ہِدایات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یہ وہ تقریر ہے‘ جو اُنہوں نے جماعت کے اجتماعِ عام‘ منعقدہ کراچی کے آخری اجلاس میں‘ ۱۳؍نومبر ۱۹۵۱ء کو بطور امیر جماعت اسلامی پاکستان‘ کی تھی

خطبۂ مسنونہ کے بعد۔۔۔۔۔

رُفقائے عزیز! چار دن کے اجتماع کے بعد‘ اب ہم لوگ ایک دوسرے سے رخصت ہو رہے ہیں۔ جتنا کام اس اجتماع میں کرنا تھا‘ ہم کر چکے ہیں۔۔۔ اور ایک حد تک ہم اس کا جائزہ بھی اپنے اجتماعِ خاص میں لے چکے ہیں۔ اب رخصت ہونے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اپنے رُفقاء سے۔۔۔ ارکان اور متفقین‘ سب سے۔۔۔ خطاب کر کے انہیں وہ ضروری ہدایات دے دوں‘ جو آئندہ اس کام کو صحیح طریقے پر چلانے کے لیے مطلوب ہیں۔

تعلق باﷲ

اولین چیز‘ جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام‘ خلفائے راشدینؓ اور صلحائے اُمت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں‘ وہ اﷲ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے۔ میں نے بھی اسی کے اتباع میں ہمیشہ اپنے رُفقاء کو سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہے اور آئندہ بھی جب کبھی موقع ملے گا‘ اِسی کی نصیحت کرتا رہوں گا۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے‘ جس کو ہر دوسری چیز پر مقدّم ہی ہونا چاہئے۔ عقیدے میں اﷲ پر ایمان مقدم ہے۔ عبادت میں اﷲ سے دل کا لگائو مقدم ہے۔ اخلاق میں اﷲ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اﷲ کی رضا کی طلب مقدم ہے۔۔۔ اور فی الجملہ ہماری ساری زندگی ہی کی درستی کا انحصار اس پر ہے کہ ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و جہد میں رضائے الہٰی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر مقدم ہو۔ پھر خصوصیت کے ساتھ یہ کام‘ جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اٹھے ہیں‘ یہ تو سراسر تعلق باﷲ کے ہی بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اُتنا ہی مضبوط ہو گا‘ جتنا اﷲ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہو گا۔۔۔ اور یہ اتنا ہی کمزور ہو گا جتنا‘ خدانخواستہ‘ اﷲ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہو گا۔

ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے‘ خواہ وہ دنیا کا کام ہو یا دین کا‘ اس کا اصل مُحرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اٹھا ہے۔۔۔ اور اس میں سرگرمی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب اُس غرض کے ساتھ آدمی کی دلچسپی میں گہرائی اور گرم جوشی ہو۔ نفس کے لیے کام کرنے والا‘ خود غرضی کے بغیر نفس پرستی نہیں کر سکتا۔۔۔ اور نفس کی محبت میں جتنی شدت ہوتی ہے‘ اتنی ہی سرگرمی کے ساتھ وہ اس کی خدمت بجا لاتا ہے۔ اولاد کے لیے کام کرنے والا‘ اولاد کی محبت میں دیوانہ ہوتا ہے۔ تب ہی وہ اپنے عیش و آرام کو اولاد کی بھلائی پر قربان کرتا ہے اور اپنی دنیا ہی نہیں‘ اپنی عاقبت تک اس غرض کے لیے خطرے میں ڈال دیتا ہے کہ اُس کے بچے زیادہ سے زیادہ خوش حال ہوں۔ قوم یا وطن کے لیے کام کرنے والا‘ ملک و قوم کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے۔ تب ہی وہ قوم و ملک کی آزادی‘ حفاظت اور برتری کی فکر میں مالی نقصانات اٹھاتا ہے‘ قید و بند کی سختیاں جھیلتا ہے‘ شب و روز کی محنتیں صرف کرتا ہے اور جان تک قربان کر دیتا ہے۔

اب اگر ہم یہ کام نہ اپنے نفس کے لیے کر رہے ہیں‘ نہ کوئی خاندانی غرض اس کا محرک ہے‘ نہ کوئی ملکی و قومی مفاد اس میں ہمارے پیشِ نظر ہے۔۔۔ بلکہ صرف ایک اﷲ کو راضی کرنا ہمیں مطلوب ہے اور اُسی کا کام سمجھ کر ہم نے اِسے اختیار کیا ہے‘ تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک اﷲ سے ہی ہمارا تعلق گہرا اور مضبوط نہ ہو‘ یہ کام کبھی نہیں چل سکتا۔ اس میں سرگرمی آ سکتی ہے تو اُسی وقت جب کہ ہماری ساری رغبتیں اِعلائے کلمۃ اﷲ کی سعی میں مرکوز ہو جائیں۔ اس کام میں جو لوگ شریک ہوں‘ ان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ ان کا تعلق اﷲ سے بھی ہو‘ بلکہ ان کا تعلق اﷲ سے ہی ہونا چاہئے۔ اِسے تعلقات میں سے ایک تعلق نہیں‘ بلکہ ایک ہی اصلی اور حقیقی تعلق ہونا چاہئے۔ انہیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہنی چاہئے کہ اﷲ سے اُن کا تعلق گھٹے نہیں‘ بلکہ روز بروز بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا جائے۔

اس معاملہ میں ہمارے درمیان دو رائیں نہیں ہیں کہ تعلق باﷲ ہی ہمارے اِس کام کی جان ہے۔ جماعت کا کوئی رفیق‘ الحمدﷲ کہ اس کی اہمیت کے احساس سے غافل نہیں ہے۔ البتہ جو سوالات اکثر لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں‘ وہ یہ ہیں کہ تعلق باﷲ سے ٹھیک مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اور آخر کس طرح یہ معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اﷲ سے ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کتنا ہے؟

میں نے اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ ان سوالات کا کوئی واضح جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گویا اپنے آپ کو ایک بے نشان صحرا میں پا رہے ہیں‘ جہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ان کی منزلِ مقصود ٹھیک کس سمت میں ہے۔۔۔ اور کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا راستہ طے کیا اور اب کس مرحلے میں ہیں اور آگے کتنے مراحل باقی ہیں۔ اِسی وجہ سے بسا اوقات ہمارا کوئی رفیق مبہم تصورات میں گم ہونے لگتا ہے۔ کوئی ایسے طریقوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے‘ جو مُوصِل اِلی المقصود نہیں ہیں۔ کسی کے لیے مقصود سے قریب کا تعلق اور دور کا تعلق رکھنے والی چیزوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو رہا ہے اور کسی پر حیرت کا عالم طاری ہے۔ اس لیے آج میں صرف تعلق باﷲ کی نصیحت پر ہی اکتفا نہ کروں گا‘ بلکہ اپنے علم کی حد تک اِن سوالات کا بھی ایک واضح جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

تعلق باﷲ کے معنی

تعلق باﷲ سے مراد‘ جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے‘ یہ ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا اور اُس کی عبادتیں اور قربانیاں سب کی سب اﷲ کے لیے ہوں۔

قُلْ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (انعام: ۱۶۲)

(کہو! بے شک میری نمازاور میری قربانی‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔)

۔۔۔اور وہ پوری طرح یکسو ہو کر‘ اپنے دین کو بالکل اﷲ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرے۔

وَمَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ۔۔۔۔۔ (البینۃ: ۵)

(اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اﷲ کی بندگی کریں‘ اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے‘ بالکل یکسو ہو کر۔)

نبیﷺ نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اِس تعلق کی ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ حضورﷺ کے بیانات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باﷲ کے معنی ہیں:

خَشْیَۃُ اﷲِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ

(کھلے اور چھپے ہر کام میں اﷲ کا خوف محسوس کرنا۔)

اور یہ کہ:

اَنْ تَکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیِ اﷲِ اَوْثَقُ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ

(اپنے ذرائع و وسائل کی بہ نسبت تیرا بھروسہ اﷲ کی قدرت پر زیادہ ہو۔)

اور یہ کہ:

مَنِ التَّمَسَ رِضٰی اﷲِ بِسَخَطِ النَّاسِ

(آدمی اﷲ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر لے۔)

جس کے بالکل برعکس حالت یہ ہے کہ آدمی لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اﷲ کی ناراضی مول لے۔ (مَنِ التَّمَسَ رِضٰی النَّاسِ بِسَخَطِ اﷲِ)۔

پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ جائے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا‘ جو کچھ بھی ہو اﷲ کے لیے اور اﷲ کی خاطر ہو‘ اور نفسانی رغبت و نفرت کی لاگ اس کے ساتھ لگی نہ رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے تعلق باﷲ کی تکمیل کر لی:

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ۔

(جس نے اﷲ کے لیے دوستی کی اور اﷲ کے لیے دشمنی کی اور اﷲ کے لیے دیا اور اﷲ کے لیے روکا‘ اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔)

پھر یہ جو آپ ہر روز رات کو اپنی دعائے قنوت میں پڑھتے ہیں‘ اس کا لفظ لفظ اس تعلق کی نشاندہی کرتا ہے جو آپ کا اﷲ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اس کے الفاظ پر غور کیجئے اور دیکھتے جائیے کہ آپ ہر رات اپنے اﷲ کے ساتھ کس قسم کا تعلق رکھنے کا اقرار کیا کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیْکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلُّہٗ۔ وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَط اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ۔

(خدایا! ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘ تجھی سے رہنمائی طلب کرتے ہیں‘ تجھی سے معافی چاہتے ہیں‘ تجھی پر ایمان لاتے ہیں‘ تیرے ہی اوپر بھروسہ رکھتے ہیں اور ساری تعریفیں تیرے ہی لیے مخصوص کرتے ہیں۔ ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں‘ ناشکری نہیں کرتے۔ ہم ہر اُس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق توڑ لیں گے جو تیری نافرمانی کرے۔ خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں‘ تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اور سجدہ بجا لاتے ہیں‘ اور ہماری ساری جدوجہد اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کے لیے ہے۔ ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یقینا تیرا سخت عذاب اُن لوگوں پر پڑنے والا ہے جو کافر ہیں۔)

پھر اِسی تعلق باﷲ کی تصویر اُس دعا میں پائی جاتی ہے جو نبیﷺ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں آپﷺ اﷲ کو خطاب کر کے کہتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیْکَ حَاکَمْتُ۔

(خدایا! میں تیرا ہی مطیع فرمان ہوا اور تجھی پر ایمان لایا اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا‘ اور تیری ہی وجہ سے میں لڑا اور تیرے ہی حضور اپنا مقدمہ لایا۔)

تعلق باﷲ کو بڑھانے کا طریقہ

یہ ہے ٹھیک ٹھیک نوعیت اُس تعلق کی‘ جو ایک مومن کا اﷲ سے ہونا چاہئے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اس تعلق کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔

اِس کو پیدا کرنے کی صورت صرف ایک ہے‘ اور وہ یہ کہ آدمی سچے دل سے اﷲ وحدہٗ لاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک‘ معبود اور حاکم تسلیم کرے۔ الٰہیت کی تمام صفات اور حقوق اور اختیارات کو اﷲ کے لیے مخصوص مان لے اور اپنے قلب کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کر دے۔ یہ کام جب آدمی کر لیتا ہے تو اﷲ سے اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔

رہا اس تعلق کی نشوونما‘ تو وہ دو طریقوں پر منحصر ہے۔ ایک فکر و فہم کا طریقہ‘ اور دوسرا عمل کا طریقہ۔

فکر و فہم کے طریقے سے اﷲ کے ساتھ تعلق بڑھانے کی صورت یہ ہے کہ آپ قرآن مجید اور احادیثِ صحیحہ کی مدد سے اُن نسبتوں کو تفصیل کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھیں جو آپ کے اور خدا کے درمیان فطرۃً ہیں اور بالفعل ہونی چاہئیں۔ اِن نسبتوں کا ٹھیک ٹھیک احساس و ادراک اور ذہن میں ان کا اِستحضار صرف اِسی طریقے سے ممکن ہے کہ آپ قران اور حدیث کو سمجھ کر پڑھیں‘ اور بار بار اِس مطالعے کی تکرار کرتے رہیں۔۔۔ اور ان کی روشنی میں جو نسبتیں آپ کے اور خدا کے درمیان معلوم ہوں‘ ان پر غور و فکر کر کے‘ اور اپنی حالت کا جائزہ لے کر دیکھتے رہیں کہ ان میں سے کس کس نسبت کو آپ نے بالفعل قائم کر رکھا ہے؟ کہاں تک اس کے تقاضے آپ پورے کر رہے ہیں؟ اور کس کس پہلو میں کیا کیا کمی آپ محسوس کرتے ہیں؟ یہ احساس اور اِستحضار جتنا جتنا بڑھے گا‘ ان شاء اﷲ اسی تناسب کے ساتھ اﷲ سے آپ کا تعلق بھی بڑھے گا۔

مثال کے طور پر ایک نسبت آپ کے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان یہ ہے کہ آپ عبد ہیں اور وہ آپ کا معبود ہے۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ زمین پر اس کے خلیفہ ہیں اور اس نے اپنی بے شمار امانتیں آپ کے سپرد کر رکھی ہیں۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ ایمان لا کر اس کے ساتھ ایک بیع کا معاہدہ طے کر چکے ہیں‘ جس کے مطابق آپ نے اپنی جان و مال اس کے ہاتھ بیچی ہے‘ اور اس نے جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ چوتھی نسبت آپ کے اور اس کے درمیان یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے جوابدہ ہیں‘ اور وہ آپ کا حساب صرف آپ کے ظاہر کے ہی لحاظ سے لینے والا نہیں ہے‘ بلکہ آپ کی جملہ حرکات و سکنات‘ بلکہ آپ کی نیّتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہو رہا ہے۔ غرض یہ اور دوسری بہت سی نسبتیں ایسی ہیں جو آپ کے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان موجود ہیں۔ بس انہی نسبتوں کو سمجھنے‘ محسوس کرنے‘ یاد رکھنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے پر اﷲ کے ساتھ آپ کے تعلق کا بڑھنا اور اس سے قریب تر ہونا موقوف ہے۔ جس قدر آپ ان سے غافل ہوں گے‘ اﷲ سے آپ کا تعلق اتنا ہی کمزور ہو گا اور جس قدر زیادہ ان سے خبردار اور ان کی طرف متوجہ رہیں گے‘ اسی قدر آپ کا تعلق گہرا اور مضبوط ہوگا۔

لیکن یہ فکری طریقہ اُس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا‘ بلکہ زیادہ دیر تک نباہا بھی نہیں جا سکتا‘ جب تک کہ عملی طریقے سے اس کو مدد اور قوت نہ پہنچائی جائے۔۔۔ اور وہ عملی طریقہ ہے احکامِ الہٰی کی مخلصانہ اطاعت‘ اور ہر اُس کام میں جان لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس کے متعلق آدمی کو معلوم ہو جائے کہ اس میں اﷲ کی رضا ہے۔ احکامِ الہٰی کی مخلصانہ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اﷲ نے حکم دیا ہے‘ ان کو بادلِ نخواستہ نہیں‘ بلکہ اپنے دل کی رغبت اور شوق کے ساتھ‘ خفیہ اور اعلانیہ انجام دیں۔۔۔ اور اس میں کسی دُنیوی غرض کو نہیں‘ بلکہ صرف اﷲ کی خوشنودی کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔۔۔ اور جن کاموں سے اﷲ نے روکا ہے‘ ان سے قلبی نفرت و کراہت کے ساتھ‘ خفیہ اور اعلانیہ پرہیز کریں۔۔۔ اور اس پرہیز کا محرک کوئی دنیوی نقصان کا خوف نہیں‘ بلکہ اﷲ کے غضب کا خوف ہو۔ یہ طرزِ عمل آپ کو تقویٰ کے مقام پر پہنچا دے گا۔

اس کے بعد دوسرا طرزِ عمل آپ کو احسان کی منزل پر پہنچائے گا‘ یعنی یہ کہ آپ دنیا میں ہر اُس بھلائی کو فروغ دینے کی کوشش کریں جسے اﷲ پسند فرماتا ہے‘ اور ہر اُس برائی کو دبانے کی کوشش کریں جسے اﷲ ناپسند فرماتا ہے۔۔۔ اور اس کوشش میں جان‘ مال‘ وقت‘ محنت‘ اور دل و دماغ کی قابلیت‘ غرض کسی چیز کے قربان کرنے میں بھی بخل سے کام نہ لیں۔ پھر اس راہ میں جو قربانی بھی آپ کریں اس پر کوئی فخر آپ کے دل میں پیدا نہ ہو‘ نہ یہ خیال کبھی آپ کے دل میں آئے کہ آپ نے کسی پر احسان کیا ہے۔۔۔ بلکہ بڑی سے بڑی قربانی کر کے بھی آپ یہی سمجھتے رہیں کہ آپ کے خالق کا جو حق آپ پر تھا وہ پھر بھی ادا نہیں ہو سکا ہے۔

تعلق باﷲ کی افزائش کے وسائل

اس طرزِ عمل کو اختیار کرنا درحقیقت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے۔ اور یہ طاقت جن تدبیروں سے آدمی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے‘ وہ یہ ہیں:

۱۔ نماز۔۔۔ نہ صرف فرض اور سنت‘ بلکہ حسبِ استطاعت نوافل بھی۔ مگر یاد رکھیے کہ نوافل زیادہ سے زیادہ اِخفاء کے ساتھ پڑھنے چاہئیں‘ تاکہ اﷲ سے آپ کا ذاتی تعلق نشوونما پائے اور اخلاص کی صفت آپ میں پیدا ہو۔ نفل خوانی کا اور خصوصاً تہجد خوانی کا اظہار‘ بسا اوقات ایک خطرناک قسم کی رِیا اور کِبر انسان میں پیدا کر دیتا ہے جو نفسِ مومن کے لیے سخت مہلک ہے۔ یہی نقصانات دوسرے نوافل اور صدقات اور اذکار کے اظہار و اعلان میں بھی پائے جاتے ہیں۔

۲۔ ذکرِ الہٰی۔۔۔ جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہئے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیاء کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کئے یا دوسروں سے لیے۔ بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبیﷺ نے اختیار فرمایا اور صحابہ کرام کو سکھایا۔ آپ حضورﷺ کے تعلیم کردہ اذکار اور دعائوں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں‘ یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجئے اور معانی کے اِستحضار کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً پڑھتے رہا کیجئے۔ یہ اﷲ کی یاد تازہ رکھنے اور اﷲ کی طرف دل کی توجہ مرکوز رکھنے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔

۳۔ روزہ۔۔۔ نہ صرف فرض‘ بلکہ نفل بھی۔ نفل روزوں کی بہترین اور معتدل ترین صورت یہ ہے کہ ہر مہینے تین دن کے روزوں کا التزام کر لیا جائے۔ ان ایام میں خاص طور پر تقویٰ کی اُس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جسے قرآن مجید روزے کی اصل خاصیت بتاتا ہے۔

۴۔ اِنفاق فی سبیل اﷲ۔۔۔ نہ صرف فرض‘ بلکہ نفل بھی‘ جہاں تک آدمی کی استطاعت ہو۔ اس معاملہ میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اصل چیز مال کی وہ مقدار نہیں ہے جو آپ خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں‘ بلکہ اصل چیز وہ قربانی ہے جو اﷲ کی خاطر آپ نے کی ہو۔ ایک غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کی راہ میں ایک پیسہ صرف کرے تو وہ اﷲ کے ہاں اُس ایک ہزار روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی دولت مند نے اپنی آسائشوں کا دسواں یا بیسواں حصہ قربان کر کے دیا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ صدقہ اُن اہم ترین ذرائع میں سے ہے جو تزکیۂ نفس کے لیے اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے بتائے ہیں۔ آپ اس کے اثرات کا تجربہ کر کے اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر آپ سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو آپ صرف نادم ہونے اور توبہ کرنے پر اکتفا کریں۔۔۔ اور دوسری مرتبہ اگر کسی لغزش کا صدور ہو تو آپ توبہ کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ صدقہ بھی کریں۔ دونوں حالتوں کا موازنہ کر کے آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ توبہ کے ساتھ صدقہ‘ آدمی کے نفس کو زیادہ پاک اور بُرے مَیلانات کے مقابلے کے لیے زیادہ مستعد کرتا ہے۔

یہ وہ سیدھا سادا ’’سلوک‘‘ ہے جو قرآن اور سنت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس پر اگر آپ عمل کریں تو ریاضتوں اور مجاہدوں اورمراقبوں کے بغیر ہی آپ۔۔۔ اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اور اپنے سارے دنیوی کاروبار انجام دیتے ہوئے۔۔۔ خدا سے اپنا تعلق بڑھا سکتے ہیں۔

تعلق باﷲ کو ناپنے کا پیمانہ

اس کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیوں کر یہ معلوم کریں کہ اﷲ کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا ہے؟ اور ہمیں کیسے پتا چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامت کے ظہور‘ اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب میں ہی رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں‘ ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کا‘ اپنے اوقات کا‘ اپنی مساعی کا اور اپنے جذبات کا جائزہ لیجئے۔ اپنا حساب آپ لے کر دیکھئے کہ ایمان لا کر اﷲ سے بَیع کا جو معاہدہ آپ کر چکے ہیں‘ اسے آپ کہاں تک نباہ رہے ہیں؟ اﷲ کی امانتوں میں آپ کا تصرف ایک امین ہی کا سا تصرف ہے یا کچھ خیانت بھی پائی جاتی ہے؟ آپ کے اوقات اور محنتوں اور قابلیتوں اور اموال کا کتنا حصہ خدا کے کام میں جا رہا ہے اور کتنا دوسرے کاموں میں؟ آپ کے اپنے مفاد اور جذبات پر چوٹ پڑے تو آپ کے غصے اور بے کلی کا کیا حال ہوتا ہے اور جب خدا کے مقابلے میں بغاوت ہو رہی ہو تو اسے دیکھ کر آپ کے دل کی کڑھن اور آپ کے غضب اور بے چینی کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ یہ اور دوسرے بہت سے سوالات ہیں جو آپ خود اپنے نفس سے کر سکتے ہیں‘ اور اس کا جواب لے کر ہر روز معلوم کر سکتے ہیں کہ اﷲ سے آپ کا کوئی تعلق ہے یا نہیں‘ اور ہے تو کتنا ہے ‘ اور اس میں کمی ہو رہی ہے یا اضافہ ہو رہا ہے۔

رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انوار و تجلّیّات‘ تو آپ ان کے اکتساب کی فکر میں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر میں توحید کی حقیقت کو پالینے سے بڑا کوئی کشف نہیں ہے۔ شیطان اور اس کی ذُرِّیَّت کے دلائے ہوئے ڈراووں اور لالچوں کے مقابلے میں راہِ راست پر قائم رہنے سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ کفر و فسق اور ضلالت کے اندھیروں میں حق کی روشنی دیکھنے اور اس کا اتباع کرنے سے بڑا کوئی مشاہدۂ انوار نہیں ہے۔۔۔ اور مومن کو اگر کوئی سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے تو وہ اﷲ کو رب مان کر اس پر جم جانے اور ثابت قدمی کے ساتھ اُس کی راہ پر چلنے سے ملتی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo (حٰم السجدہ: ۳۰)

(جن لوگوں نے کہا کہ اﷲ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘ یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو‘ نہ غم کرو‘ اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے‘ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔)

ترجیح آخرت

تعلق باﷲ کے بعد دوسری چیز جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر حال میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیجئے اور اپنے ہر کام میں آخرت کی فوز و فلاح کو مقصود بنائیے۔

قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے اور دنیا کی اِس عارضی قیام گاہ میں ہم صرف اس امتحان کے لیے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دیئے ہوئے تھوڑے سے سروسامان‘ تھوڑے سے اختیارات‘ اور گِنے چُنے اوقات و مواقع میں کام کر کے ہم میں سے کون اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستقل آباد کار بننے کے لیے موزوں ثابت کرتا ہے۔ یہاں جس چیز کا امتحان ہم سے لیا جا رہا ہے‘ وہ یہ نہیں ہے کہ ہم صنعتیں اور تجارتیں اور کھیتیاں اورسلطنتیں چلانے میں کیا کمالات دکھاتے ہیں اور عمارتیں اور سڑکیں کیسی اچھی بناتے ہیں‘ اور ایک شاندار تمدن پیدا کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ سارا امتحان صرف اس امر کا ہے کہ ہم خدا کی دی ہوئی امانتوں میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرنے کی کتنی قابلیت رکھتے ہیں؟ باغی اور خود مختار بن کر رہتے ہیں یا مطیع و فرماں بردار بن کر؟ خدا کی دنیا کو خدائی معیار کے مطابق سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں یا بگاڑنے کی؟ اور خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کش مکش اور مقابلہ کرتے ہیں یا ان کے آگے سِپر ڈال دیتے ہیں؟

جنت میں آدم و حوا علیہما السلام کا جو پہلا امتحان ہوا تھا‘ وہ دراصل اسی امر میں تھا۔۔۔ اور آخرت میں جنت کی مستقل آبادی کے لیے بنی نوعِ انسانی کے افراد کا جو انتخاب ہو گا وہ بھی اسی فیصلہ کن سوال پر ہو گا۔ پس کامیابی و ناکامی کا اصل معیار یہ نہیں ہے کہ امتحان دینے کے دوران میں کس نے تختِ شاہی پر بیٹھ کر امتحان دیا اور کس نے تختۂ دار پر‘ کس کی آزمائش ایک سلطنتِ عظیم دے کر کی گئی اور کسے ایک جھونپڑی میں آزمایا گیا۔ امتحان گاہ کے یہ وقتی اور عارضی حالات اگر اچھے ہوں تو یہ فوز و فلاح کی دلیل نہیں‘ اور بُرے ہوں تو یہ خائب و خاسِر رہ جانے کے ہم معنی نہیں۔ اصل کامیابی‘ جس پر ہمیں نگاہ جمائے رکھنی چاہئے‘ یہ ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس جگہ بھی ہم بٹھائے گئے ہوں اور جو کچھ بھی دے کر ہمیں آزمایا گیا ہو‘ اس میں ہم اپنے آپ کو خدا کا وفادار بندہ اور اس کی مرضیّات کا مُتّبع ثابت کریں تاکہ آخرت میں ہم کو وہ پوزیشن ملے جو خدا نے اپنے وفادار بندوں کے لیے رکھی ہے۔

حضرات! یہ ہے اصل حقیقت۔ مگر یہ ایسی حقیقت ہے جسے محض ایک دفعہ سمجھ لینا اور مان جانا کافی نہیں‘ بلکہ اِسے ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کی سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ورنہ ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ ہم آخرت کے منکر نہ ہونے کے باوجود‘ دنیا میں اُس طریقے پر کام کرنے لگیں جو آخرت کو بھول کر اور دنیا کو مقصود بنا کر کام کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت ایک غیرمحسوس چیز ہے جو مرنے کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اِس دنیا میں ہم اُس کا اور اُس کے اچھے برے نتائج کا ادراک صرف ذہنی توجہ سے ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا ایک محسوس چیز ہے‘ جو اپنی تلخیاں اورشیرینیاں ہر وقت ہمیں چکھاتی رہتی ہے اور جس کے اچھے اور برے نتائج ہر آن ہمارے سامنے آ کر ہمیں یہ دھوکا دیتے رہتے ہیں کہ اصل نتائج بس یہی ہیں۔ آخرت بگڑے تو اس کی تھوڑی بہت تلخی ہمیں صرف ایک دل کے چھپے ہوئے ضمیر میں محسوس ہوتی ہے‘ بشرطیکہ وہ زندہ ہو۔ مگر دنیا بگڑے تو اس کی چبھن ہمارا رونگٹا رونگٹا محسوس کرتا ہے اور ہمارے بال بچے‘ عزیز و اقارب‘ دوست آشنا اور سوسائٹی کے عام لوگ‘ سب مل جل کر اسے محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ اسی طرح آخرت سنورے تو اس کی کوئی ٹھنڈک ہمیں ایک گوشۂ دل کے سوا کہیں محسوس نہیں ہوتی‘ اور وہاں بھی صرف اس صورت میں محسوس ہوتی ہے کہ جب غفلت نے دل کے اُس گوشے کو سُن نہ کر دیا ہو۔ مگر اپنی دنیا کا سنوار ہمارے پورے وجود کے لیے لذت بن جاتا ہے‘ ہمارے تمام حواس اس کو محسوس کرتے ہیں اور ہمارا سارا ماحول اس کے احساس میں شریک ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کو بطور ایک عقیدے کے مان لینا چاہے مشکل نہ ہو‘ مگر اسے اندازِ فکر اور اخلاق و اعمال کے پورے نظام کی بنیاد بنا کر زندگی بھر کام کرنا سخت مشکل ہے۔۔۔ اور دنیا کو زبان سے ہیچ کہہ دینا چاہے کتنا ہی آسان ہو‘ مگر دل سے اس کی محبوبیت اور خیال سے اس کی مطلوبیت کو نکال پھینکنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ کیفیت بڑی کوشش سے حاصل ہوتی ہے اور پیہم کوشش کرتے رہنے سے قائم رہ سکتی ہے۔

فکرِ آخرت کی تربیت کے ذرائع

آپ پوچھیں گے کہ یہ کوشش ہم کیسے کریں اور کن چیزوں سے اس میں مدد لیں؟ میں عرض کروں گا کہ اس کے بھی دو طریقے ہیں۔ ایک فکری طریقہ اور دوسرا عملی طریقہ۔

فکری طریقہ یہ ہے کہ آپ صرف اٰمَنْتُ بِالْیَوْمِ الآخِر کہہ دینے پر اکتفا نہ کریں‘ بلکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں‘ جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالَم، دنیا کے اِس پردے کے پیچھے‘ یقین کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ قرآن کا شاید کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں کسی نہ کسی ڈھنگ سے آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جگہ جگہ آپ کو اس میں عالمِ آخرت کا نقشہ ایسی تفصیل کے ساتھ ملے گا کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ بلکہ بہت سے مقامات پر تو یہ نقشہ کشی ایسے عجیب طریقے سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو وہاں پہنچا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے اور بس اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ اِس مادی دنیا کا دھندلا سا پردہ ذرا سامنے سے ہٹ جائے تو آدمی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لے جو الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ پس قرآن کو بِالاِلتزام سمجھ کر پڑھتے رہنے سے بتدریج آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہو سکتی ہے کہ اس کے ذہن پر آخرت کا خیال مسلط ہو جائے اور وہ ہر وقت یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی مستقل قیام گاہ موت کے بعد کا عالَم ہے‘ جس کی اُسے دنیا کی اِس عارضی زندگی میں تیاری کرنی ہے۔

اس ذہنی کیفیت کو مزید تقویت حدیث کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے‘ جس میں بار بار زندگی بعدالموت کے حالات بالکل ایک چشم دید مشاہدے کی شان سے آدمی کے سامنے آتے ہیں‘ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کس طرح ہر وقت آخرت کے یقین سے معمور رہتے تھے۔

پھر اس کیفیت کو راسخ کرنے میں مزید مدد زیارتِ قبور سے ملتی ہے‘ جس کی واحد غرض نبی اکرمﷺ نے یہ بتائی ہے کہ آدمی کو اپنی موت یاد رہے اور وہ دنیا کی اِس متاعِ غرور کے ساتھ مشغول رہتے ہوئے‘ اس بات کو نہ بھول جائے کہ آخرکار اُسے جانا وہیں ہے جہاں سب گئے ہیں اور روز چلے جا رہے ہیں۔ البتہ یہ خیال رہے کہ اس غرض کے لیے وہ مزارات سب سے کم مفید ہیں‘ جنہیں آج بگڑے ہوئے لوگوں نے حاجت روائی و مشکل کشائی کے مراکز بنا رکھا ہے۔ ان کے بجائے آپ گورِ غریباں کی زیارت کر کے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ یا پھر بادشاہوں کے اُن عالی شان مقبروں کو دیکھ کر‘ جن کے آس پاس کہیں کوئی حاجب و دربان ادب قاعدے سکھانے والا نہیں ہے۔

اس کے بعد عملی طریقے کو لیجئے۔ آپ کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنی گھریلو زندگی میں‘ اپنے محلے اور اپنی برادری کی زندگی میں‘ اپنے حلقۂ احباب اور حلقۂ تعارف میں‘ اپنے شہر اور اپنے ملک کے معاملات میں‘ اپنے لین دین اور اپنی معاش کے کاموں میں‘ غرض ہر طرف ہر آن‘ قدم قدم پر ایسے دوراہے ملتے ہیں‘ جن میں سے ایک راستے کی طرف جانا ایمان بالاخرۃ کا تقاضا ہوتا ہے اور دوسرے کو اختیار کرنا دنیا پرستی کا تقاضا۔ ایسے ہر موقع پر پوری کوشش کیجئے کہ آپ کا قدم پہلے راستے کی طرف ہی بڑھے اور اگر نفس کی کمزوری سے یا غفلت کی وجہ سے کبھی دوسرے راستے پر آپ چل نکلے ہوں‘ تو ہوش آتے ہی پلٹنے کی کوشش کیجئے‘ خواہ کتنی ہی دور پہنچ چکے ہوں۔ پھر وقتاً فوقتاً اپنا حساب لے کر دیکھتے رہئے کہ کتنے مواقع پر دنیا آپ کو کھینچنے میں کامیاب ہوئی‘ اور کتنی بار آپ آخرت کی طرف کھنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جائزہ آپ کو خود ہی ناپ تول کر بتاتا رہے گا کہ آپ کے اندر فکرِ آخرت نے کتنا نشوونما پایا‘ اور ابھی کتنی کچھ کمی آپ کو پوری کرنی ہے۔ جس قدر کمی آپ خود محسوس کریں‘ اُسے خود ہی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بیرونی مدد آپ کو زیادہ سے زیادہ بہم پہنچ سکتی ہے‘ تو اس طرح پہنچ سکتی ہے کہ دنیا پرست لوگوں کی صحبت سے بچیں اور ایسے صالح لوگوں سے ربط ضبط بڑھائیں جو آپ کے علم میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں۔ مگر یاد رکھئے کہ آج تک کوئی ذریعہ ایسا دریافت نہیں ہو سکا ہے جو آپ کے اندر خود آپ کی اپنی کوشش کے بغیر‘ کسی صفت کو گھٹا سکے یا بڑھا سکے‘ یا ایسی کوئی نئی صفت آپ میں پیدا کر سکے جس کا مادہ آپ کی طبیعت میں موجود نہ ہو۔

بے جا پِندار سے اِحتراز

تیسری بات جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ پچھلے چند سال کی پیہم کوشش سے جو کچھ بھی اصلاح آپ کی انفرادی سیرت‘ آپ کے اجتماعی اخلاق اور آپ کے جماعتی نظم میں رونما ہوئی ہے‘ اس پر فخر کا جذبہ آپ کے دل میں ہرگز پیدا نہ ہو۔ آپ فرداً فرداً اور من حیث الجماعت‘ کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں کہ ہم اب کامل ہو گئے ہیں‘ جو کچھ بننا تھا بن چکے ہیں‘ کوئی مزید کمالِ مطلوب ایسا نہیں رہا ہے جو ہمیں حاصل کرنا ہو۔

مجھے اور جماعت کے دوسرے ذمہ دار لوگوں کو بسا اوقات ایک فتنے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایک زمانے سے بکثرت لوگ جماعت اسلامی کی۔۔۔ اور دراصل اس تحریک کی‘ جس کے لیے یہ جماعت کام کرنے اٹھی ہے۔۔۔ قدر گھٹانے کے لیے یہ مشہور کر رہے ہیں کہ یہ جماعت تو محض ایک سیاسی جماعت ہے‘ عام سیاسی پارٹیوں کی طرح کام کر رہی ہے‘ اس میں تزکیۂ نفس اور روحانیت کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے‘ اس میں تعلق باﷲ اور فکرِ آخرت کا فقدان ہے‘ اس کے چلانے والے خود بے پِیرے ہیں‘ نہ انہوں نے کسی سلسلۂ خانقاہی سے تقویٰ اور احسان کی تربیت پائی ہے‘ نہ ان کے رفقاء کو اس طرح کی کوئی تربیت ملنے کا امکان ہے۔

یہ باتیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں میں اور اس سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں بددلی پھیلے اور وہ پھر پلٹ کر انہی آستانوں سے وابستہ ہو جائیں جہاں آج تک ’’اسلام زیرِ سایۂ کفر‘‘ کی کسی نہ کسی جزوی خدمت کو ہی بڑی سے بڑی چیز سمجھا جاتا رہا ہے‘ جہاں پورے دین کو بحیثیت ایک نظامِ زندگی کے قائم اور غالب کرنے کا تخیل سرے سے موجود ہی نہیں رہا ہے۔۔۔ بلکہ جہاں یہ تخیل اگر پیش کیا بھی گیا ہے تو ہر طرح کی سخن سازیوں سے اس کو ایک غیر دینی تخیل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے یوں مطعون کیا گیا ہے کہ گویا کفر و فِسق کے مقابلے میں اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی فکر سراسر ایک دنیا پرستانہ فکر ہے۔ اس حالت میں ہم کو مجبوراً خانقاہی تزکیۂ نفس اور اسلامی تزکیۂ نفس کا فرق واضح کرنا پڑتا ہے‘ اور یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ حقیقی تقویٰ اور احسان کیا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے‘ اور وہ ٹکسالی تقویٰ اور احسان کیا چیز ہے جس کی تربیت ہمارے ہاں فنِ دینداری کے ماہرین دیا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں جماعتِ اسلامی کے طریقِ اصلاح و تربیت اور اس کے نتائج بھی کھول کر بیان کرنے پڑتے ہیں تاکہ ایک صحیح دینی حس رکھنے والا آدمی خود ہی محسوس کرے کہ جماعت اسلامی کا اثر قبول کرنے کے بعد ابتدائی مرحلے میں ہی انسان کے اندر تقویٰ اور احسان کی جو حقیقی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے‘ وہ عمر بھر تزکیۂ نفس کی تربیت پانے بلکہ تربیت دینے والوں میں بھی نظر نہیں آتی۔

یہ باتیں ہمیں مجبوراً اپنے معترضین کی بے انصافیوں کی وجہ سے کہنی پڑتی ہیں۔ اپنی مدافعت کے لیے نہیں‘ بلکہ تحریکِ اسلامی کو بچانے کی خاطر کہنی پڑتی ہیں۔ لیکن انہیں کہتے وقت ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ کہیں یہ باتیں ہمارے اندر اور ہمارے رفیقوں کے اندر عُجب و غرور اور اپنی کاملیّت کی غلط فہمی نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے کہ اگر خدانخواستہ یہ جھوٹا پِندار ہمارے اندر پیدا ہوگیا تو ہم نے آج تک جو کچھ حاصل کیا ہے وہ بھی کھو بیٹھیں گے۔

اس خطرے سے بچنے کے لیے میں چاہتا ہوں کہ تین حقیقتیں آپ اچھی طرح سمجھ لیں اور انہیں کبھی فراموش نہ کریں:

پہلی بات یہ ہے کہ کمال ایک لامتناہی چیز ہے‘ جس کی آخری حد ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ آدمی کا کام یہ ہے کہ پیہم اس کی بلندیوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہے اور کسی مقام پر بھی پہنچ کر یہ گمان نہ کرے کہ وہ کامل ہو گیا ہے۔ جس آن کسی شخص کو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے‘ اس کی ترقی فوراً رُک جاتی ہے‘ اور رُک ہی نہیں جاتی‘ الٹا تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ بلندی پر چڑھنے کے لیے ہی نہیں‘ ایک بلند مقام پر ٹھہرنے کے لیے بھی ایک مسلسل جدوجہد درکار ہوتی ہے اور اس کا سلسلہ بند ہوتے ہی پستی کی کشش آدمی کو نیچے کھینچنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک دانشمند آدمی کو کبھی نیچے جھک کر نہیں دیکھنا چاہئے کہ وہ اوپر کتنا چڑھ چکا ہے۔ اُسے اوپر دیکھنا چاہئے کہ جو بلندیاں ابھی چڑھنے کے لیے باقی ہیں‘ وہ اس سے کس قدر دور ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے ہمارے سامنے انسانیت کا اتنا بلند معیار رکھا ہے جس کی ابتدائی منزلیں بھی غیراسلامی مذاہب و اَدیان کے معیارِ کمال سے اونچی ہیں۔ اور یہ کوئی خیالی معیار نہیں ہے‘ بلکہ عمل کی دنیا میں انبیائے کرام اور اکابر صحابہ اور صلحائے امت کی پاکیزہ زندگیاں اس کی بلندیوں کی نشان دہی کر رہی ہیں۔ اس معیار کو آپ ہمیشہ نگاہ میں رکھیں۔ یہ آپ کو کاملیّت کی غلط فہمی سے بچائے گا‘ اپنی پستی کا احساس دلائے گا اور ترقی کی کوششوں کے لیے ہر وقت اتنی بلندیاں آپ کے سامنے پیش کرتا رہے گا کہ عمر بھر کی جدوجہد کے بعد بھی آپ یہی محسوس کریں گے کہ ابھی بہت سی منزلیں چڑھنے کے لیے باقی ہیں۔ اپنے گرد و پیش کے دم توڑتے ہوئے مریضوں کو دیکھ کر اپنی ذرا سی تندرستی پر ناز نہ کیجئے۔ اخلاق و روحانیت کے اُن پہلوانوں پر نگاہ رکھئے جن کی جگہ آج آپ شیطان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اکھاڑے میں اترے ہیں۔ مومن کا کام یہ ہے کہ دولتِ دین کے معاملے میں وہ ہمیشہ اپنے سے اونچے لوگوں کی طرف دیکھے‘ تاکہ یہ دولت کمانے کی حرص کبھی اس کے اندر بجھنے نہ پائے۔۔۔ اور دولتِ دنیا کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے کم تر لوگوں کی طرف دیکھے‘ تاکہ جتنا کچھ بھی اس کے رب نے اسے دیا ہے اس پر وہ خدا کا شکر بجا لائے اور زر و مال کی پیاس تھوڑے سے ہی بجھ جائے۔؎۱

تیسری بات یہ ہے کہ فی الواقع ہماری جماعت نے اب تک اپنے اندر جو خوبیاں پیدا کی ہیں‘ وہ بس اس لیے خوب ہیں کہ ہمارے گرد و پیش کا بگاڑ حد سے بڑھا ہوا ہے۔ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ایک ذرا سا دیا بھی‘ جسے روشن کرنے کی توفیق ہم لوگوں کو نصیب ہو گئی‘ نمایاں نظر آنے لگا۔ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کے کم سے کم معیارِ مطلوب کو بھی سامنے رکھ کر‘ جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہر پہلو سے ہمیں اپنی ذات میں اور اپنے جماعتی نظام میں خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں۔ پس اگر ہم اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں تو یہ محض ایک انکسار کے طور پر نہ ہو‘ بلکہ ایک حقیقی اعتراف ہونا چاہئے۔۔۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنی ایک ایک کوتاہی کو سمجھیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔

تربیت گاہوں سے فائدہ اٹھائیے!

اسی چیز میں آپ کی مدد کرنے کے لیے جماعت نے تربیت کے نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت جو تربیت گاہیں قائم کی گئی ہیں‘ ان میں ارکان اور متفقین سب آ سکتے ہیں۔ تربیت کی مدت قصداً کم رکھی گئی ہے تاکہ کاروباری لوگ اور ملازمین اور زراعت پیشہ حضرات‘ سب کے سب اس سے بآسانی فائدہ اٹھا سکیں۔ تربیت کے دو اجزاء رکھے گئے ہیں‘ ایک علمی اور دوسرا عملی۔ علمی جُز میں کوشش کی جاتی ہے کہ تھوڑے وقت میں ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات‘ احکامِ فقہ اور جماعتی لٹریچر کا ایک ضروری خلاصہ آدمی کے ذہن نشین ہو جائے‘ جس سے وہ دین کو‘ اس کے پورے نظام کو‘ اس کے تقاضوں کو‘ اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے طریقوں کو اور اس کی اِقامت کے لائحۂ عمل کو اچھی طرح سمجھ لے۔۔۔ اور یہ بھی جان لے کہ اقامتِ دین کی اس سعی کے لیے کس قسم کی انفرادی سیرت اور کس طرح کا جماعتی کردار مطلوب ہے۔ عملی جُز میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ چند روز تک ہمارے کارکن بیک وقت ایک جگہ رہ کر ایک ستھری اور پاکیزہ اسلامی زندگی بسر کرنے کی مشق کریں۔ ضبطِ اوقات کا‘ نظمِ عمل کا‘ حُسنِ رفاقت کا اور اخوت و محبت کا سبق سیکھیں۔ ایک دوسرے کی خوبیاں اپنے اندر جذب کریں۔ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے میں دوسروں سے مدد لیں اور چند روز ہر طرح کی دنیوی مشغولیتوں سے منقطع ہو کر خالص اﷲ کے لیے اپنی فکر اور توجہ اور مصروفیت کو مرتکز رکھیں۔

ہماری دلی خواہش تھی کہ ایسی تربیت گاہیں کم از کم ہر ضلع میں قائم کی جائیں اور ہمہ وقتی کام کرتی رہیں۔ لیکن ابھی ہمارے پاس ایسے آدمیوں کی کمی ہے جو اس کام کو چلانے کے اہل ہوں اور دوسرے ضروری وسائل بھی کافی نہیں ہیں۔ اس لیے سرِدست صرف لاہور‘ راولپنڈی‘ ملتان اور کراچی میں تھوڑی تھوڑی مدت کے لیے اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ تاہم مجھے توقع ہے کہ اس تھوڑے سے انتظام کا بھی آپ کو بہت کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ان شاء اﷲ اس کورس سے گذر کر آپ خود محسوس کریں گے کہ یہ ایک بڑا مفید پروگرام ہے جو جماعت نے شروع کیا ہے۔ میں تمام رفقاء سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔

اپنے گھروں کی طرف توجہ کیجئے!

اس کے بعد میں آپ سب حضرات کو یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنی اولاد کی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح پر خاص توجہ دیں۔ قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا۔ جس اولاد کے اور جن بیویوں کے کھانے پینے اور پہننے کی آپ کو فکر ہوتی ہے‘ ان کے لیے آپ کو سب سے بڑھ کر اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بننے پائیں۔ آپ کو اپنی حد تک اُن کی عاقبت سنوارنے اور انہیں جنت کے راستے پر ڈالنے کی ہی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر اگر خدانخواستہ ان میں سے کوئی خود بگڑے تو آپ بری الذمہ ہیں۔ بہرحال اس کی عاقبت خراب ہونے میں آپ کا کوئی حصہ نہ ہو۔ بسا اوقات میرے پاس اس طرح کی شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ رفقائے جماعت اصلاحِ خلق کی جتنی فکر کرتے ہیں‘ اصلاحِ اہل و عیال اور اصلاحِ خاندان کی نہیں کرتے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے معاملے میں یہ شکایات درست ہوں اور بعض کے معاملے میں مبنی بر مبالغہ۔ فرداً فرداً ایک ایک شخص کے حال کی تحقیق میرے لیے مشکل ہے۔ اس لیے میں یہاں اس بارے میں ایک عام نصیحت پر اکتفاء کرتا ہوں۔ ہم سب کی یہ تمنا ہونی چاہئے اور تمنا کے ساتھ کوشش بھی‘ کہ دنیا میں جو ہمیں پیارے ہیں‘ انہیں سلامتی کی راہ پر دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ (الفرقان۔۷۴)

اس معاملے میں رفقاء کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی زندگی میں دلچسپی لیں اور نہ صرف اپنی اولاد کو‘ بلکہ اپنے رفقاء کی اولاد کو بھی سنوارنے میں حصہ لیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک بچہ اپنے باپ کا اثر قبول نہیں کرتا مگر اپنے باپ کے دوستوں کا اثر قبول کر لیتا ہے۔

آپس کی اصلاح اور اس کا طریقہ

میں آپ کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنی اصلاح کے ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں‘ انہیں ایک دوسرے کا ہمدرد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہئے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اپنے مقصدِ عظیم میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان کی جماعت بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہو۔۔۔ اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آئوں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ میرے دامن پر کوئی دھبہ نظر آئے تو آپ اسے صاف کریں اور آپ کا دامن آلودہ ہورہا ہو تو میں اسے پاک کروں۔ جس چیز میں فلاح و بہتری آپ کو محسوس ہو‘ اسے آپ مجھ تک پہنچائیں اور جس چیز میں آپ کی دنیا و عاقبت کی درستی مجھے محسوس ہو‘ اسے میں آپ تک پہنچائوں۔ مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور پر سب کی خوش حالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی جب یہ امدادِ باہمی اور داد و سَتد کا طریقہ چل پڑتا ہے تو پوری جماعت کا سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔

باہمی اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے یا جس سے کوئی شکایت آپ کو ہو‘ اس کے معاملہ میں آپ جلدی نہ کریں‘ بلکہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر تخلیہ میں اس سے بات کریں۔ اس پر اگر اصلاح نہ ہو اور معاملہ آپ کی نگاہ میں کچھ اہمیت رکھتا ہو تو اسے اپنے علاقے کے امیرِ جماعت کے نوٹس میں لائیں۔ وہ پہلے خود اصلاح کی کوشش کرے‘ اور پھر ضرورت ہو تو جماعت کے اجتماع میں اسے پیش کرے۔ اس پوری مدت میں اس معاملہ کا ذکر غیرمتعلق لوگوں سے کرنا اور شخصِ متعلق کی غیرموجودگی میں اس کا چرچا کرنا‘ صریحاً غیبت ہے‘ جس سے قطعی اجتناب کرنا چاہئے۔ نیز ایسے معاملات میں مرکز کی طرف رجوع کرنا اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک مقامی جماعت اصلاح کی سعی میں ناکام ہو کر مرکز سے مدد لینے کی ضرورت محسوس نہ کرے۔

اجتماعی تنقید کا صحیح طریقہ

آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں اور کمزوریوں پر تنقید بھی اجتماعی اصلاح کا ایک مفید طریقہ ہے‘ مگر تنقید کی صحیح حدود اور آداب ملحوظ نہ رکھنے سے یہ سخت نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں وضاحت کے ساتھ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس کی حدود اور آداب کیا ہیں:

۱۔ تنقید ہر وقت‘ ہر صحبت میں نہ ہو‘ بلکہ صرف خصوصی اجتماع میں امیرِ جماعت کی تحریک پر‘ یا اس کی اجازت سے ہو۔

۲۔ تنقید کرنے والا اﷲ کو شاہد سمجھ کر‘ پہلے خود اپنے دل کا جائزہ لے لے کہ وہ اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے سے تنقید کر رہا ہے یا اس کا محرک کوئی نفسانی جذبہ ہے۔ اگر پہلی صورت ہو تو بے شک تنقید کی جائے‘ ورنہ زبان بند کر کے خود اپنے نفس کو اس ناپاکی سے بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔

۳۔ تنقید کا لہجہ اور زبان‘ دونوں ایسے ہونے چاہئیں جن سے ہر سننے والے کو محسوس ہو کہ آپ فی الواقع اصلاح چاہتے ہیں۔

۴۔ تنقید کے لیے زبان کھولنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیجئے کہ آپ کے اعتراض کی کوئی بنیاد واقعہ میں موجود ہے۔ بلاتحقیق کسی کے خلاف کچھ کہنا ایک گناہ ہے‘ جس سے فساد رونما ہوتا ہے۔

۵۔ جس شخص پر تنقید کی جائے اسے تحمل کے ساتھ بات سننی چاہئے‘ انصاف کے ساتھ اس پر غور کرنا چاہئے‘ جو بات حق ہو وہ سیدھی طرح مان لینی چاہئے اور جو بات غلط ہو اُس کی بہ دلائل تردید کر دینی چاہئے۔ تنقید سُن کر طیش میں آجانا کِبر اور غرورِ نفس کی علامت ہے۔

۶۔ تنقید‘ جوابِ تنقید اور جواب الجواب کا سلسلہ غیر ضروری نہیں چلنا چاہئے کہ وہ ایک مستقل ردّوکدّ بن کر رہ جائے۔ بات صرف اُس وقت تک ہونی چاہئے جب تک دونوں طرف کے مختلف پہلو وضاحت کے ساتھ سامنے نہ آجائیں۔ اس کے بعد اگر معاملہ صاف نہ ہو تو گفتگو ملتوی کر دیجئے تاکہ فریقین ٹھنڈے دل سے اپنی اپنی جگہ غور کر سکیں۔ پھر اگر فی الواقع اسے صاف کرنا ضروری ہی ہو تو دوسرے اجتماع میں اس کو پھر چھیڑا جا سکتا ہے۔ مگر بہرحال آپ کے جماعتی نظم میں کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ہونی چاہئے جہاں اختلافی معاملات کا آخری فیصلہ ہو اور جہاں سے فیصلہ ہو جانے کی بعد نزاع ختم ہو جائے۔

ان حدود کو ملحوظ رکھ کر جو تنقید کی جائے‘ وہ نہ صرف یہ کہ مفید‘ بلکہ جماعتی زندگی کو درست رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی جماعت زیادہ دیر تک صحیح راستے پر گامزن نہیں رہ سکتی۔ اس تنقید سے کسی کو بھی بالاتر نہ ہونا چاہئے‘ خواہ وہ آپ کا امیر ہو یا مجلسِ شوریٰ ہو یا پوری جماعت ہو۔ میں اس کو جماعت کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ جس روز خدانخواستہ ہماری جماعت میں اس کا دروازہ بند ہوا‘ اسی روز ہمارے بگاڑ کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ابتدا سے ہر اجتماعِ عام کے بعد ارکانِ جماعت کا ایک اجتماعِ خاص اس غرض کے لیے منعقد کرتا ہوں کہ اس میں جماعت کے کام اور نظام کا پورا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ ایسے اجتماعات میں سب سے پہلے میں خود اپنے آپ کو تنقید کے لیے پیش کرتا ہوں‘ تاکہ جس کو مجھ پر یا میرے کام پر کوئی اعتراض ہو‘ وہ اسے سب کے سامنے بے تکلف پیش کرے اور اس کی تنقید سے یا تو میری اصلاح ہو جائے یا میرے جواب سے اس کی اور اس کی طرح سوچنے والے دوسرے لوگوں کی غلط فہمی رفع ہو جائے۔ چنانچہ اس طرح کا ایک اجتماع کل رات ہی کو منعقد ہو چکا ہے‘ جس میں کھلی اور آزادانہ تنقید کا منظر سب رفقاء دیکھ چکے ہیں۔ مجھے یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ یہ منظر ہمارے بعض نئے رفقاء کے لیے‘ جنہیں ایسے مناظر دیکھنے کا پہلی مرتبہ ہی اتفاق ہوا تھا‘ سخت صدمے کا مُوجب ہوا۔ نہ معلوم انہوں نے کس نگاہ سے اس کو دیکھا کہ انہیں صدمہ ہوا۔ بصیرت کی نگاہ سے دیکھتے تو ان کے دل میں جماعت کی وقعت پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی۔ آخر اس سرزمین پر جماعتِ اسلامی کے سوا اور کون سی جماعت ایسی ہے‘ جس میں تین چار سو آدمیوں کے مجمع میں کئی گھنٹے تک ایسی کھلی اور آزادانہ تنقیدیں ہوں اور پھر نہ کرسیاں اچھلیں‘ نہ سر پھوٹیں‘ بلکہ اجتماع کے خاتمے پر کسی کے دل میں کسی کی طرف سے غبار تک نہ ہو؟

سمع و طاعت اور نظمِ جماعت کی پابندی

ایک چیز جس کا احساس آپ کو دلانے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ ابھی آپ کے اندر سمع و طاعت اور نظم کی بہت کمی ہے۔ اگرچہ اپنے ماحول کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے اندر بڑا ڈسپلن نظر آتا ہے۔ لیکن ایک طرف جب ہم اسلام کے معیار مطلوب کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف اُس کٹھن کام کو دیکھتے ہیں جو ہمیں کرنا ہے‘ تو سچی بات یہ ہے کہ ہمارا یہ موجودہ ڈسپلن بہت ہی حقیر محسوس ہوتا ہے۔

آپ مٹھی بھر چند آدمی ہیں جو تھوڑے سے وسائل لے کر میدان میں آئے ہیں اور کام آپ کے سامنے یہ ہے کہ فِسق اور جاہلیت کی ہزاروں گنا زیادہ طاقت‘ اور لاکھوں گنا زیادہ وسائل کے مقابلے میں نہ صرف ظاہری نظامِ زندگی کو‘ بلکہ اُس کی باطنی روح تک کو بدل ڈالیں۔ آپ خواہ تعداد کے لحاظ سے دیکھ لیں یا وسائل کے لحاظ سے‘ آپ کے اور اُس کے درمیان کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ اب آخر اخلاق اور نظم کی طاقت کے سوا اور کون سی طاقت آپ کے پاس ایسی ہو سکتی ہے جس سے آپ ان کے مقابلے میں اپنی جیت کی امید کر سکیں؟ آپ کی امانت و دیانت کا سکہ اپنے ماحول پر بیٹھا ہوا ہو‘ اور آپ کا نظم اتنا زبردست ہو کہ جماعت کے ذمہ دار لوگ جس وقت‘ جس نقطے پر‘ جتنی طاقت جمع کرنا چاہیں‘ ایک اشارے پر جمع کر سکیں۔ تب ہی آپ اپنے مقصدِ عظیم میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

اسلامی نقطۂ نظر سے اِقامتِ دین کی سعی کرنے والی ایک جماعت میں جماعت کے اُولی الامر کی اطاعت فی المعروف دراصل اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کا ایک جُز ہے۔ جو شخص اﷲ کا کام سمجھ کر یہ کام کر رہا ہے‘ اور جس نے اﷲ کے ہی کام کی خاطر کسی کو اپنا امیر مانا ہے‘ وہ اس کے جائز احکام کی اطاعت کر کے دراصل اس کی نہیں‘ بلکہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتا ہے۔ جس قدر اﷲ سے اور اس کے دین سے آدمی کا تعلق زیادہ ہو گا‘ اتنا ہی وہ سمع و طاعت میں بڑھا ہوا ہو گا‘ اور جتنی اس تعلق میں کمی ہو گی‘ اتنی ہی سمع و طاعت میں بھی کمی ہو گی۔ اس سے بڑی قابلِ قدر قربانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس شخص کا آپ پر کوئی زور نہیں ہے اور جسے محض خدا کے کام کے لیے آپ نے اپنا امیر مانا ہے‘ اس کا حکم آپ ایک وفادار ماتحت کی طرح مانیں اور اپنی خواہش اور پسند اور مفاد کے خلاف اس کے ناگوار احکام تک کی بسر و چشم تعمیل کرتے چلے جائیں؟ یہ قربانی چونکہ اﷲ کے لیے ہے‘ اس لیے اس کا اجر بھی اﷲ کے ہاں بہت بڑا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اس کام میں شریک ہونے کے بعد بھی کسی حال میں چھوٹا بننے پر راضی نہ ہو‘ اور اطاعت کو اپنے مرتبے سے گری ہوئی چیز سمجھے‘ یا حکم کی چوٹ اپنے نفس کی گہرائیوں میں محسوس کرے اور تلخی کے ساتھ اس پر تِلملائے‘ یا اپنی خواہش اور مفاد کے خلاف احکام کو ماننے میں ہچکچائے‘ وہ دراصل اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ ابھی اس کے نفس نے اﷲ کے آگے پوری طرح سرِ اِطاعت خم نہیں کیا ہے اور ابھی اس کی اَنانیت اپنے دعوؤں سے دست بردار نہیں ہوئی ہے۔

امرائے جماعت کو نصیحت

ارکانِ جماعت کو اطاعتِ حکم کی نصیحت کرنے کے ساتھ‘ میں امرائے جماعت کو بھی یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ حکم چلانے کا صحیح طریقہ سیکھیں۔ جس شخص کو بھی نظمِ جماعت کے اندر کسی ذمہ داری کا منصب سونپا جائے اور کچھ لوگ اس کے تحتِ امر دیئے جائیں‘ اس کے لیے یہ ہر گز حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھنے لگے اور اپنے تابع رفقاء پر بے جا تحکّم جتانے لگے۔ اسے حکم چلانے میں کِبریائی لذت نہ لینی چاہئے۔ اسے اپنے رفقاء سے نرمی اور ملاطفت کے ساتھ کام لینا چاہئے۔ اسے اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں کسی کارکن میں عدم اطاعت اور خودسری کا جذبہ ابھار دینے کی ذمہ داری خود اس کے اپنے کسی غلط طریقِ کار پر عائد نہ ہو جائے۔ اسے جوان اور بوڑھے‘ کمزور اور طاقتور‘ خوش حال اور خستہ حال‘ سب کو ایک لکڑی سے نہ ہانکنا چاہے۔ بلکہ جماعت کے مختلف افراد کی مخصوص انفرادی حالتوں پر نگاہ رکھنی چاہئے اور جو جس لحاظ سے بھی بجاطور پر رعایت کا مستحق ہو‘ اس کو ویسی ہی رعایت دینی چاہئے۔ اسے جماعت کو ایسے طریقے پر تربیت دینی چاہئے کہ امیر جو کچھ مشورے اور اپیل کے انداز میں کہے‘ رفقاء اس کو حکم کے انداز میں لیں اور اس کی تعمیل کریں۔ یہ دراصل جماعتی شعور کی کمی کا نتیجہ ہے کہ امیر کی ’’اپیل‘‘ اثر انداز نہ ہو اور وہ مجبور ہو کر ’’حکم‘‘ دینے کی ضرورت محسوس کرے۔ ’’حکم‘‘ تو تنخواہ دار فوج کے سپاہیوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ رضاکار سپاہی جو اپنے دل کے جذبے سے اپنے خدا کی خاطر اکٹھے ہوئے ہوں‘ خدا کے کام میں خود اپنے بنائے ہوئے امیر کی اطاعت کے لیے حکم کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ ان کو تو صرف یہ اشارہ مل جانا کافی ہے کہ فلاں جگہ تم کو اپنے رب کی فلاں خدمت بجا لانے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ کیفیت جس روز امرائے جماعت اور رفقائے جماعت میں پیدا ہو جائے گی‘ آپ دیکھیں گے کہ آپس کی وہ بہت سی بدمزگیاں آپ سے آپ ختم ہو جائیں گی‘ جو اَب وقتاً فوقتاً امیروں اور ماموروں کے درمیان پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

آخری نصیحت

میری آخری نصیحت یہ ہے کہ وہ سب لوگ جو جماعتِ اسلامی کے ساتھ ہیں‘ خواہ ارکان ہوں یا متفق‘ انفاق فی سبیل اﷲ کا جذبہ اپنے اندر اُبھاریں‘ خدا کے کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیں‘ اور اس کام میں دل کی وہ لگن پیدا کریں جو انہیں چین سے نہ بیٹھنے دے۔

آپ خود ہی مسلمان نہ بنیں بلکہ اپنی جیب کو بھی مسلمان بنائیں۔ یہ بات نہ بھولیے کہ خدا کے حقوق آپ کے جسم و جان اور وقت پر ہی نہیں‘ آپ کے مال پر بھی ہیں۔ اس حق کے لیے خدا اور رسولؐ نے کم سے کم کی حد تو مقرر کر دی ہے‘ مگر زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ یہ حد تجویز کرنا آپ کا اپنا کام ہے۔ اپنے ضمیر سے پوچھئے کہ کتنا کچھ خدا کی راہ میں صرف کر کے آپ یہ خیال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جو کچھ آپ کے مال پر خدا کا حق تھا وہ آپ نے ادا کر دیا ہے۔ اس باب میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا جج نہیں بن سکتا۔ بہترین جج ہر شخص کا اپنا ضمیر و ایمان ہی ہے۔ البتہ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اُن لوگوں کے طرزِ عمل سے سبق حاصل کیجئے جو نہ خدا کے قائل ہیں نہ آخرت کے‘ اور پھر بھی وہ اپنے باطل نظریات کو فروغ دینے کے لیے ایسی ایسی قربانیاں کرتے ہیں‘ جنہیں دیکھ کر ہم خدا اور آخرت کے ماننے والوں کو شرم آنی چاہئے۔

اِقامتِ دین کے کام میں رُفقاء کو جیسا انہماک ہونا چاہئے اس میں بھی ابھی مجھے بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ بعض رفیق تو بلاشبہ پوری سرگرمی سے کام کر رہے ہیں‘ جسے دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے اور دل سے ان کے حق میں دعا نکلتی ہے۔ مگر بیشتر حضرات میں ابھی تک دل کی لگن نظر نہیں آتی۔ فِسق و فجور کی گرم بازاری اور خدا کے دین کی بے بسی دیکھ کر ایک مومن کے قلب میں جو آگ لگنی چاہئے‘ اس کی تپش کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ آپ کو اس پر کم سے کم اتنی بے چینی تو لاحق ہو جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر‘ یا اپنے گھر میں آگ لگنے کا خطرہ محسوس کر کے لاحق ہوا کرتی ہے۔ یہ معاملہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لیے سرگرمی اور انہماک کی حد تجویز کر سکتا ہو۔ اس کا فیصلہ تو ہر شخص کو اپنے ضمیر کا جائزہ لے کر خود ہی کرنا چاہئے کہ کتنا کچھ کام کر کے وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو سکتا ہے کہ حق پرستی کے تقاضے اُس نے پورے کر دیئے ہیں۔ البتہ عبرت کے لیے اُن باطل پرستوں کی سرگرمیوں پر ایک نگاہ ڈال لینا کافی ہے جو دنیا میں کسی نہ کسی دینِ باطل کو فروغ دینے کے در پے ہیں اور اس کے لیے سر دھڑ کی بازیاں لگا رہے ہیں۔

مخالفتیں اور ہمارا طرزِ عمل

اب میں مختصر طور پر کچھ اُن مخالفتوں کے باب میں بھی کہوں گا جو حال میں جماعت کے خلاف بڑے پیمانے پر شروع ہوئی ہیں۔ جہاں تک مدلَّل اور معقول اختلاف کا تعلق ہے‘ جس کا مقصد سمجھنا اور سمجھانا ہو‘ اور جس کے پیچھے نیک نیتی کے ساتھ حق پسندی کام کر رہی ہو‘ ایسے اختلاف کو تو ہم نے نہ کبھی برا سمجھا ہے‘ نہ ان شاء اﷲ کبھی بُرا سمجھیں گے۔ جب ہم نے خود بارہا اس نوعیت کا اختلاف دوسروں سے کیا ہے تو آخر ہم دوسروں کے حقِ اختلاف کا انکار کیسے کر سکتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے مخالفین میں سے بہت کم لوگوں نے اختلاف کا یہ طرز اختیار کیا ہے۔ ان کی عظیم اکثریت جس طریقے سے ہماری مخالفت کر رہی ہے‘ وہ یہ ہے کہ وہ ہم پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں‘ ہماری طرف غلط باتیں منسوب کرتے ہیں‘ ہماری تحریروں کو توڑ مروڑ کر ان کو اپنے من مانے معنیٰ پہناتے ہیں۔۔۔ اور یہ سب کچھ وہ ہماری یا خَلق کی اصلاح کے لیے نہیں‘ بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف عوام الناس کو بدگمان کریں اور اسلامی نظام برپا کرنے کی جو کوشش ہم کر رہے ہیں‘ اسے کسی طرح نہ چلنے دیں۔

جھوٹ کا یہ طوفان اٹھانے میں مختلف گروہ شریک ہیں۔ ایک طرف برسرِاقتدار پارٹی کے لیڈر اور اخبار نویس ہیں‘ جنہیں پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی تحریک ناگوار ہے۔ دوسری طرف مغربی فِسق و اِلحاد اور اَباحیت کے علمبردار ہیں‘ جنہیں اپنی فکری و عملی آزادیوں پر اسلامی عقائد و اخلاق کی پابندیاں ناگوار ہیں۔ تیسری طرف مختلف گمراہ فرقے ہیں‘ جنہیں سخت اندیشہ ہے کہ اگر یہاں فی الواقع ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو اُن کے لیے اپنی ضلالتیں پھیلانے کا موقع باقی نہ رہے گا۔ چوتھی طرف اشتراکی حضرات ہیں‘ جو خوب جانتے ہیں کہ ان کے راستے میں اگر کوئی سب سے بڑی رُکاوٹ ہے تو جماعت اسلامی ہے۔ ان سب کی مخالفت تو ایک حد تک فطری چیز تھی‘ نہ ہوتی تو مقامِ تعجب تھا۔ سچائی کو جھوٹ سے دبانے کی کوشش کرنا اُن کے لیے کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔ ان سے تو یہ اخلاق عین متوقع تھے۔

مگر جس چیز کا ہماری پوری جماعت کو صدمہ ہے‘ وہ یہ ہے کہ ان مخالفین میں کچھ علماء بھی نظر آ رہے ہیں‘ اور غضب یہ ہے کہ جھوٹ اور فتنہ پردازی کے ہتھیار استعمال کرنے میں بعض حضرات نے گمراہ گروہوں کو بھی مات کر دیا ہے۔ یہ آخری چوٹ فی الواقع ہمارے لیے سخت اذیت بخش ہے۔ اس لیے نہیں کہ ہمیں کچھ ان حضرات کی طاقت سے اندیشہ ہے‘ بلکہ صرف اس لیے کہ ہم ان حضرات کو دیندار اور خداترس سمجھتے تھے اور انہیں اِس روپ میں دیکھنے کی ہر گز توقع نہ رکھتے تھے۔ ہماری تو یہ تمنا تھی کہ یہ اسلامی انقلاب لانے کی کوشش میں آگے آگے ہوتے اور ہم اِن کی رکاب تھام کر چلتے۔ مگر افسوس کہ اِنہوں نے اُن صفوں میں شمولیت کو پسند کیا جہاں سے کمیونسٹ اور منکرینِ حدیث اور قادیانی اور مغربی فِسق و فجور کے علمبردار ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ کاش یہ کچھ دیر کے لیے ٹھہر کر سوچ لیتے کہ:

بَبِین از کہ گُسَستی و باکہ پَیوَستی!

بہرحال‘ اب جبکہ ان مختلف اطراف سے ہماری مخالفت اِس رنگ میں ہو رہی ہے‘ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے رفقاء کو اس باب میں بھی کچھ ہدایات دے دوں۔

۱) اس سلسلہ میں میری اولین ہدایت یہ ہے کہ آپ کسی حال میں مشتعل نہ ہوں۔ اپنی زبان اور مزاج پر قابو رکھیں۔ جب کبھی اشتعال کی کیفیت ابھرتی محسوس ہو‘ اُسے نزعِ شیطانی سمجھ کر اﷲ کی پناہ مانگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کام کو خراب کرنے کے لیے شیطان ہی یہ چال چل رہا ہے۔ وہ ایک طرف ہمارے مخالفین کو جا جا کر اکساتا ہے اور اُن سے بے جا حملے کرواتا ہے اور دوسری طرف ہمیں اُکسانے کی کوشش کرتا ہے‘ تاکہ ہم جواب اور جواب الجواب میں اُلجھ کر رہ جائیں‘ اور کسی طرح یہ کام نہ کرنے پائیں جو اُسے ناگوار ہے۔ ہمیں اُس کی اِس چال میں نہ آنا چاہئے۔

۲) دوسری ہدایت یہ ہے کہ بعض علماء سے اور ان کے شاگردوں اور معتقدوں سے خواہ آپ کو کتنا ہی رنج پہنچے‘ آپ اُسے بس رنج و افسوس تک محدود رکھیں‘ نفرت تک ہر گز نہ پہنچنے دیں۔ نیز وہ غلطی نہ کریں جو اس سے پہلے لوگ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے بعض علماء کی زیادتیوں پر بگڑ کر تمام علماء کو مطعون کرنا شروع کر دیا‘ اور پھر اِس حد پر بھی نہ رُکے‘ بلکہ خود علمِ دین کو ہی ہدفِ طعن بنا ڈالا۔ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ علماء کی اکثریت خدا کے فضل سے حق پسند اور حق پرست ہے اور ان میں سے بہترین رفیق آپ کو ملے ہیں اور ملتے چلے جا رہے ہیں۔

۳) تیسری ہدایت یہ ہے کہ آپ مدافعت کا کام مجھ پر چھوڑ دیں اور خود اپنے کام میں لگے رہیں۔ میں جس حد تک ضرورت سمجھوں گا‘ مدافعت کا کام خود کروں گا یا جماعت کے ذمہ دار لوگوں سے لوں گا۔ آپ کا کام بس یہ ہے کہ جب کوئی جھوٹا الزام آپ کے سامنے لایا جائے تو آپ جماعت کے لٹریچر میں سے اس کا جواب نکال کر پیش کر دیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی بحث میں الجھے تو اُس کو سلام کیجئے اور الگ ہو جائیے۔ جسے راستہ چلنا ہو اُس کے لیے بہترین حکمت یہ ہے کہ اگر راستے میں کسی کانٹے سے اُس کا دامن اُلجھ جائے تو ایک لمحہ ٹھیر کر دامن چھڑانے کی کوشش کرے اور جب وہ چھوٹتا نظر نہ آئے تو راستہ کھوٹا کرنے کے بجائے‘ دامن کا وہ حصہ پھاڑ کر کانٹے کے حوالہ کرے اور آگے روانہ ہو جائے۔

۴) چوتھی ہدایت یہ ہے کہ سخت سے سخت بیہودہ مخالفت کے جواب میں بھی آپ حُدود اﷲ سے کبھی تجاوز نہ کریں۔ ہر لفظ جو آپ کی زبان یا قلم سے نکلے‘ اس پر خوب سوچ لیں کہ وہ خلافِ حق تو نہیں ہے‘ اور آپ اس کا حساب خدا کے ہاں دے سکیں گے؟ آپ کے مخالفین خدا سے ڈریں چاہے نہ ڈریں‘ آپ کو بہرحال اس سے ڈرتے رہنا چاہئے۔

۵) پانچویں ہدایت یہ ہے کہ اس مخالفت نے آپ کی تحریک کے لیے بڑھنے اور اُبھرنے کا جو ایک غیرمعمولی موقع فراہم کر دیا ہے‘ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیے۔ یہ اﷲ نے آپ کے رفعِ ذکر کا سامان کیا ہے۔ اِس سے گھبرائیے نہیں‘ بلکہ اس سے کام لیجئے۔ عرب میں اِسی نوعیت کے پروپیگنڈے کا طوفان جب نبی اکرمﷺ کے خلاف اٹھا تھا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو خوش خبری دی تھی کہ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ۔ ہمیں تو شکر گذار ہونا چاہئے کہ ایک طرف حکومت سرکلر پر سرکلر بھیج کر سرکاری ملازمین سے ہمارا تعارف‘ اور بڑا وزنی تعارف کرا رہی ہے۔ دوسری طرف تمام گمراہ گروہ اپنے اپنے حلقوں میں ہم کو رُوشناس کرانے میں لگے ہوئے ہیں‘ اور تیسری طرف بعض علمائے کرام اپنے فتووں کے ذریعہ سے مذہبی ذہنیت رکھنے والی آبادی کے گوشے گوشے میں ہمارا چرچا کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر اپنا اشتہار تو ہم بیس سال میں بھی اپنے ذرائع سے نہ کر سکتے تھے۔ اب ہمارا کام صرف اتنا رہ گیا ہے کہ جہاں جہاں ہمارا برا تعارف کرایا گیا ہے‘ وہاں ہم اپنا اچھا تعارف کرا دیں۔ اس کا ان شاء اﷲ دوہرا فائدہ ہو گا۔ جس جس پر اس جھوٹے پروپیگنڈے کی حقیقت کُھل جائے گی‘ وہ صرف جماعتِ اسلامی کا گرویدہ ہی نہ ہو جائے گا‘ بلکہ ساتھ ساتھ اُس کے دل سے اُن لوگوں کی وقعت بھی نکل جائے گی جن کے جھوٹ اور جن کی حق دشمنی کا صریح ثبوت وہ آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ شیطان کے کید کو اسی لیے اﷲ نے ضعیف فرمایا ہے کہ وہ اپنے اولیاء (دوستوں) کو ایسے ہتھیار فراہم کر کے دیتا ہے جو عارضی طور پر تو بڑے کارگر ثابت ہوتے ہیں‘ مگر بالاخر خود اُسی شخص کی شہ رگ کاٹ دیتے ہیں جو اُنہیں استعمال کرتا ہے۔

۶) آخری ہدایت خاص طور پر جماعت کے اُن لوگوں کے لیے ہے جو علماء کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ ان میں سے ہر گروہ کے لوگ اپنے اپنے گروہ کے علماء کو سمجھائیں۔ وہ فرداً فرداً اور مجتمعا ان سے ملیں بھی اور ان کو خطوط بھی لکھیں۔ وہ ان سے کہیں کہ اے محترم حضرات! آپ یہ جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کے عواقب پر بھی آپ نے غور کر لیا ہے؟ اس سے پہلے مختلف مرحلوں پر آپ کے اور نئی تعلیم یافتہ نسلوں کے درمیان جو آویزشیں ہو چکی ہیں‘ ان کی بدولت آپ کا وقار پیہم گرتا چلا گیا ہے۔۔۔ اور اس سے آپ ہی کے وقار کو نہیں‘ خود دین کے وقار کو بھی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ اب جماعت اسلامی نے ان میں سے بہترین عناصر کو چن چن کر دین کی طرف لانا شروع کیا تھا اور دینی رغبت کی وجہ سے یہ لوگ آپ سے قریب تر ہونے لگے تھے تو آپ نے اِس کے خلاف یہ لڑائی چھیڑ دی۔۔۔ اور چھیڑی بھی تو ایسے بھونڈے طریقے سے کہ نئے تعلیم یافتہ لوگ تو درکنار‘ آپ کے اپنے شاگردوں تک کے دلوں میں آپ کی عقیدت باقی رہنی مشکل ہو گئی۔ ان حرکتوں سے آخر آپ کس فائدے کے متوقِّع ہیں؟ آپ خود جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایک اسلامی نظامِ حکومت قائم کر دینا اور اُسے چلا لے جانا‘ بہرحال آپ کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام اگر کر سکتے ہیں تو آپ نہیں‘ بلکہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں میں وہ طبقہ جو اسلام کے منشا کے مطابق اپنے ذہن اور اخلاق اور سیرت کو ڈھال رہا ہے۔ وہ وہی ہے جو جماعت اسلامی کی طرف کھنچ رہا ہے۔ اس کے سوا آپ اس گروہ میں کسی دوسرے فعال اور طاقت ور دینی رجحان رکھنے والے طبقے کی نشاندہی نہیں کر سکتے‘ اور آپ خود اس لائق بھی نہیں ہیں کہ اِن لوگوں میں اپنی کوششوں سے کوئی ایسا طبقہ پیدا کر سکیں۔

اب اگر آپ اِس جماعت کی مزاحمت کرتے ہیں تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ آپ پاکستان میں ہرفاسق‘ فاجر اور گمراہ گروہ کی قیادت کو برداشت کر سکتے ہیں‘ مگر نہیں برداشت کر سکتے تو کسی دیندار گروہ کی قیادت کو۔ کیا فی الواقع آپ نے یہی پوزیشن اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ خدا کے ہاں اس کی جواب دہی جو کرنی ہو گی‘ اس کا انجام بھی سوچ لیا ہے؟ اگر بالفرض آپ کو جماعت سے بعض مسائل میں اختلاف تھا تو کیا اس اختلاف کو چھیڑنے کا موزوں ترین وقت یہی تھا؟ اور کیا اس اختلاف کو گفت و شنید یا علمی بحث و تنقید سے رفع کرنے کی کوشش نہ کی جا سکتی تھی؟ کیا وہ مسائل ایسے ہی اہم تھے کہ ان پر جماعت کے خلاف فتوے لگانے اور اشتہار چھاپنے اور پمفلٹ نکالنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا؟ پھر اگر یہ سب کچھ ضروری تھا اور آپ محض حمایتِ دین کے ہی جذبے سے یہ کارِ خیر کرنے اٹھے تھے‘ تو کیا واقعی کوئی شخص حمایتِ دین کی خاطر‘ لِلّٰہ و فی سبیل اﷲ دوسرے کی عبارتیں مسخ بھی کیا کرتا ہے؟ اور جو کچھ اُس نے نہیں کہا‘ وہ اپنی طرف سے گھڑ کر اُس کی طرف منسوب بھی کر دیتا ہے؟ اور اُس کی اپنی تحریروں سے الزامات کی غلطی ثابت ہو جانے کے بعد بھی اپنے الزام پر اصرار کیا کرتا ہے؟

یہ باتیں ہیں جو مختلف مدارس سے نکلے ہوئے ہماری جماعت کے رُفقاء کو اپنے اپنے گروہ کے بزرگوں سے صاف صاف کہنی چاہئیں۔ آخر اُس تعلیمِ قرآن و حدیث کا کیا حاصل‘ جس سے آدمی حق پرستی کے بجائے اُستاد پرستی اور پیر پرستی سیکھے اور اسلامی حمیت کے بجائے گروہی عصبیت کا سبق لے!

دعوت کا مختصر کورس

اِس کے بعد میں توسیع دعوت کے سلسلے میں آپ لوگوں کو کچھ مشورے دوں گا۔ اب ہماری دعوت کا ایک جامع اور مختصر کورس نکل آیا ہے‘ جس سے آپ کام لے سکتے ہیں۔ اب تک تو جماعت کے کارکنوں کو یہ پریشانی پیش آتی تھی کہ ہمارا لٹریچر بہت پھیلا ہوا ہے اور سب لوگوں کو سارا لٹریچر پڑھوا دینا مشکل ہے۔ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا بھی دُشوار تھا کہ لٹریچر میں سے کیا کچھ پڑھ لینے کے بعد ایک آدمی اس قابل ہو سکتا ہے کہ اسے جماعت میں لیا جا سکے۔ مگر اب یہ دشواری ہماری چند مطبوعات کے نکلنے سے رفع ہو گئی ہے۔ آپ جن لوگوں سے بھی جماعت کا تعارف کرائیں اُن کو پہلے یہ چیزیں پڑھنے کے لیے دیں:

الف۔ جماعت اسلامی کا مقصد‘ تاریخ اور لائحہ عمل۔
ب۔ دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات۔

ج۔ جماعت اسلامی کی دعوت

د۔ میری یہ دونوں تقریریں‘ جو میں نے ابھی کراچی کے اِس اجتماع (۱۰۔۱۳ نومبر ۱۹۵۱ء) کا افتتاح کرتے ہوئے اور درمیان میں کی ہیں اور جو عنقریب تحریری صورت میں مرتب کر کے شائع کر دی جائیں گی۔ (یہ دونوں تقریریں شائع ہو چکی ہیں اور ان کے نام یہ ہیں: ’’ہمارے داخلی و خارجی مسائل‘‘ اور ’’مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل‘‘)۔

جب کوئی شخص یہ چیزیں پڑھ لے تو اس کے سامنے جماعت کا دستور پیش کر دیں اور یہ اس کی مرضی پر چھوڑ دیں کہ چاہے تو رُکنیت کی درخواست دے یا متفقین میں شامل ہو جائے۔

مگر جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جانے کے بعد اُسے پورا لٹریچر پڑھنے کا مشورہ ضرور دیجئے۔ اس کے بغیر اس کی ذہنیت اور سیرت اچھی طرح تیار نہ ہو سکے گی‘ اور زندگی کے مختلف مسائل و معاملات میں اسلامی نقطۂ نظر کو وہ ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے قابل نہ ہو سکے گا۔ البتہ پورے لٹریچر کا مطالعہ جماعت میں داخل ہونے سے پہلے کر لینا ضروری نہیں ہے۔

خواتین کے لیے ہدایات

اب تک جو کچھ میں نے کہا ہے اُس کا بیشتر حصہ مردوں اور عورتوں کے لیے مشترک تھا۔ اب میں خاص طور پر کچھ باتیں اُن خواتین سے عرض کروں گا جو جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں یا اس سے دلچسپی رکھتی ہیں:

۱۔ اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے دین سے زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کریں۔ نہ صرف قرآن سمجھ کر پڑھیں‘ بلکہ کچھ نہ کچھ حدیث اور فقہ کا بھی مطالعہ کریں۔ نہ صرف دین کی بنیادی باتوں اور ایمان کے تقاضوں کو جانیں‘ بلکہ یہ بھی معلوم کریں کہ آپ کی ذاتی زندگی‘ گھر کی زندگی‘ خاندان کی زندگی اور عام معاشرتی زندگی کے بارے میں دین کے احکام کیا ہیں۔ احکامِ دینی سے عورتوں کی عام ناواقفیت اُن اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جن کی بدولت مسلمان گھروں میں غیر شرعی طریقے رائج ہوئے ہیں‘ بلکہ جاہلیت کی رسموں تک نے راہ پا لی ہے۔ آپ کو سب سے پہلے خود اپنی اس خامی کو رفع کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ جماعت کی طرف سے بھی ان شاء اﷲ اس امر کی پوری کوشش کی جائے گی کہ مستقل زنانہ تربیت گاہیں قائم کی جائیں۔ مگر ابھی اس کا انتظام کرنے میں کچھ مشکلات حائل ہیں۔ سرِدست یہ طے کیا گیا ہے کہ جہاں جہاں ممکن ہو‘ مردانہ تربیت گاہوں کے ساتھ ایسا باپردہ انتظام کیا جائے جس سے خواتین بھی تربیت کے کورس میں شریک ہو جائیں۔ جہاں اس کا موقع ملے‘ آپ اس سے پورا فائدہ اٹھائیں۔

۲۔ دوسرا کام یہ ہے کہ آپ کو دین کا جو علم حاصل ہو‘ اس کے مطابق آپ اپنی عملی زندگی کو‘ اپنے اخلاق اور سیرت کو اور اپنے گھر کی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ایک مسلمان عورت میں کیریکٹر کی یہ مضبوطی ہونی چاہئے کہ وہ جس چیز کو حق سمجھے‘ اس پر سارے گھر اور سارے خاندان کی مخالفت و مزاحمت کے باوجود ڈٹ جائے۔۔۔ اور جس چیز کو باطل سمجھے‘ اسے کسی کے زور دینے پر بھی قبول نہ کرے۔ ماں‘ باپ‘ شوہر اور خاندان کے دوسرے بزرگ یقینا اس کے مستحق ہیں کہ ان کی فرمانبرداری کی جائے‘ ان کا ادب و لحاظ کیا جائے‘ اُن کے مقابلے میں نُشوز اور خود سری نہ اختیار کی جائے۔ مگر سب کے حقوق‘ اﷲ اور اس کے رسولؐ کے حقوق سے نیچے ہیں‘ نہ کہ ان کے اوپر۔ خدا اور رسول اﷲﷺ کی نافرمانی کے راستے پر جو بھی آپ کو چلانا چاہے‘ آپ اس کی فرمانبرداری سے صاف انکار کر دیں‘ خواہ وہ باپ ہو یا شوہر۔ اس معاملے میں آپ ہر گز کسی سے نہ دبیں۔ بلکہ اس کا جو بدتر سے بدتر نتیجہ آپ کی دُنیوی زندگی کو برباد کرتا نظر آئے‘ اس کو بھی توکلاً علی اﷲگوارا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ دین کے اتباع میں آپ جتنی مضبوطی دکھائیں گی‘ ان شاء اﷲ اتنا ہی آپ کے ماحول پر اچھا اثر پڑے گا اور بگڑے ہوئے گھروں کو دُرست کرنے کا آپ کو موقع ملے گا۔ اس کے برعکس بے جا اور غیرشرعی مطالبات کے آگے جس قدر آپ جُھکیں گی‘ آپ کی اپنی زندگی بھی اسلام کی برکات سے محروم رہے گی اور آپ اپنے گرد و پیش کی سوسائٹی کو بھی ایمان و اخلاق کی کمزوری کا ایک بُرا نمونہ دیں گی۔

۳۔ تیسرا کام آپ کے ذمہ یہ ہے کہ تبلیغ و اصلاح کے معاملے میں اپنے گھر کے لوگوں‘ اپنے بھائی بہنوں اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سب سے زیادہ توجہ کریں۔ جن بہنوں کو اﷲ نے اولاد دی ہے‘ ان کے ہاتھ میں تو گویا اﷲ نے امتحان کے وہ پرچے دے دیئے ہیں‘ جن پر اگر وہ کامیابی کے نمبر نہ لے سکیں تو پھر دوسرا کوئی پرچہ بھی ان کے اس نقصان کی تلافی نہ کر سکے گا۔ ان کی توجہ کی مستحق سب سے بڑھ کر ان کی اولاد ہے‘ جسے دین اور دینی اخلاق کی تربیت دینا ان کی ذمہ داری ہے۔ شادی شدہ خواتین کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو راہِ راست دکھائیں اور اگر وہ راہِ راست پر ہوں تو اس پر چلنے میں ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ ایک لڑکی ادب و احترام کے پورے حدود ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے باپ اور اپنی ماں تک بھی کلمۂ حق پہنچا سکتی ہے‘ اور کم از کم اچھی کتابیں تو ان کے مطالعہ کے لیے پیش کر ہی سکتی ہے۔

۴۔ چوتھا کام‘ جسے آپ کو فرض سمجھتے ہوئے انجام دینا چاہئے‘ یہ ہے کہ جس قدر بھی وقت آپ اپنے خانگی فرائض سے بچا سکتی ہوں‘ وہ دوسری عورتوں تک دین کا علم پہنچانے میں صرف کریں۔ چھوٹی لڑکیوں کو تعلیم دیجئے۔ بڑی عمر کی اَن پڑھ عورتوں کو پڑھائیے۔ پڑھی لکھی عورتوں تک اسلامی کتابیں پہنچائیے۔ عورتوں کے باقاعدہ اجتماعات کر کے ان کو دین سمجھائیے‘ یا تقریر نہ کر سکتی ہوں تو مفید چیزیں سنائیے۔ غرض آپ جس جس طرح بھی کام کر سکتی ہوں‘ کریں اور امکانی حد تک پوری کوشش کریں کہ آپ کے حلقۂ تعارف میں عورتوں سے جہالت اور جاہلیت دور ہو۔

۵۔ تعلیم یافتہ خواتین پر اس وقت ایک اور فرض بھی عائد ہوتا ہے‘ جو ایک لحاظ سے اپنی اہمیت میں دوسرے تمام کاموں سے بڑھ کر ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت مغرب زدہ طبقے کی خواتین‘ پاکستان کی عورتوں کو جس گمراہی‘ بے حیائی‘ اور ذہنی و اخلاقی آوارگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور جس طرح حکومت کے ذرائع و وسائل سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ ان کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے۔ یہ کام صرف مردوں کے کئے نہیں ہو سکتا۔ مرد جب اس گمراہی کی مخالفت کرتے ہیں تو عورتوں کو یہ کہہ کہہ کر بہکایا جاتا ہے کہ یہ مرد تو تم کو غلام رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ان کی تو ہمیشہ سے یہی مرضی رہی ہے کہ عورتیں چہار دیواریوں میں گُھٹ گُھٹ کر مرتی رہیں اور انہیں آزادی کی ہوا نہ لگنے پائے۔ اس لیے ہمیں اِس فتنے کا سدباب کرنے میں عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ خدا کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی شریف اور خداپرست خواتین کی کمی نہیں ہے جواعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان ’’اَپوائی بیگمات‘‘ سے علم اور ذہانت اور زبان و قلم کی طاقت میں کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اب یہ اُن کا کام ہے کہ آگے بڑھ کر اِن کا منہ توڑ جواب دیں۔ وہ اِنہیں بتائیں کہ مسلمان عورت حدوداﷲ سے باہر قدم نکالنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ وہ ڈنکے کی چوٹ کہیں کہ مسلمان عورت اُس ترقی پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسولﷺ کی مقرر کی ہوئی حدیں توڑنی پڑیں۔ صرف یہی نہیں‘ بلکہ اُن کا یہ کام بھی ہے کہ منظم ہو کر ہر اُس حقیقی ضرورت کو‘ جس کی خاطر حدود شکنی کو ناگزیر کہا جاتا ہے‘ اسلامی حدود کے اندر پورا کر کے دکھائیں‘ تاکہ ہر گمراہ کرنے والے اور کرنے والی کا ہمیشہ کے لیے منہ بند ہو جائے۔

مودودیؒ لٹریچر