناقص ایمان پر تقویٰ اور احسان کی تعمیر نہیں ہوسکتی‘ خواہ ظاہر کے اعتبار سے متقیوں کی سی وضع بنانے اور محسنین کے سے بعض اعمال کی نقل اتارنے کی کتنی ہی کوشش کی جائے۔ ظاہر فریب شکلیں اگر حقیقت کی روح سے خالی ہوں تو ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسی ایک نہایت خوبصورت آدمی کی لاش بہترین وضع و ہیت میں موجود ہو مگر اس میں جان نہ ہو۔ اس خوبصورت لاش کی ظاہری شان سے دھوکا کھاکر آپ اگر کچھ توقعات اس سے وابستہ کرلیں گے تو واقعات کی دنیا اپنے پہلے ہی امتحان میں اس کا ناکارہ ہونا ثابت کردے گی اور تجربے سے آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ ایک بدصورت مگر زندہ انسان ایک خوبصورت مگر بے روح لاش سے بہرحال زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ ظاہر فریبیوں سے آپ اپنے نفس کو تو ضرور دھوکا دے سکتے ہیں۔ لیکن عام واقع پر کچھ بھی اثر نہیں ڈال سکتے اور نہ خدا کی میزان ہی میں کوئی وزن حاصل کرسکتے ہیں۔ پس اگر آپ کو ظاہری نہیں بلکہ وہ حقیقی تقویٰ اور احسان مطلوب ہو جو دنیا میں دین کا بول بالا کرنے اور آخرت میں خیر کا پلڑا جھکانے کے لیے درکار ہے تو میری اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اوپر کی یہ دونوں منزلیں کبھی نہیں اٹھ سکتیں جب تک ایمان کی بنیاد مضبوط نہ ہوجائے اور اس کی مضبوطی کا ثبوت عملی اسلام یعنی بالفعل اطاعت و فرمانبرداری سے نہ مل جائے۔

تقویٰ

تقویٰ کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقویٰ ہے کیا چیز۔ تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیت اور کسی خاص طرز معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کا یا اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساس ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ عبدیت کا شعور ہو۔ خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو۔ اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں و قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں‘ اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے‘ اور ان انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضائے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کردی ہے۔ یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے۔ اس کی دینی حس تیز ہوجاتی ہے۔ اس کو وہ ہر چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پارہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کررہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کردیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرمانبرداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وتیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔ یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرہ میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرز فکر اور اس کے تمام کارنامہ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے‘ اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار ویک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ بس اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرلے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمائش کی جاسکتی ہو‘ ہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکال تقویٰ جو سکھادی گئی ہیں‘ ان کی پابندی تو انتہائی اہتمام کے ساتھ ہورہی ہے‘ مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوئوں میںوہ اخلاق‘ وہ طرز فکر اور وہ طرز عمل بھی ظاہر ہورہے ہیں جو مقامِ تقویٰ تو درکنار‘ ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے۔ یعنی حضرت مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جارہے ہیں اور اونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جارہے ہیں۔

حقیقی تقویٰ اور مصنوعی تقویٰ کے اس فرق کو یوں سمجھئے کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کے اندر طہارت و نظافت کی حس موجود ہے اور پاکیزگی کا ذوق پایا جاتا ہے۔ ایسا شخص گندگی سے فی نفسہٖ نفرت کرے گا خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو‘ اور طہارت کو بجائے خود اختیار کرلے گا خواہ اس کے مظاہر کا احاطہ نہ ہوسکتا ہو۔ بخلاف اس کے ایک دوسرا شخص ہے جس کے اندر طہارت کی حس موجود نہیں ہے مگر وہ گندگیوں اور طہارتوں کی ایک فہرست لیے پھرتا ہے جو کہیں سے اس نے نقل کرلی ہیں۔ یہ شخص ان گندگیوں سے تو سخت اجتناب کرے گا جو اس نے فہرست میں لکھی ہوئی پائی ہیں‘ مگر بے شمار ایسی گھنائونی چیزوں میں آلودہ پایا جائے گا جو ان گندگیوں سے بدرجہا زیادہ ناپاک ہوں گی جن سے وہ بچ رہا ہے‘ صرف اس وجہ سے کہ وہ اس فہرست میں درج ہونے سے رہ گئیں۔ یہ فرق جو میں آپ سے عرض کررہا ہوں‘ یہ محض ایک نظری فرق نہیں ہے بلکہ آپ اس کو اپنی انکھوں سے ان حضرات کی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں جن کے تقویٰ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف ان کے ہاں جزئیاتِ شرع کا یہ اہتمام ہے کہ داڑھی ایک خاص مقدار سے کچھ بھی کم ہو تو فسق کا فیصلہ نافذ کردیا جاتا ہے۔ پائنچہ ٹخنے سے ذرا نیچے ہوجائے تو جہنم کی وعید سنادی جاتی ہے۔ اپنے مسلک فقہی کے فروعی احکام سے ہٹنا ان کے نزدیک گویا دین سے نکل جانا ہے۔ لیکن دوسری طرف دین کے اصول و کلیات سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی پوری زندگی کا مدار انہوں نے رخصتوں اور سیاسی مصلحتوں پر رکھ دیا ہے۔ اقامت دین کی سعی سے گریز کی بے شمار راہیں انہوں نے نکال رکھی ہیں۔ غلبۂ کفر کے تحت ’’اسلامی زندگی‘‘ کے نقشے بنانے ہی میں ان کی ساری محنتیں اور کوششیں صرف ہورہی ہیں۔ اور انہی کی غلط رہنمائی نے مسلمانوں کو اس چیز پر مطمئن کیاہے کہ ایک غیر اسلامی نظام کے اندر رہتے ہوئے‘ بلکہ اس کی خدمت کرتے ہوئے بھی ایک محدود دائرے میں مذہبی زندگی بسر کرکے وہ دین کے سارے تقاضے پورے کرسکتے ہیں‘ اس سے آگے کچھ مطلوب نہیں ہے جس کے ئے وہ سعی کریں۔ پھر اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے سامنے دین کے اصلی مطالبے پیش کرے اور سعی اقامت دین کی طرف توجہ دلائے تو صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی بات سنی ان سنی کردیتے ہیں‘ بلکہ کوئی حیلہ‘ کوئی بہانہ اور کوئی چال ایسی نہیں چھوڑتے جو اس کام سے خود بچنے اور مسلمانوں کو بچانے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس پر بھی ان کے تقویٰ پر کوئی آنچ نہیں آتی اور نہ مذہبی ذہنیت رکھنے والوں میں سے کسی کو یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے تقویٰ میں کوئی کسر ہے۔ اسی طرح حقیقی اور مصنوعی تقویٰ کا فرق بے شمار شکلوں میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ مگر آپ اسے تب ہی محسوس کرسکتے ہیں کہ تقویٰ کا اصل تصور آپ کے ذہن میں واضح طور پر موجود ہو۔

میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع‘ لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوئوں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں میں ان کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انہیں غیر ضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ دراصل جو کچھ میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقی تقویٰ ہے نہ کہ یہ مظاہر۔ حقیقی تقویٰ جس کے اندر پیدا ہوگا۔ اس کی پوری زندگی ہمواری ویک رنگی کے ساتھ اسلامی زندگی بنے گی۔ اسلام اپنی پوری ہمہ گیری کے ساتھ اس کے خیالات میں‘ اس کے جذبات و رجحانات میں‘ اس کے مذاق طبیعت میں‘ اس کے اوقات کی تقسیم اور اس کی قوتوں کے مصارف میں‘ اس کی سعی کی راہوں میں‘ اس کے طرز زندگی اور معاشرت میں‘ اس کی کمائی اور خرچ میں‘ غرض اس کی حیات دینوی کے سارے ہی پہلوئوں میںرفتہ رفتہ نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر مظاہر کو حقیقت پر مقدم رکھا جائے گا اور اس پر بیجا زور دیا جائے گا اور حقیقی تقویٰ کی تخم ریزی اور آبیاری کے بغیر مصنوعی طور پر چند ظاہری احکام کی تعمیل کرادی جائے گی‘ تو نتائج وہی کچھ ہوں گے جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے۔ پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے‘ بتدریج نشوونما پاتی اور ایک مدت کے بعد برگ و بارلاتی ہے‘ جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُپراتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کرلی جاتی ہے۔ جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنادی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے تو کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔

احسان

اب احسان کو لیجیے جو اسلام کی بلند ترین منزل ہے۔ احسان دراصل اللہ اوراس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ اس قلبی لگائو‘ اس گہری محبت‘ اس سچی وفاداری اور فدویت و جاں نثاری کا نام ہے جو مسلمان کو فنا فی الاسلام کردے۔ تقویٰ کا اساسی تصور خدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے اور احسان کا اساسی تصور خدا کی محبت ہے جو آدمی کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ابھارے۔ ان دونوں چیزوں کے فرق کو ایک مثال سے یوں سمجھئے کہ حکومت کے ملازموں میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو نہایت فرض شناسی و تن دہی سے وہ تمام خدمات ٹھیک ٹھیک بجالاتے ہیں جو ان کے سپرد کی گئی ہوں۔ تمام ضابطوں اور قاعدوں کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں اور کوئی کام ایسا نہیں کرتے جو حکومت کے لیے قابل اعتراض ہو۔ دوسرا طبقہ ان مخلص وفاداروں اور جاں نثاروں کا ہوتا ہے جو دل و جان سے حکومت کے ہوا خواہ ہوتے ہیں۔ صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے جو ان کے سپرد کی گئی ہوں‘ بلکہ ان کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کو زیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے اس دھن میں وہ فرض اور مطالبہ سے زائد کام کرتے ہیں۔ سلطنت پر کوئی آنچ آئے تو وہ جان و مال اور اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ قانون کی کہیں خلاف ورزی ہو تو ان کے دل کو چوٹ لگتی ہے کہیں بغاوت کے آثار پائے جائیں تو وہ بے چین ہوجاتے ہیں اور اسے فرو کرنے میں جان لڑادیتے ہیں۔ جان بوجھ کر خود سلطنت کو نقصان پہنچانا تو درکنار اس کے مفاد کو کسی طرح نقصان پہنچتے دیکھنا بھی اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے اور اسی خرابی کے رفع کرنے میں وہ اپنی حد تک کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں بس ان کی سلطنت ہی کا بول بالا ہو اورزمین کا کوئی چپہ ایسا باقی نہ رہے جہاں اس کا پھریرا نہ ارے۔ ان دونوں میں سے پہلی قسم کے لوگ اس حکومت کے متقی ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اس کے محسن۔ اگرچہ ترقیاں متقین کو بھی ملتی ہیں اور بہرحال ان کے نام اچھے ہی ملازموں کی فہرست میں لکھے جاتے ہیں۔ مگر جو سرفرازیاں محسنین کے لیے ہیں ان میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ہوتا۔ بس اسی مثال پر اسلام کے متقیوں اور محسنوں کو بھی قیاس کرلیجیے۔ اگرچہ متقین بھی قابل قدر اور قابل اعتماد لوگ ہیں‘ مگر اسلام کی اصل طاقت محسنین کا گروہ ہے۔ اصلی کام جو اسلام چاہتا ہے کہ دنیا میں ہو وہ اسی گروہ سے بن آسکتا ہے۔

احسان کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں‘ جن کے سامنے حدود اللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں‘ خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیاجائے‘ خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہورہا ہو‘ نظامِ کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو‘ نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے‘ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبے پر اصولاً و عملا مطمئن کردیں‘ ان کا شمار آخر محسنین میں کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس جرمِ عظیم کے ساتھ محض یہ بات انہیں احسان کے مقامِ عالی پر کیسے سرفراز کرسکتی ہے کہ وہ چاشت اور اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے‘ ذکر و شغل اور مراقبے کرتے رہے‘ حدیث و قرآن کے درس دیتے رہے‘ جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیہ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث و فقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں مگر ایک نہ تھی تو وہ حقیقی دینداری جو ’’سردادندادوست در دست یزید‘‘ کی کیفیت پیدا کرے اور ’’بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھوسکا‘‘ کے مقام وفاداری پر پہنچا دے۔ آپ دینوی ریاستوں اور قوموں میں بھی وفادار اور غیر وفادار کی اتنی تمیز ضرور نمایاں پائیں گے کہ اگر ملک میں بغاوت ہوجائے یا ملک کے کسی حصے پر دشمن کا قبضہ ہوجائے تو باغیوں اور دشمنوں کے تسلط کو جو لوگ جائز تسلیم کرلیں یا ان کے تسلط پر راضی ہوجائیں اور ان کے ساتھ مغلوبانہ مصالحت کرلیں‘ یا ان کی سرپرستی میں کوئی ایسا نظام بنائیں جس میں اصلی اقتدار کی باگیں انہیں کے ہاتھ رہیں اور کچھ ضمنی حقوق اور اختیارات انہیں بھی مل جائیں‘ تو ایسے لوگوں کو کوئی ریاست اور کوئی قوم اپنا وفادار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی‘ خواہ وہ قومی فیشن کے کیسے ہی سخت پابند اور جزئی معاملات میں قومی قانون کے کتنے ہی شدید پیرو ہوں۔ آج آپ کے سامنے زندہ مثالیں موجود ہیںکہ جو ملک جرمنی کے تسلط سے نکلے ہیں وہاں ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہورہا ہے جنہوں نے جرمن قبضے کے زمانے میں تعاون و مصالحت کی راہیں اختیار کی تھیں۔ ان سب ریاستوں اور قوموں کے پاس وفاداری کے جانچنے کا ایک ہی معیار ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے دشمن کے تسلط کی مزاحمت کس حد تک کی‘ اس کو مٹانے کے لیے کیا کام کیا اور اس اقتدار کو واپس لانے کی کیا کوشش کی جس کی وفاداری کا وہ مدعی تھا۔ پھر کیا معاذ اللہ خدا کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ وہ اپنے وفاداروں کو پہچاننے کی اتنی تمیز بھی نہیں رکھتا جتنی دنیا کے ان کم عقل انسانوں میں پائی جاتی ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بس داڑھی کا طول‘ ٹخنوں اور پائنچوں کا فاصلہ‘ تسبیحوں کی گردش اور درود و وظائف اور نوافل اور مراقبے کے مشاغل اور ایسی ہی چند اور چیزیں دیکھ کر ہی دھوکا کھاجائے گا کہ آپ اس کے سچے وفادار اور جاں نثار ہیں؟

غلط فہمیاں

حضرات! اب میں ایک آخری بات کہہ کر اپنی تقریر ختم کروں گا۔ عام مسلمانوں کے ذہن پر مدتوں کے غلط تصورات کی وجہ سے جزئیات و ظواہر کی اہمیت کچھ اس طرح چھاگئی ہے کہ دین کے اصول و کلیات اور دینداری و اخلاقِ اسلامی کے حقیقی جوہر کی طرف خواہ کتنی ہی توجہ دلائی جائے‘ مگر لوگوں کے دماغ ہِر پِھر کر انہی چھوٹے چھوٹے مسائل اور ذرا ذرا سی ظاہری چیزوں میں اٹک کر رہ جاتے ہیں جنہیں اصل دین بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ اس وبائے عام کے اثرات خود ہمارے بہت سے رفقاء اور ہمدردوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ میں اپنا پورا زور یہ سمجھانے میں صرف کرتا رہا ہوں کہ دین کی حقیقت کیا ہے‘ لیکن ان ساری کوششوں کے بعد جب دیکھتا ہوں یہی دیکھتا ہوں کہ وہی ظاہر پرستی اور وہی اصول سے بڑھ کر فروع کی اہمیت دماغوں پر مسلط ہے۔ آج تین روز سے میرے پاس پرچوں کی بھرمار ہورہی ہے جن میں سارا مطالبہ بس اس کا ہے کہ جماعت کے لوگوں کی داڑھیاں بڑھوائی جائیں‘ پانچے ٹخنوں سے اونچے کرائے جائیں اور ایسے ہی دوسرے جزئیات کا اہتمام کرایا جائے۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں کے اس خیال کا بھی مجھے علم ہوا کہ انہیں جماعت میں اس چیز کی بڑی کمی محسوس ہوتی ہے جس کو وہ ’’روحانیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر شاید وہ خود نہیں بناسکتے کہ یہ روحانیت فی الواقع ہے کیا شے اسی بنا پر ان کی رائے یہ ہے کہ نصب العین اور طریق کار تو اس جماعت کا اختیار کیا جائے اور تزکیہ نفس اور تربیت روحانی کے لیے خانقاہوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ ساری باتیں صاف بتاتی ہیں کہ ابھی تک ہماری تمام کوششوں کے باوجود لوگوں میں دین کا فہم پیدا نہیں ہوا ہے۔ میں ابھی آپ کے سامنے ایمان‘ اسلام‘ تقویٰ اور احسان کی جو تشریح کرچکا ہوں اس میں اگر کوئی چیز قرآن و حدیث کی تعلیم سے تجاوز کرکے میں نے خود وضع کردی ہو تو آپ بے تکلف اس کی نشان دہی فرمادیں۔ لیکن اگر آپ تسلیم کرتے ہیں کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے یہی ان چار چیزوں کی حقیقت ہے تو پھر خود ہی سوچئے کہ جہاں ایمان کے مقتضیات بھی پوری طرح متحقق نہ ہوں‘ اور جہاں تقویٰ اور احسان کی جڑ ہی نہ پائی جاتی ہو‘ وہاں آخرکونسی روحانیت پائی جاسکتی ہے جسے آپ تلاش کرنے جارہے ہیں۔ رہے وہ جزئیات شرع جن کو آپ نے دین کے اولین مطالبات میں شمار کررکھا ہے تو ان کا حقیقی مقام میں آپ کے سامنے پھر ایک مرتبہ صاف صاف واضح کئے دیتا ہوں تاکہ میں اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائوں۔

سب سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس سوال پر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول دنیا میں کس غرض کے لیے بھیجے ہیں؟ دنیا میں آخر کس چیز کی کمی تھی؟ کیا خرابی پائی جاتی تھی جسے رفع کرنے کے لیے انبیاء مبعوث کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ کیا وہ یہ تھی کہ لوگ داڑھیاں نہ رکھتے تھے اور انہیں کے رکھوانے کے لیے رسول بھیجے گئے؟ یا یہ کہ لوگ ٹخنے ڈھانکے رہتے تھے اورانبیاء کے ذریعے سے انہیں کھلوانا مقصود تھا؟ یاوہ چند سنتیں‘ جن کے اہتمام کا آپ لوگوں میں بہت چرچا ہے‘ دنیا میں جاری کرنے کے لیے انبیاء کی ضرورت تھی؟ ان سوالات پر آپ غور کریں گے تو خود ہی کہہ دیں گے کہ نہ اصل خرابیاں یہ تھیں اور نہ انبیاء کی بعثت کا اصل مقصود یہ تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ اصل خرابیاں کیا تھیں جنہیں دور کرنا مطلوب تھا اور وہ حقیقی بھلائیاں کیا تھیں جنہیں قائم کرنے کی ضرورت تھی؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کیا دے سکتے ہیں کہ خدائے واحد کی اطاعت و بندگی سے انحراف‘ خود ساختہ اصول و قوانین کی پیروی‘ اور خدا کے سامنے ذمہ داری و جوابدہی کا عدم احساس‘ یہ تھیں وہ اصل خرابیاں جو دنیا میں رونما ہوگئی تھیں۔ انہیں کی بدولت اخلاقِ فاسدہ پیدا ہوئے‘ غلط اصول زندگی رائج ہوئے اور زمین میں فساد برپا ہوا۔ پھر انبیاء علیہم السلام اس غرض کے لیے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی و وفاداری اور اس کے سامنے اپنی جوابدہی کا احساس پیدا کیا جائے‘ اخلاقِ فاضلہ کو نشوونما دیاجائے اور انسانی زندگی کا نظام ان اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیر و صلاح ابھرے اور شر و فساد دبے۔ یہی ایک مقصد تمام انبیاء کی بعثت کا تھا اور آخر کار اسی مقصد کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔

اب دیکھئے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے محمدﷺ نے کس ترتیب و تدریج کے ساتھ کام کیا۔ سب سے پہلے آپؐ نے ایمان کی دعوت دی اور اس کو وسیع ترین بنیادوں پر پختہ و مستحکم فرمایا۔ پھر اس ایمان کے مقتضیات کے مطابق بتدریج اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اہل ایمان میں عملی اطاعت و فرمانبرداری (یعنی اسلام)‘ اخلاقی طہارت (یعنی تقویٰ) اور خدا کی گہری محبت و وفاداری (یعنی احسان) کے اوصاف پیدا کئے۔ پھر ان مخلص مومنوں کی منظم سعی و جہد سے قدیم جاہلیت کے فاسد نظام کو مٹایا اور اس کی جگہ قانون خداوندی کے اخلاق و تمدنی اصولوں پر ایک نظام صالح قائم کردیا۔ اس طرح جب یہ لوگ اپنے دل و دماغ‘ نفس و اخلاق‘ افکار و اعمال غرض جملہ حیثیات سے واقعی مسلم‘ متقی اور محسن بن گئے‘ اور اس کام میں لگ گئے جو اللہ تعالیٰ کے وفاداروں کو کرنا چاہیے تھا‘ تب آپ نے ان کو بتانا شروع کیا کہ وضع قطع‘ لباس‘ کھانے پینے‘ رہنے سہنے‘ اٹھنے بیٹھنے اور دوسرے ظاہری برتائو میں وہ مہذب آداب و اطوار کونسے ہیں جو متقیوں کو زیب نہیں دیتے ہیں۔ گویا پہلے مس خام کو کندن بنایا پھر اس پر اشرفی کا ٹھپہ لگایا پہلے سپاہی تیار کئے پھر انہیں وردی پہنائی۔ یہی اس کام کی صحیح ترتیب ہے جو قرآن و حدیث کے غائر مطالعے سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اتباعِ سنت نام ہے اس طرز عمل کا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرنے کے لیے ہدایت الٰہی کے تحت اختیار کیا تھا‘ تو یقیناً یہ سنت کی پیروی نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہے کہ حقیقی مومن‘ مسلم‘ متقی اور محسن بنائے بغیر لوگوں کو متقیوں کے ظاہری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور ان سے محسنین کے چند مشہور و مقبول عام افعال کی نقل اتروائی جائے۔ یہ سیسے اور تانبے کے تکڑوں پر اشرفی کا ٹھپہ لگا کر بازار میں ان کو چلادینا‘ اور سپاہیت‘ وفاداری اور جاں نثاری پیدا کئے بغیر نرے وردی پوش نمائشی سپاہیوں کو میدان میں لاکھڑا کرنا میرے نزدیک تو ایک کھلی ہوئی جعل سازی ہے۔ اور اسی جعل سازی کا نتیجہ ہے کہ نہ بازار میں آپ کی ان جعلی اشرفیوں کی کوئی قیمت اٹھتی ہے اور نہ میدان میں آپ کے ان نمائشی سپاہیوں کی بھیڑ سے کوئی معرکہ سر ہوتا ہے۔

پھر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ خدا کے ہاں اصلی قدر کس چیز کی ہے؟ فرض کیجیے کہ ایک شخص سچا ایمان رکھتا ہے‘ فرض شناس ہے‘ اخلاق صالحہ سے متصف ہے‘ حدود اللہ کا پابند ہے اور خدا کی وفاداری اور جاں نثاری کا حق ادا کردیتا ہے‘ مگر ظاہری فیشن کے اعتبار سے ناقص اور ظاہری تہذیب کے معیار سے گرا ہوا ہے۔ اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس یہی تو ہوگی کہ ایک اچھا ملازم ہے مگر ذرا بدتمیز ہے۔ ممکن ہے کہ اس بدتمیزی کی وجہ سے اس کو مراتبِ عالیہ نصیب نہ ہوسکیں‘ مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس قصور میں اس کی وفاداری کا اجر بھی مارا جائے گا اور اس کا مالک صرف اس لیے اسے جہنم میں جھونک دے گا کہ وہ خوش وضع اور خوش اطوار نہ تھا؟ فرض کیجیے کہ ایک دوسرا شخص ہے جو بہترین شرعی فیشن میں رہتا ہے اور آداب تہذیب کے الزام میں کمال درجہ محتاط ہے۔ مگر اس کی وفاداری میںنقص ہے‘ اس کی فرض شناسی میں کمی ہے‘ اس کی غیرتِ ایمانی میں خامی ہے۔ آپ کیا اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس نقص کے ساتھ اس ظاہری کمال کی حد سے حد کتنی قدر خدا کے ہاں ہوگی؟ یہ مسئلہ تو کوئی گہرا اور پیچیدہ قانونی مسئلہ نہیں ہے جسے سمجھنے کے لیے کتابیں کھنگالنے کی ضرورت ہو۔ محض عقل عام ہی سے ہر آدمی جان سکتا ہے کہ ان دونوں چیزوں میں سے اصلی قدر کی مستحق کونسی چیز ہے۔ دنیا کے کم عقل لوگ بھی اتنی تمیز ضرور رکھتے ہیں کہ حقیقت میں جو چیز قابل قدر ہے اس میں اور ضمنی خوبیوں میں فرق کرسکیں۔ یہ انگریزی حکومت آپ کے سامنے موجود ہے۔ یہ لوگ جیسے کچھ فیشن پرست ہیں اور ظاہری آداب و اطوار پر جس طرح جان دیتے ہیں اس کا حال آپ کو معلوم ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ ان کے ہاں اصلی قدر کس چیز کی ہے؟ جو فوجی افسران کی سلطنت کا جھنڈا بلند کرنے میں اپنے دل و دماغ اور جسم و جان کی ساری قوتیں صرف کردے اور فیصلے کے وقت پر کوئی قربانی دینے میں دریغ نہ کرے‘ وہ ان کے نقطہ نظر سے خواہ کتنا ہی اجڈ اور گنوار ہو‘ کئی کئی دن شیو نہ کرتا ہو‘ بے ڈھنگا لباس پہنتا ہو‘ کھانے پینے کی ذرا تمیز نہ رکھتا ہو‘ رقص کے فن سے نابلد ہو‘ مگر ان سارے عیوب کے باوجود وہ اس کو سرآنکھوں پر بٹھائیں گے اور اسے ترقی کے بلند ترین مرتبے دیں گے۔ بخلاف اس کے جو شخص فیشن‘ تہذیب‘ خوش تمیزی‘ اور سوسائٹی کے مقبول عام اطوار کا معیاری مجسمہ ہو‘ لیکن وفاداری و جاں نثار میں ناقص ہو اور کام کے وقت اپنے مصالح کا زیادہ لحاظ کرجائے اسے وہ کوئی عزت کا مقام دینا تو درکنار شاید اس کا کورٹ مارشل کرنے میں بھی دریغ نہ کریں۔ یہ جب دنیا کے کم عقل انسانوں کی معرفت کا حال ہے تو اپنے خدا کے متعلق آپ کا کیا گمان ہے؟ کیا وہ سونے اور تانبے میں تمیز کرنے کے بجائے محض سطح پر اشرفی کا ٹھپہ دیکھ کر اشرفی کی قیمت اور پیسہ کا ٹھپہ دیکھ کر پیسے کی قیمت لگادے گا؟

میری اس گزارش کو یہ معنی نہ پہنایئے کہ میں ظاہری محاسن کی نفی کرنا چاہتا ہوں یا ان احکام کی تعمیل کو غیر ضروری قرار دے رہا ہوں جو زندگی کے ظاہری پہلوئوں کی اصلاح و درستی کی متعلق دیے گئے ہیں۔ درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندئہ مومن کو ہر اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسول نے دیا ہو اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز باطن ہے نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجیے‘ پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ان اوصاف کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو اللہ کے ہاں اصلی قدر کے مستحق ہیں اور جنہیں نشوونما دینا انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا اصلی مقصود تھا۔ ظاہر کی آراستگی اول تو ان اوصاف کے نتیجے میں فطرۃً خود ہی ہوتی چلی جائے گی اور اگر اس میں کچھ کسر رہ جائے تو تکمیلی مراحل میں اس کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔

دوستو اور رفیقو! میں نے بیماری اور کمزوری کے باوجود آج یہ طویل تقریر آپ کے سامنے صرف اس لیے کی ہے کہ میں امرِ حق کو پوری وضاحت کے ساتھ آپ تک پہنچا کر خدا کے حضور بری الذمہ ہونا چاہتا ہوں۔ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اس کی مہلت عمر آن پوری ہو۔ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوںکہ حق پہنچانے کی جو ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے اس سے سبکدوش ہوجائوں۔ اگر کوئی امر وضاحت طلب ہو تو پوچھ لیجیے۔ اگر میں نے کوئی بات خلافِ حق بیان کی ہو تو اس کی تردید کردیجیے۔ لیکن اگر میں نے ٹھیک ٹھیک حق آپ تک پہنچادیا ہے تو اللہ آپ سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مودودیؒ لٹریچر