سلامتی کا راستہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

یہ خطبہ مئی ۱۹۴۰ء میں ریاست کپور تھلہ میں ہندوؤں، سِکھوں اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ اجتماع کے سامنے پیش کیا گیا تھا


ہستیٔ باری تعالیٰ

صاحبو! اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دکان ایسی ہے جس کا کوئی دکاندار نہیں ہے، نہ کوئی اس میں مال لانے والا ہے، نہ بیچنے والا اور نہ کوئی اس کی رکھوالی کرتا ہے، دکان خود بخود چل رہی ہے، خود بخود اس میں مال آجاتا ہے اور خود بخود خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہوجاتا ہے، تو کیا اپ اس شخص کی بات مان لیں گے؟ کیا آپ تسلیم کرلیں گے کہ کسی دکان میں مال لانے والے کے بغیر خود بخود بھی مال آسکتا ہے؟ مال بیچنے والے کے بغیر خود بخود فروخت بھی ہوسکتا ہے؟ حفاظت کرنے والے کے بغیر خود بخود چوری اور لوٹ سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے؟ اپنے دل سے پوچھئے، ایسی بات آپ کبھی مان سکتے ہیں؟ جس کے ہوش و حواس ٹھکانے ہوں کیا اس کی عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ کوئی دکان دنیا میں ایسی بھی ہوگی؟

فرض کیجیے، ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اس شہر میں ایک کارخانہ ہے جس کا نہ کوئی مالک ہے، نہ انجینئر، نہ مستری۔ سارا کارخانہ خود بخود قائم ہوگیا ہے، ساری مشینیں خود بخود بن گئی ہیں، خود ہی سارے پرزے اپنی اپنی جگہ لگ گئے ہیں، خود ہی سب مشینیں چل رہی ہیں اور خود ہی ان میں سے عجیب عجیب چیزیں بن بن کر نکل رہی ہیں۔ سچ بتایئے جو شخص آپ سے یہ بات کہے گا، آپ حیرت سے اس کا منہ نہ تکنے لگیں گے؟ آپ کو یہ شبہ نہ ہوگا کہ اس کا دماغ کہیں خراب تو نہیں ہوگیا ہے؟ کیا ایک پاگل کے سوا ایسی بیہودہ بات کوئی کہہ سکتا ہے؟

دور کی مثال کو چھوڑیے، یہ بجلی کا بلب جو آپ کے سامنے جل رہا ہے کیا کسی کے کہنے سے آپ یہ مان سکتے ہیں کہ روشنی اس بلب میں آپ سے آپ پیدا ہوجاتی ہے؟ یہ کرسی جو آپ کے سامنے رکھی ہے، کیا کسی بڑے سے بڑے فاضل فلسفی کے کہنے سے بھی آپ یہ باور کرسکتے ہیں کہ یہ خود بخود بن گئی ہے؟ یہ کپڑے جو آپ پہنے ہوئے ہیں، کیا کسی علامۂ دہر کے کہنے سے بھی آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں کہ ان کو کسی نے بُنا نہیں ہے یہ خود بُن گئے ہیں؟ یہ گھر جو آپ کے سامنے کھڑے ہیں، اگر تمام دنیا کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر مل کر بھی آپ کو یقین دلائیں کہ ان گھروں کو کسی نے نہیں بنایا ہے بلکہ یہ خود بن گئے ہیں، تو کیا ان کے یقین دلانے سے آپ کو ایسی لغو بات پر یقین آجائے گا؟

یہ چند مثالیں آپ کے سامنے کی ہیں۔ رات دن جن چیزوں کو آپ دیکھتے ہیں انہیں میں سے چند ایک میں نے بیان کی ہیں۔ اب غور کیجیے، ایک معمولی دکان کے متعلق جب آپ کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ وہ کسی قائم کرنے والے کے بغیر چل رہی ہے، جب ایک ذرا سے کارخانے کے متعلق آپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے گا اور کسی چلانے والے کے بغیر چلتا رہے گا تو یہ زمین و آسمان کا زبردست کارخانہ جو آپ کے سامنے چل رہا ہے، جس میں چاند اور سورج اور بڑے بڑے ستارے گھڑی کے پرزوں کی طرح حرکت کررہے ہیں، جس میں سمندروں سے بھاپیں اٹھتی ہیں، بھاپوں سے بادل بنتے ہیں، بادلوں کو ہوائیں اڑا کر زمین کے کونے کونے میں پھیلاتی ہیں، پھر ان کو مناسب وقت پر ٹھنڈک پہنچا کر دوبارہ بھاپ سے پانی بنایا جاتا ہے، پھر وہ پانی بارش کے قطروں کی صورت میںزمین پر گرایاجاتا ہے، پھر اس بارش کی بدولت مردہ زمین کے پیٹ سے طرح طرح کے لہلہاتے ہوئے درخت نکالے جاتے ہیں، قسم قسم کے غلے، رنگ برنگ کے پھل اور وضع وضع کے پھول پیدا کیے جاتے ہیں، اس کارخانے کے متعلق آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بنانے والے کے بغیر خود بن گیا اور کسی چلانے والے کے بغیر خود چل رہا ہے؟ ایک ذرا سی کرسی، ایک گز بھر کپڑے، ایک چھوٹی سی دیوار کے متعلق کوئی کہہ دے کہ یہ چیزیں خود بنی ہیں تو آپ فوراً فیصلہ کردیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے پھر بھلا اس شخص کے دماغ کی خرابی میںکیا شک ہوسکتا ہے جو کہتا ہے کہ زمین خود بن گئی، جانور خود پیدا ہوگئے، انسان جیسی حیرت انگیز چیز آپ سے آپ بن کرکھڑی ہوگئی؟

آدمی کا جسم جن اجزاء سے مل کر بنا ہے ان سب کو سائنس دانوں نے الگ الگ کرکے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوہا ہے، کچھ کوئلہ، کچھ گندھک، کچھ فاسفورس، کچھ کیلشیم، کچھ نمک، چند گیسیں اور بس ایسی ہی چند اور چیزیں جن کی مجموعی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں ہے، یہ چیزیں جتنے جتنے وزن کے ساتھ آدمی کے جسم میں شامل ہیں، اتنے ہی وزن کے ساتھ انہیں لے لیجیے اور جس طرح جی چاہے ملا کر دیکھ لیجیے، آدمی کسی ترکیب سے نہ بن سکے گا۔ پھر کس طرح آپ کی عقل یہ مان سکتی ہے کہ ان چند بے جان چیزوں سے دیکھتا، سنتا، بولتا، چلتا پھرتا انسان، وہ انسان جو ہوائی جہاز اور ریڈیو بناتا ہے، کسی کاریگر کی حکمت کے بغیر خود بخود بن جاتا ہے؟

کبھی آپ نے غور کیا کہ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سی فیکٹری میں کس طرح آدمی تیار ہوتا ہے؟ باپ کی کارستانی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ماں کی حکمت کا اس میں کوئی کام نہیں ایک ذرا سی تھیلی میں دو کیڑے جو خوردبین کے بغیر دیکھے تک نہیںجاسکتے، نہ معلوم کب آپس میں مل جاتے ہیں۔ ماں کے خون ہی سے ان کو غذا پہنچنی شروع ہوجاتی ہے۔ وہیں سے لوہا، گندھک، فاسفورس، وغیرہ تمام چیزیں، جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، ایک خاص وزن اور خاص نسبت کے ساتھ وہاں جمع ہوکر لوتھڑا بنتی ہیں۔ پھر اس لوتھڑے میں جہاں آنکھیں بننی چاہییں وہاں آنکھیں بنتی ہیں، جہاں کان بننے چاہییں وہاں کان بنتے ہیں، جہاں دماغ بننا چاہیے وہاں دماغ بنتا ہے، جہاں دل بننا چاہیے وہاں دل بنتا ہے۔ ہڈی اپنی جگہ پر، گوشت اپنی جگہ پر، غرض ایک ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھتا ہے، پھر اس میں جان پڑجاتی ہے۔ دیکھنے کی طاقت، سننے کی طاقت، چکھنے اور سونگھنے کی طاقت، بولنے کی طاقت، سوچنے اور سمجھنے کی طاقت، اور نہ جانے کتنی بے حد و حساب طاقتیں اس میںبھرجاتی ہیں۔ اس طرح جب انسان مکمل ہوجاتا ہے تو پیٹ کی وہی چھوٹی سی فیکٹری جہاں نو مہینے تک وہ بن رہاتھا، خودزور کرکے اسے باہر دھکیل دیتی ہے۔ اس فیکٹری سے ایک ہی طریقے پر لاکھوں انسان روز بن کر نکل رہے ہیں۔ مگر ہر ایک کا نمونہ جدا ہے۔ شکل جدا، رنگ جدا، آواز جدا، قوتیں اور قابلیتیں جدا، طبیعتیں اور خیالات جدا، اخلاق اور صفات جدا، ایک ہی ماں کے پیٹ کے نکلے ہوئے دو سگے بھائی تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کرشمے کو دیکھ کر بھی جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ کام کسی زبردست حکمت والے، زبردست قدرت والے، زبردست علم اور بے نظیر کمالات رکھنے والے خدا کے بغیر ہورہا ہے یا ہوسکتا ہے، یقینا اس کا دماغ درست نہیں ہے۔ اس کو عقلمند سمجھنا عقل کی توہین کرنا ہے، کم از کم میں تو ایسے شخص کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔

توحید

اچھا اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل، اس بات کی گواہی دے گی کہ دنیا میں کوئی کام بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کبھی باضابطگی و باقاعدگی سے نہیں چل سکتا جب تک کہ کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار نہ ہو۔ ایک مدرسہ کے دو ہیڈ ماسٹر، ایک محکمہ کے دو ڈائریکٹر، ایک فوج کے دو سپہ سالار، ایک سلطنت کے دو رئیس یا بادشاہ کبھی آپ نے سنے ہیں؟ اور کہیں ایسا ہوتو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دن کے لیے بھی انتظام ٹھیک ہوسکتا ہے؟ آپ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کا تجربہ کرتے ہیں کہ جہاں کوئی کام ایک سے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری پر چھوڑا جاتا ہے، وہاں سخت بدانتظامی ہوتی ہے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور آخر ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ کر رہتی ہے۔ انتظام، باقاعدگی، ہمواری اور خوش اسلوبی دنیا میں جہاں کہیں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں لازمی طور پر کوئی ایک طاقت، کارفرما ہوتی ہے، کوئی ایک ہی وجود بااختیار و اقتدار ہوتا ہے اور کسی ایک کے ہاتھ میں سررشتہ کار ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انتظام کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔

یہ ایسی سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا ہو اسے ماننے میں تامل نہ کرے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر ذرا اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ یہ زبردست کائنات جو آپ کے سامنے پھیلی ہوئی ہے، یہ کروڑوں سیارے جو آپ کو گردش کرتے نظر آتے ہیں، یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ چاند جو راتوں کو نکلتا ہے، یہ سورج جو صبح کو طلوع ہوتا ہے، یہ زہرہ، یہ مریخ، یہ عطارد، یہ مشتری اور یہ دوسرے بے شمار تارے جو گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں، دیکھئے، ان سب کے گھومنے میں کیسی سخت باقاعدگی ہے، کبھی رات اپنے وقت سے پہلے آتی ہوئی آپ نے دیکھی؟ کبھی دن وقت سے پہلے نکلتے دیکھا؟ کبھی چاند زمین سے ٹکرایا؟ کبھی سورج اپنا راستہ چھوڑ کر ہٹا؟ کبھی کسی اور ستارے کو آپ نے ایک بال برابر بھی اپنی گردش کی راہ سے ہٹتے ہوئے دیکھا یا سنا؟ یہ کروڑہا سیارے جن میں سے بعض ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے اور بعض سورج سے بھی ہزاروں گنے بڑے، یہ سب گھڑی کے پرزوں کی طرح ایک زبردست ضابطے میں کسے ہوئے اور ایک بندھے ہوئے حساب کے مطابق اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔ نہ کسی کی رفتار میں ذرہ برابر فرق آتا ہے، نہ کوئی اپنے راستے سے بال برابر ٹل سکتا ہے۔ ان کے درمیان جو نسبتیں قائم کردی گئی ہیں، اگر ان میں ایک پل کے لیے بھی ذرا سا فرق آجائے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے، جس طرح ریلیں ٹکراتی ہیں اسی طرح سیارے ایک دوسرے سے ٹکراجائیں۔

یہ تو آسمان کی باتیں ہیں، ذرا اپنی زمین اور اپنی ذات پر نظر ڈال کر دیکھئے۔ اس مٹی کی گیند پر یہ سارا زندگی کا کھیل جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب چند بندھے ہوئے ضابطوں کی بدولت قائم ہے۔ زمین کی کشش نے ساری چیزوں کو اپنے حلقے میںباندھ رکھا ہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر وہ اپنی گرفت چھوڑ دے تو سارا کارخانہ بکھر جائے۔ اس کارخانے میں جتنے کل پرزے کام کررہے ہیں، سب کے سب ایک قاعدے کے پابند ہیں اور اس قاعدے میں کبھی فرق نہیں آتا۔ ہوا اپنے قاعدے کی پابندی کررہی ہے، پانی اپنے قاعدے میں بندھا ہوا ہے، روشنی کے لیے جو قاعدہ ہے اس کی وہ مطیع ہے، گرمی اور سردی کے لیے جو ضابطہ ہے اس کی وہ غلام ہے، مٹی، پتھر، دھاتیں، بجلی، اسٹیم، درخت، جانور کسی میں یہ مجال نہیں کہ اپنی حد سے بڑھ جائے یا اپنی خاصیتوں کو بدل دے یا اس کام کو چھوڑ دے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھر اپنی حد کے اندر، اپنے ضابطہ کی پابندی کرنے کے ساتھ، اس کارخانے کے سارے پرزے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اوردنیامیںجو کچھ بھی ہورہا ہے سب اسی وجہ سے ہورہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اور ساری قوتیں مل کر کام کررہی ہیں۔

ایک ذرا سے بیج کی ہی مثال لے لیجیے جس کو آپ زمین میں بوتے ہیں۔ وہ کبھی پرورش پاکر درخت بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ زمین اور آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کی پرورش میں حصہ نہ لیں۔ زمین اپنے خزانوں سے اس کو غذا دیتی ہے، سورج اس کی ضرورت کے مطابق اسے گرمی پہنچاتا ہے، پانی سے جو کچھ وہ مانگتا ہے وہ پانی دیتا ہے، ہوا سے جو کچھ وہ طلب کرتا ہے وہ ہوا دیتی ہے، راتیں اسے ٹھنڈک اور اوس بہم پہنچاتی ہیں، دن اسے گرمی پہنچا کر پختگی کی طرف لے جاتے ہیں، اس طرح مہینوں اور برسوں تک مسلسل ایک باقاعدگی کے ساتھ یہ سب مل جل کر اسے پالتے پوستے ہیں، تب جاکر کہیں درخت بنتا ہے اور اس میں پھل آتے ہیں۔ آپ کی یہ ساری فصلیں جن کے بل بوتے پر آپ جی رہے ہیں، انہی بے شمار مختلف قوتوں کے بالاتفاق کام کرنے ہی کی وجہ سے تیار ہوتی ہیں، بلکہ آپ خود زندہ اسی وجہ سے ہیں کہ زمین اور آسمان کی تمام طاقتیں متفقہ طور پر آپ کی پرورش میں لگی ہوئی ہیں۔ اگر تنہا ایک ہوا ہی اس متفقہ کاروبار سے الگ ہوجائے تو آپ ختم ہوجائیں۔ اگر پانی، ہوا اور گرمی کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردے تو آپ پر بارش کا ایک قطرہ نہ برس سکے۔ اگر مٹی پانی کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑ دے تو آپ کے باغ سوکھ جائیں، آپ کی کھیتیاں کبھی نہ پکیں اور آپ کے مکان کبھی نہ بن سکیں۔ اگر دیا سلائی کی رگڑ سے آگ پیدا ہونے پر راضی نہ ہو تو آپ کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں اور آپ کے سارے کارخانے یک لخت بیٹھ جائیں۔ اگر لوہا آگ کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کردے تو آپ ریلیں اور موٹریں تو درکنار ایک سوئی اور چھری تک نہ بناسکیں۔ غرض یہ ساری دنیا جس میں آپ جی رہے ہیں، یہ صرف اسی وجہ سے قائم ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے سارے محکمے پوری پابندی کے ساتھ ایک دوسرے سے مل کر کام کررہے ہیں اور کسی محکمے کے کسی اہل کار کی یہ مجال نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ جائے یا ضابطہ کے مطابق دوسرے محکموں کے اہلکاروں سے اشتراک عمل نہ کرے۔

یہ جو کچھ میں نے آپ سے بیان کیا ہے، کیا اس میں کوئی بات جھوٹ یا خلافِ واقعہ ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی بھی اسے جھوٹ نہ کہے گا۔ اچھا، اگر یہ سچ ہے تو مجھے بتایئے کہ یہ زبردست انتظام، یہ حیرت انگیز باقاعدگی، یہ کمال درجہ کی ہمواری، یہ زمین و آسمان کی بے حد و حساب چیزوں اور طاقتوں میں کامل موافقت آخر کس وجہ سے ہے؟ کروڑوں برس سے یہ کائنات یونہی قائم چلی آرہی ہے، لکھو کھا سال سے اس زمین پر درخت اگ رہے ہیں، جانور پیدا ہورہے ہی، اور نہ معلوم کب سے انسان اس زمین پر جی رہا ہے، کبھی ایسا نہ ہوا کہ چاند زمین پر گرجاتا یا زمین سورج سے ٹکراجاتی، کبھی رات اور دن کے حساب میں فرق نہ آیا۔ کبھی ہوا کے محکمے کی پانی کے محکمے سے لڑائی نہ ہوئی، کبھی پانی مٹی سے نہ روٹھا، کبھی گرمی نے آگ سے رشتہ نہ توڑا۔ آخر اس سلطنت کے تمام صوبے، تمام محکمے، تمام ہرکارے اور کارندے کیوں اس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی کیے چلے جارہے ہیں؟ کیوں ان میں لڑائی نہیں ہوتی؟ کیوں فساد برپا نہیں ہوتا؟ کس چیز کی وجہ سے یہ سب ایک انتظام میں بندھے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھئے، کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ ایک ہی خدا اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے، ایک ہی ہے جس کی زبردست طاقت نے سب کو اپنے ضابطے میں باندھ رکھا ہے؟ اگر دس بیس نہیں دو خدا بھی اس کائنات کے مالک ہوتے تو یہ انتظام اس باقاعدگی کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا، ایک ذرا سے مدرسے کا انتظام تو دو ہیڈ ماسٹروں کی ہیڈ ماسٹری برداشت نہیں کرسکتا، پھر بھلا اتنی بڑی زمین و آسمان کی سلطنت دو خدائوں کی خدائی میں کیسے چل سکتی تھی؟

پس واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دنیا کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنی ہے، بلکہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اس کو ایک ہی نے بنایا ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس دنیا کا انتظام کسی حاکم کے بغیر نہیں چل رہا ہے، بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حاکم ایک ہی ہے۔ انتظام کی باقاعدگی صاف کہہ رہی ہے کہ یہاں ایک کے سوا کسی کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات نہیں ہیں ضابطہ کی پابندی منہ سے بول رہی ہے کہ اس سلطنت میں ایک حاکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ قانون کی سخت گیری شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی بادشاہ کی حکومت زمین سے آسمان تک قائم ہے۔ چاند، سورج اور سیارے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ زمین اپنی تمام چیزوں کے ساتھ اسی کے تابع فرمان ہے، ہوا اسی کی غلام ہے، پانی اسی کا بندہ ہے، دریا اور پہاڑ اسی کے محکوم ہیں، درخت اور جانور اسی کے مطیع ہیں، انسان کا جینا اور مرنا اسی کے اختیار میں ہے، اس کی مضبوط گرفت نے سب کو پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے، کوئی اتنا زور نہیں رکھتا کہ اس کی حکومت میں اپنا حکم چلاسکے۔

درحقیقت اس مکمل تنظیم میں ایک سے زیادہ حاکموں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تنظیم کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ حکم میں ایک شمہ برابر بھی کوئی دوسرا حصہ دار نہ ہو۔ تنہا ایک ہی حاکم ہو اور اس کے سوا سب محکوم ہوں کیونکہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں فرماں روائی کے ادنٰی سے اختیارات ہونے کے معنی بھی بدنظمی اور فساد کے ہیں۔ حکم چلانے کے لیے صرف طاقت ہی درکار نہیں ہے، علم بھی درکار ہے۔ اتنی وسیع نظر درکار ہے کہ تمام کائنات کو بیک وقت دیکھ سکے اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ کر احکام جاری کرسکے ۔ اگر خداوند عالم کے سوا کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ایسے ہوتے جو نگاہِ جہاں بیں تو نہ رکھتے، لیکن انہیں دنیا کے کسی حصے یا کسی معاملہ میں اپنا حکم چلانے کا اختیار حاصل ہوتا تو یہ زمین و آسمان کا سارا کارخانہ درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔ ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کو اس میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا جائے جو اس سے پوری طرح واقف نہ ہو تو وہ اسے بگاڑ کر رکھ دے گا۔ لہٰذا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے اور زمین و آسمان کے نظام سلطنت کا انتہائی باضابطگی کے ساتھ چلنا اس کی گواہی دیتا ہے کہ اس سلطنت کے اختیاراتِ شاہی میں ایک خدا کے سوا کسی کا ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔

یہ صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہے، حق یہ ہے کہ خدا کی خدائی میں خود خدا کے سوا کسی کا حکم چلنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے جن کو ا سنے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے، جو اس کی مخلوق ہیں، جن کی ہستی اس کی عنایت سے قائم ہے، جو اس سے بے نیاز ہوکر خود اپنے بل بوتے پر ایک لمحہ کے لیے بھی موجود نہیں رہ سکتے، ان میں سے کسی کی یہ حیثیت کب ہوسکتی ہے کہ خدائی میں اس کا حصہ دار بن جائے؟ کیا کسی نوکر کو آپ نے ملکیت میں آقا کا شریک ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی مالک اپنے غلام کو اپنا ساجھی بنالے؟ کیا خود آپ میں سے کوئی شخص اپنے ملازموں میں سے کسی کو اپنی جائیداد میں یا اپنے اختیارات میں حصہ دار بناتا ہے؟ اس بات پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ خدا کی اس سلطنت میں کسی بندے کو خودمختارانہ فرماں روائی کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے۔ ایسا ہونا نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، نہ صرف عقل اور فطرت کے خلاف ہے، بلکہ حق کے خلاف بھی ہے۔

انسان کی تباہی کا اصلی سبب

صاحبو! یہ بنیادی حقیقتیں ہیں جن پر اس دنیا کا پورا نظام چل رہا ہے۔ آپ اس دنیا سے الگ نہیں ہیںبلکہ اس کے اندر اس کے ایک جز کی حیثیت سے رہتے ہیں، لہٰذا آپ کی زندگی کے لیے بھی یہ حقیقتیں اسی طرح بنیادی ہیں جس طرح کُل جہان کے لیے ہیں۔

آج یہ سوال آپ میں سے ہر شخص کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک پریشان کن گتھی بنا ہوا ہے کہ آخر ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین کیوں رخصت ہوگیا؟ کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہورہی ہیں؟ کیوں ہماری زندگی کی کل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرارہی ہیں، ملک ملک میں کھینچا تانی ہورہی ہے، آدمی آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے، لاکھوں انسان لڑائیوں میں برباد ہورہے ہیں، کروڑوں اور اربوں کے کاروبار غارت ہورہے ہیں، بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں طاقت ور کمزوروں کو کھائے جاتے ہیں، مالدار غریبوں کو لوٹے لیتے ہیں، حکومت میں ظلم ہے، عدالت میں بے انصافی ہے، دولت میں بدمستی ہے، اقتدار میں غرور ہے، دوستی میں بے وفائی ہے، امانت میں خیانت ہے، اخلاق میں راستی نہیں رہی، انسان پر سے انسان کا اعتماد اٹھ گیا ہے، مذہب کے جامے میں لامذہبی ہورہی ہے، آدم کے بچے لاتعداد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو دغا، ظلم، بے ایمانی، ہر ممکن طریقہ سے نقصان پہنچانا کار ثواب سمجھ رہا ہے، یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں؟ خدا کی خدائی میں اور جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں امن ہی امن نظر آتا ہے۔ ستاروں میں امن ہے، ہوا میں امن ہے، پانی میں امن ہے، درختوں اور جانوروں میں امن ہے، تمام مخلوقات کا انتظام پورے امن کے ساتھ چل رہا ہے، کہیں فساد یا بدنظمی کا نشان نہیں پایا جاتا مگر ایک انسان ہی کی زندگی کیوں اس نعمت سے محروم ہوگئی؟

یہ ایک بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں لوگوں کو سخت پریشانی پیش آرہی ہے، مگر میں پورے اطمینان کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ :

آدمی نے اپنی زندگی کو حقیقت اور واقعہ کے خلاف بنارکھا ہے اس لیے وہ تکلیف اٹھا رہا ہے اور جب تک وہ پھر اسے حقیقت کے مطابق نہ بنائے گا کبھی چین نہ پاسکے گا۔

آپ چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنا گھر کا دروازہ سمجھ کر بیٹھیں اور اسے کھول کر بے تکلف اس طرح باہر نکل آئیں جیسے اپنے مکان کے صحن میں قدم رکھ رہے ہیں تو آپ کی اس غلط فہمی سے نہ ریل کا دروازہ گھر کا دروازہ بن جائے گا اور نہ وہ میدان جہاں آپ گریں گے، گھر کا صحن ثابت ہوگا۔ آپ کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت ذرا بھی نہ بدلے گی۔ تیز دوڑتی ہوئی ریل کے دروازے سے جب آپ باہر تشریف لائیں گے تو اس کاجو نتیجہ ظاہر ہوتا ہے، وہ ظاہر ہوکر ہی رہے گا، خواہ ٹانگ اور سر پھٹنے کے بعد بھی آپ یہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے جو کچھ سمجھا تھا غلط سمجھا تھا۔

بالکل اسی طرح اگر آپ یہ سمجھ بیٹھیں کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا آپ خود اپنے خدا بن بیٹھیں، یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان لیں، تو آپ کے ایسا سمجھنے یا مان لینے سے حقیقت ہرگز نہ بدلے گی، خدا خدا ہی رہے گا۔ اس کی زبردست سلطنت جس میں آپ محض رعیت کی حیثیت سے رہتے ہیں، پورے اختیارات کے ساتھ اسی کے قبضہ میں رہے گی۔ البتہ آپ اپنی غلط فہمی کی وجہ سے جو طرز زندگی اختیار کریں گے اس کا نہایت برا خمیازہ آپ کوبھگتنا پڑے گا خواہ آپ تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی اپنی اس غلط زندگی کو بجائے خود صحیح ہی سمجھتے رہیں۔

پہلے میں جو کچھ بیان کرچکا ہوں اسے ذرا اپنی یاد میں پھر تازہ کرلیجیے۔ خداوند عالم کسی کے بنائے سے خداوند عالم نہیں بنا ہے۔ وہ اس کا محتاج نہیں ہے کہ آپ اس کی خدائی مانیں تو وہ خدا ہو۔ آپ خواہ مانیں یا نہ مانیں وہ تو خود خدا ہے۔ اس کی خدائی خود اپنے زور پر قائم ہے۔ اس نے آپ کو اور اس دنیا کو خود بنایا ہے۔ یہ زمین، یہ چاند اور سورج اور یہ ساری کائنات اسی کے حکم کی تابع ہے۔ اس کائنات میں جتنی قوتیں کام کررہی ہیں سب اسی کے زیرِ حکم ہیں۔ وہ ساری چیزیں جن کے بل پر آپ زندہ ہیں، اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ خود آپ کا اپنا وجود اس کے اختیار میںہے، اس واقعہ کو آپ کسی طرح بدل نہیں سکتے۔ آپ اس کو نہ مانیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس سے آنکھیں بند کرلیں تب بھی یہ واقعہ ہے، آپ اس کے سوا کچھ اور سمجھ بیٹھیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ ان سب صورتوں میں واقعہ کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اس واقعہ کو تسلیم کرکے اپنی وہی حیثیت قبول کرلیں جو اس واقعہ کے اندر دراصل آپ کی ہے تو آپ کی زندگی درست ہوگی۔ آپ کو چین ملے گا، امن ملے گا، اطمینان نصیب ہوگا، اور آپ کی زندگی کی ساری کل ٹھیک چلے گی۔ اور اگر آپ نے واقعہ کے خلاف کوئی اور حیثیت اختیار کی تو انجام وہی ہوگا جو چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ کر قدم باہر نکالنے کا ہوتا ہے۔ چوٹ آپ خود کھائیں گے۔ ٹانگ آپ کی ٹوٹے گی۔ سر آپ کا پھٹے گا۔ تکلیف آپ کو پہنچے گی۔ واقعہ جیسا تھا ویسا ہی رہے گا۔

ہماری صحیح حیثیت

آپ سوال کریں گے کہ اس واقعہ کے مطابق ہماری صحیح حیثیت کیا ہے؟ میں چند لفظوں میں اس کی تشریح کر دیتا ہوں۔ اگر کسی نوکر کو آپ تنخواہ دے کر پال رہے ہوں تو بتایئے اس نوکر کی اصل حیثیت کیا ہے؟ یہی نا کہ آپ کی نوکری بجالائے، آپ کے حکم کی اطاعت کرے، آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے اور نوکری کی حد سے نہ بڑھے۔ نوکر کا کام آخر نوکری کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ آپ اگر افسر ہوں اور کوئی آپ کے ماتحت ہو تو ماتحت کا کام کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ ماتحتی کرے، افسری کی ہوا میں نہ رہے۔ اگر آپ کسی جائیداد کے مالک ہوں تو اس جائیداد میں آپ کی خواہش کیا ہوگی؟ یہی نا کہ اس میں آپ کی مرضی چلے، جو کچھ آپ چاہیں وہی ہو اور آپ کی مرضی کے خلاف پتہ نہ ہل سکے۔ آپ پر اگر کوئی بادشاہی مسلط ہو اور تمام قوتیں اس کے ہاتھ میں ہوں تو ایسی بادشاہی کی موجودگی میں آپ کی حیثیت کیا ہوسکتی ہے؟ یہی نا کہ آپ سیدھی طرح رعیت بن کر رہنا قبول کریں اور شاہی قانون کی فرمانبرداری سے قدم باہر نہ نکالیں۔ بادشاہ کی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے اگر آپ خود اپنی بادشاہی کا دعویٰ کریں گے یا کسی دوسرے کی بادشاہی مان کر اس کے حکم پر چلیں گے تو آپ باغی ہوں گے اور باغی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔

ان مثالوں سے آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس سلطنت میں آپ کی اصل حیثیت کیا ہے؟

آپ کو اس نے بنایا ہے، قدرتی طور پر آپ کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ اپنے بنانے والے کی مرضی پر چلیں۔

آپ کو وہ پال رہا ہے اور اسی کے خزانے سے آپ تنخواہ لے رہے ہیں، آپ کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ آپ اس کے نوکر ہیں۔

آپ کا اور ساری دنیا کا افسر وہ ہے۔ اس کی افسری میں آپ کی حیثیت ماتحتی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی۔

یہ زمین و آسمان سب اس کی جائیداد ہیں۔ اس جائیداد میں اسی کی مرضی چلے گی اور چلنی چاہیے۔ آپ کو یہاں اپنی مرضی چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنی مرضی آپ چلانے کی کوشش کریں گے تو منہ کی کھائیں گے۔

اس سلطنت میں اس کی بادشاہی اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ زمین اور آسمان کے سارے محکمے اس کے قبضے میں ہیں۔ آپ خود چاہے راضی ہوں یا ناراض، بہرحال اس کی رعیت ہیں۔ آپ کی اور کسی انسان کی بھی، خواہ وہ چھوٹا ہوا یا بڑا، کوئی دوسری حیثیت رعیت ہونے کے سوا نہیں ہے۔ اُسی کا قانون اس سلطنت میں قانون ہے اور اُسی کا حکم حکم ہے۔ رعیت میں سے کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں ہے کہ میں ہزمیجسٹی ہوں، یا ہز ہائی نس ہوں، یا ڈکٹیٹر اور خودمختار ہوں۔ نہ کسی شخص یا پارلیمنٹ یا اسمبلی، یا کونسل کو اختیار حاصل ہے کہ اس سلطنت میں خدا کے بجائے خود اپنا قانون بنائے اور خدا کی رعیت سے کہے کہ ہمارے اس قانون کی پیروی کرو۔ نہ کسی انسانی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ خدا کے حکم سے بے نیاز ہوکر خود حکم چلائے اور خدا کے بندوں سے کہے کہ ہمارے اس حکم کی اطاعت کرو۔ نہ کسی انسان یا انسانوں کے کسی گروہ کے لیے یہ جائز ہے کہ اصلی بادشاہ کی رعیت بننے کے بجائے بادشاہی کے جھوٹے مدعیوں میں سے کسی کی رعیت بننا قبول کرے، اصلی بادشاہ کے قانون کو چھوڑ کر جھوٹے قانون سازوں کا قانون تسلیم کرے اور اصلی حکمران سے منہ موڑ کر جھوٹ موٹ کی ان حکومتوں کا حکم ماننے لگے، یہ تمام صورتیں بغاوت کی ہیں، بادشاہی کے اختیارات کا دعویٰ کرنا، یا ایسے کسی مدعی کے دعوے کو قبول کرنا، دونوں حرکتیں رعیت کے لیے بغاوت کا حکم رکھتی ہیں اور اس کی سزا ان دونوں کو ملنی یقینی ہے، خواہ جلدی ملے یا دیر میں۔

آپ کی اور ایک ایک انسان کی پیشانی کے بال خدا کی مٹھی میں ہیں، جب چاہے پکڑ کر گھسیٹ لے۔ زمین اور آسمان کی اس سلطنت میں بھاگ جانے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ آپ اس سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتے۔ مٹی میں مل کر آپ کا ایک ایک ذرہ بھی اگر منتشر ہوجائے، آگ میں جل کر خواہ آپ کی راکھ ہوا میں پھیل جائے، پانی میں بہہ کر خواہ آپ مچھلیوں کی خوراک بنیں یاسمندر کے پانی میں گھل جائیں، ہر جگہ سے خدا آپ کو پکڑلے گا۔ ہوا اس کی غلام ہے، زمین اس کی بندی ہے، پانی اور اس کی مچھلیاں سب اس کے حکم کی تابع ہیں، ایک اشارے پر سب طرف سے آپ پکڑے ہوئے آجائیں گے اور پھر وہ آپ میں سے ایک ایک کو بلا کر پوچھے گا کہ میری رعیت ہوکر بادشاہی (Sovereignty) کا دعویٰ کرنے کا حق تمہیں کہاں سے پہنچ گیا تھا؟ میرے ملک میں اپنا حکم چلانے کے اختیارات تم کہاں سے لائے تھے؟ میری سلطنت میں اپنا قانون جاری کرنے والے تم کون تھے؟ میرے بندے ہوکر دوسروں کی بندگی کرنے پر تم کیسے راضی ہوگئے؟ میرے نوکر ہوکر تم نے دوسروں کا حکم مانا، مجھ سے تنخواہ لے کر دوسروں کو ان داتا اور رازق سمجھا، میرے غلام ہوکر دوسروں کی غلامی کی ‘میری بادشاہی میں رہتے ہوئے دوسروں کے قانون کو قانون سمجھا اور دوسروں کے فرامین کی اطاعت کی ۔ یہ بغاوت کس طرح تمہارے لیے جائز ہوگئی تھی؟ فرمایئے آپ میں سے کسی کے پاس اس الزام کا جواب ہے؟ کون سے وکیل صاحب وہاں اپنے قانونی دائو پیچ سے بچائو کی صورت نکال سکیں گے؟ اور کون سی سفارش پر آپ بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو اس بغاوت کے جرم کی سزا بھگتنے سے بچالے گی؟

ظلم کی وجہ

صاحبو! یہاں صرف حق ہی کا سوال نہیں ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کیا انسان بادشاہی یا قانون سازی یا حکمرانی کا اہل ہوسکتا ہے؟ جیسا کہ ابھی عرض کرچکا ہوں، ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اناڑی شخص جو اس مشینری سے واقف نہ ہو، اسے چلائے گا تو بگاڑ دیگا۔ ذرا کسی ناواقف آدمی سے ایک موٹر ہی چلوا کر دیکھ لیجیے، ابھی آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس حماقت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اب ذرا خود سوچیے کہ لوہے کی ایک مشین کا حال جب یہ ہے کہ صحیح علم کے بغیر اس کو استعمال نہیں کیا جاسکتا تو انسان جس کے نفسیات انتہا درجہ کے پیچیدہ ہیں، جس کی زندگی کے معاملات بے شمار پہلو رکھتے ہیں اور ہر پہلو میں لاکھوں گتھیاں ہیں، اس کی پیچ درپیچ مشینری کو وہ لوگ چلاسکتے ہیں جو دوسروں کو جاننا اور سمجھنا تو درکنار خود اپنے آپ کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے؟ ایسے اناڑی جب قانون ساز بن بیٹھیں گے اور ایسے نادان جب انسانی زندگی کی ڈرائیوری پر آمادہ ہوں گے تو کیا اس کا انجام کسی اناڑی شخص کے موٹر چلانے کے انجام سے کچھ بھی مختلف ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا بنایا ہوا قانون مانا جارہا ہے، اور جہاں خدا کی اطاعت سے بے نیاز ہو کر انسان حکم چلارہے ہیں اور انسان ان کا حکم مان رہے ہیں، وہاں کسی جگہ بھی امن نہیں ہے۔ کسی جگہ بھی آدمی کو چین نصیب نہیں، کسی جگہ بھی انسانی زندگی کی کل سیدھی نہیں چلتی۔ کشت و خون ہورہے ہیں، ظلم اور بے انصافی ہورہی ہے، لوٹ کھسوٹ برپا ہے، آدمی کا خون آدمی چوس رہاہے، اخلاق تباہ ہورہے ہیں، صحتیں برباد ہورہی ہیں، تمام طاقتیں جو خدا نے انسان کو دی تھیں، انسان کے فائدے کے بجائے اس کی تباہی اور بربادی میںصرف ہورہی ہیں۔ یہ مستقل دوزخ جو اسی دنیامیں انسان نے اپنے لیے آپ اپنے ہاتھوں بنالی ہے، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس نے بچوں کی طرح شوق میں آکر اس مشین کو چلانے کی کوشش کی جس کے کل پرزوں سے وہ واقف ہی نہیں۔ اس مشین کو جس نے بنایا ہے وہی اس کے رازوں کو جانتا ہے۔ وہی اس کی فطرت سے واقفیت رکھتا ہے۔ اسی کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ یہ کس طرح صحیح چل سکتی ہے۔ اگر آدمی اپنی حماقت سے باز آجائے اور اپنی جہالت تسلیم کرکے اس قانون کی پابندی کرنے لگے جو خود اس مشین کے بنانے والے نے مقرر کیا ہے، تب تو جو کچھ بگڑا ہے وہ پھر بن سکتا ہے، ورنہ ان مصیبتوں کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔

بے انصافی کیوں ہے؟

آپ ذرا اور گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو جہالت کے سوا اپنی زندگی کے بگاڑ کی ایک اور وجہ بھی نظر آئے گی۔

ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوشحالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوشحالی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی ہے۔ ورنہ ایک خوشحال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوشحال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقہ کی یا ایک قوم کی۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔

فلاح کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟

اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوشحالی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقہ کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے وابستہ ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے، اور نہ ایک کا دشمن دوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک کی طرف مائل اور دوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو ان کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔

اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیر جانبدار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہوسکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کاجواب اثبات میں دینے کی جرات نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے، کوئی دوسرا اس شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دلچسپیاں رکھتا ہے، کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے، ان کمزوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا قانون مانا جاتا ہے اور خدا کے بجائے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔

ان شاہی خاندانوں کو دیکھئے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق، اور وہ اختیارات مخصوص کررکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں، ان کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلہ میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی، کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا یہ جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے‘‘ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں، مگر یہ خدا بن کر سب سے اونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سرجھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوتے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور برے ہر طریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر، اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی عادل کا مقرر کیا ہوا ہوسکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اور مفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بناسکتے ہیں؟

ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھئے، ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھئے، ان جاگیرداروں اور زمینداروں کو دیکھئے، ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھئے، یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انہیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے ۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک، یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین، یہ اونچے ہیں اور دوسرے نیچے، یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے، ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کو جان، مال، عزت و آبرو ہرایک چیز قربان کردی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہوسکتے ہیں؟ کیا ان میںصریح طور پر خود غرضی اور جانبداری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہیں؟

ان حاکم قوموں کو دیکھئے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کون سا قانون اور کون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسان اعلیٰ کہتے ہیں، بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہر حیثیت سے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔

یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں، تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں بلکہ انہیں انسانیت کے درجہ سے گرادینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے ، یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے۔

مجھے بتایئے، کیا اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا برد کردیا جائے، اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کرلیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں، فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔

امن کس طرح قائم ہوسکتا ہے؟

صاحبو! اس معاملہ میں ایک اور پہلو بھی ہے جسے میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ آدمی کو قابو میں رکھنے والی چیز صرف ذمہ داری کا احساس ہی ہے۔ اگر کسی شخص کو یقین ہوجائے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس سے جواب طلب کرنے والا نہیں ہے، اور نہ اس کے اوپر ایسی کوئی طاقت ہے جو اسے سزا دے سکے، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شتر بے مہار بن جائے گا۔ یہ بات جس طرح ایک شخص کے معاملہ میں صحیح ہے اسی طرح ایک خاندان، ایک قوم اور تمام دنیا کے انسانوں کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ ایک خاندان جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے کوئی جواب طلب نہیں کرسکتا تو وہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔ ایک طبقہ بھی جب ذمہ داری اور جواب دہی سے بے خوف ہوجاتا ہے تو دوسروں پر ظلم ڈھانے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ایک قوم یا ایک سلطنت بھی جب اپنے آپ کو اتنا طاقتور پاتی ہے کہ اپنی زیادتی کے کسی برے نتیجہ کا خوف اسے نہیں ہوتا تو وہ جنگل کے بھیڑیے کی طرح کمزور بکریوں کو پھاڑنا شروع کردیتی ہے۔ دنیا میں جتنی بدامنی پائی جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ جب تک انسان اپنے سے بالاتر کسی اقتدار کو تسلیم نہ کرے اور جب تک اسے یقین نہ ہو کہ مجھ سے اوپر کوئی ایسا ہے جس کو مجھے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور جس کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ مجھے سزا دے سکتا ہے، اس وقت تک یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ظلم کا دروازہ بند ہو اور صحیح امن قائم ہوسکے۔

اب مجھے بتایئے کہ ایسی طاقت سوائے خداوند عالم کے اور کون سی ہوسکتی ہے؟ خود انسانوں میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ جس انسان، یا جس انسانی گروہ کو بھی آپ یہ حیثیت دیں گے، خود اس کے شتر بے مہار ہوجانے کا امکان ہے۔ خود اس سے یہ اندیشہ ہے کہ تمام فرعونوں کا ایک فرعون وہ ہوجائے گا اور خود اس سے یہ خطرہ ہے کہ خود غرضی اور جانبداری سے کام لے کر وہ بعض انسانوں کو گرائے گا اور بعض کو اٹھائے گا۔ یورپ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مجلس اقوام بنائی تھی۔ مگر بہت جلدی وہ سفید رنگ والی قوموں کی مجلس بن کر رہ گئی اور اس نے چند طاقتور سلطنتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر کمزور قوموں کے ساتھ بے انصافی شروع کردی۔ اس تجربے کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ سکتا کہ خود انسانوں کے اندر سے کوئی ایسی طاقت برآمد ہونی ناممکن ہے جس کی باز پرس کا خوف فرداً فرداً ایک ایک شخص سے لے کر دنیا کی قوموں اور سلطنتوں تک کو قابو میں رکھ سکتا ہو۔ ایسی طاقت لامحالہ انسانی دائرہ سے باہر اور اس سے اوپر ہی ہونی چاہیے اور وہ صرف خداوند عالم ہی کی طاقت ہوسکتی ہے۔ ہم اگر اپنی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ خدا پر ایمان لائیں، اس کی حکومت کے آگے اپنے آپ کو فرمانبردار رعیت کی طرح سپرد کردیں اور اس یقین کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کریں کہ وہ ہمارے چھپے اور کھلے سب کاموں کو جانتا ہے اور ایک دن ہمیں اس کی عدالت میں اپنی پوری زندگی کے کارنامے کا حساب دینا ہے۔ ہمارے شریف اور پرامن انسان بننے کی بس یہی ایک صورت ہے۔

ایک شبہ

اب میں اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک شبہ کو صاف کردینا ضروری سمجھتا ہوں جو غالباً آپ میں سے ہر ایک کے دل میں پیدا ہورہا ہوگا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب خدا کی حکومت اتنی زبردست ہے کہ خاک کے ایک ذرہ سے لے کر چاند اور سورج تک ہر چیز اس کے قابو میں ہے، اور جب انسان اس کی حکومت میں محض ایک رعیت کی حیثیت رکھتا ہے تو آخر یہ ممکن کس طرح ہوا کہ انسان اس کی حکومت کے خلاف بغاوت کرے اور خود اپنی بادشاہی کا اعلان کرکے اس کی رعیت پر اپنا قانون چلائے؟ کیوں نہیں خدا اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور کیوں اسے سزا نہیں دیتا؟

اس سوال کا جواب میں آپ کو ایک سیدھی سی مثال سے دوں گا۔

فرض کیجیے کہ ایک بادشاہ کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی ضلع کا افسر بناکر بھیجتا ہے۔ ملک بادشاہ ہی کا ہے، رعیت بھی اسی کی ہے، ریل، ٹیلی فون، تار، فوج اور دوسری تمام طاقتیں بھی بادشاہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ بادشاہ کی سلطنت اس ضلع پر چاروں طرف سے اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ اس چھوٹے سے ضلع کا افسر اس کے مقابلہ میں بالکل عاجز ہے۔ اگر بادشاہ چاہے تو اس کو پوری طرح مجبور کرسکتا ہے کہ اس کے حکم سے بال برابر منہ نہ موڑ سکے، لیکن بادشاہ اس افسر کی عقل کا، اس کے ظرف کا اور اس کی لیاقت کا امتحان لینا چاہتا ہے اس لیے وہ اس پر سے اپنی گرفت اتنی ڈھیلی کردیتا ہے کہ اسے اپنے اوپر کوئی بالاتر اقتدار محسوس نہیں ہوتا۔

اب اگر وہ افسر عقل مند، نمک حلال، فرض شناس اور وفادار ہے، تو اس ڈھیلی گرفت کے باوجود اپنے آپ کو رعیت اور ملازم ہی سمجھتا رہے گا۔ بادشاہ کے ملک میں اسی کے قانون کے مطابق حکومت کرے گا اور جو اختیارات بادشاہ نے اسے دیے ہیں انہیں خود بادشاہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا رہے گا۔ اس وفادارانہ طرز عمل سے اس کی اہلیت ثابت ہوگی اور بادشاہ اسے زیادہ بلند مرتبوں کے قابل پاکر ترقیوں پر ترقیاں دیتا چلاجائے گا۔

لیکن فرض کیجیے کہ ایک افسر بیوقوف، نمک حرام، کم ظرف اور شریر ہے اور رعیت کے وہ لوگ جو اس ضلع میں رہتے ہیں، جاہل، بزدل، اور نادان ہیں اپنے اوپر سلطنت کی گرفت ڈھیلی پاکر وہ بغاوت پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس کے دماغ میں خودمختاری کی ہوا بھرجاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کوضلع کا مالک سمجھ کر خود سرا نہ حکومت کرنے لگتا ہے اور جاہل رعیت کے لوگ محض یہ دیکھ کر اس کی خودمختارانہ حکومت تسلیم کرلیتے ہیں کہ تنخواہ یہ دیتا ہے، پولیس اس کے پاس ہے، عدالتیں اس کے ہاتھ میں ہیں، جیل کی ہتھکڑیاں اور پھانسی کے تختے اس کے قبضے میں ہیں، اور ہماری قسمت کو بنانے، یا بگاڑنے کے اختیارات یہ رکھتا ہے۔

بادشاہ اس اندھی رعیت اور اس باغی افسر دونوں کے طرز عمل کو دیکھتا ہے۔ چاہے تو فوراً پکڑ لے اور ایسی سزا دے کہ ہوش ٹھکانے نہ رہیں۔ مگر وہ اس حاکم ضلع اور اس رعیت دونوں کی پوری آزمائش کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ انہیں ڈھیل دیتا چلاجاتا ہے تاکہ جتنی نالائقیاں ان کے اندر بھری ہوئی ہیں، پوری طرح ظاہر ہوجائیں۔ اس کی طاقت اتنی زبردست ہے کہ اسے اس بات کا خوف ہی نہیں ہے کہ یہ افسر کبھی زور پکڑ کر اس کا تخت چھین لے گا۔ اسے اس بات کا بھی کوئی اندیشہ نہیں کہ یہ باغی اور نمک حرام لوگ اس کی گرفت سے نکل کر کہیں بھاگ جائیں گے۔ اس لیے اسے جلد بازی کے ساتھ فیصلہ کردینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ سالہا سال تک ڈھیل دیتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب یہ لوگ اپنی پوری خباثت کا اظہار کرچکتے ہیں اور کوئی کسر اس کے اظہار میں باقی نہیں رہتی، تب وہ ایک روز اپنا عذاب ان پر بھیجتا ہے، اور وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ کوئی تدبیر اس وقت انہیں اس کے عذاب سے نہیں بچاسکتی۔

صاحبو! میں اور آپ اور خدا کے بنائے ہوئے یہ افسر سب کے سب اسی آزمائش میں مبتلا ہیں، ہماری عقل کا، ہمارے ظرف کا، ہماری فرض شناسی کا، ہماری وفاداری کا سخت امتحان ہورہا ہے۔ اب ہم میں سے ہر شخص کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اصلی بادشاہ کا نمک حلال افسر یا رعیت بننا پسند کرتا ہے یا نمک حرام؟ میں نے اپنی جگہ نمک حلالی کا فیصلہ کیا ہے اور میں ہر اس شخض سے باغی ہوں جو خدا سے باغی ہے۔ آپ اپنے فیصلہ میںمختار ہیں چاہیں یہ راستہ اختیار کریں یا وہ۔ ایک طرف وہ نقصانات اور وہ فائدے ہیں جو خدا کے یہ باغی ملازم پہنچاسکتے ہیں، دوسری طرف وہ نقصانات اور وہ فائدے ہیں جو خود خدا پہنچاسکتا ہے۔ دونوں میں سے آپ جس کو انتخاب کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔

مودودیؒ لٹریچر