مولانا مودودیؒ کے کام کے اثرات

مولانا نے جو کام کیا وہ بالکل نیا نہ تھا، دوسرے علما اور اسکالر بھی ایک حد تک اجمال کے ساتھ یا تفصیل کے ساتھ وہی بات کر چکے تھے۔ لیکن مولانا نے جو اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ اسے لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا۔ انہوں نے رسالہ ترجمان القرآن جاری کر کے ان افکار کی اشاعت کی، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا سے خطاب کیا۔ اردو کے علاوہ آپ نے دنیا کی بیس زبانوں تک اپنے افکار کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ دوسرے حضرات نے بع میں اپنی کتب کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنا شروع کیا لیکن مولانا مودودیؒ نے یہ کام سب سے پہلے کیا اور اس کے تمام دنیا پر اچھے اثرات ڈالے۔

عربی اور انگریزی میں مولانا کے مدلل لٹریچر کے بہت ہی گہرے اثرات پڑے، عالمِ اسلام میں تو گھر گھر مولانا کی کتابیں پڑھی جانے لگیں۔ اس کے بعد عالم اسلام میں جہاں جہاں بھی علمی کام ہوا، اس کا رخ ہی بدل گیا۔ ایران ترکی اور عالم عرب میں جس نے بھی اسلام کے بارے میں کوئی بات کی وہ مولانا مودودیؒ کے حوالے سے کی۔ علمی دنیا پر مولانا مودودیؒ صاحب نے جو اثرات چھوڑے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر نہایت سنجیدہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں تو وہ لوگ بھی افکارِ مودودیؒ سے شعوری اور لاشعوری طور پر متاثر ہوئے جو مولانا مودودیؒ کے سخت ترین مخالف تھے، اکثر خطباء مولانا مودودیؒ کی کتابیں پڑھ کر خطبہۂ جمعہ دیتے ہیں لیکن برائے وزن بیت رد مودودیؒ کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ لیکن وہ خطبے کا آغاز اسی فقرے سے کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔

اسی طرح یورپ کی یونیورسٹیوں میں اسلام پر جو کام ہوتا ہے، اس میں بھی اب یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے، وہ ایک مکمل تہذیب اور ایک کلچر ہے اور مغرب کے تمام مفکرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام زندہ ہے اور اس میں زندگی کے عناصر پوری طرح موجود ہیں صرف یہ نہیں بلکہ مغرب کے دانشور یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ اہلِ مغرب کے لیے مستقبل میں اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ اسلام ہے۔

سید معروف شاہ شیرازی

مودودیؒ لٹریچر