جہاد فی سبیل اﷲ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

پیش لفظ

یہ ایک تقریر ہے جو ۱۳؍اپریل ۱۹۳۹ء کو یومِ اقبال کے موقع پر ٹائون ہال، لاہور میں کی گئی تھی۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی، تقریر کا موضوع اور اس کے مباحث پرانے نہیں ہوئے ہیں، بلکہ موجودہ حالات میں ان کی معنویت اور اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ آج جہاد فی سبیل اﷲ کا جذبہ جس قدر عام اور عالمگیر ہو گیا ہے، اُسی قدر اس کا مفہوم و مقصود بھی اِبہام اور مغالطے کا شکار ہے۔

ایک طرف دنیا کی غالب قوتیں، اُن کے وظیفہ خوار افراد، ادارے اور حکومتیں اور ذرائع ابلاغ پورے زور و شور اور تمام وسائل اور قوت سے ’’جہاد‘‘ کو تخریب کاری، دہشت گردی اور خونریزی کا ہم معنی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے خوف زدہ اور الجھے ذہن کے مسلم دانشور، اہلِ قلم اور اہلِ سیاست و اقتدار جہاد کا انکار کرنے اور معذرت خواہی میں لگے ہوئے ہیں۔ تیسری جانب ’’جہاد‘‘ کی سرخی اور گہما گہمی بعض طالع آزمائوں کو شہرت و ناموری اور اظہارِ مردانگی کا وسیلہ اور بعض نادانوں کو اپنی ناآسودہ نفسیات کی تسکین کا سامان بھی نظر آنے لگی ہے۔ چوتھی جانب استعماری قوتوں کے ستائے ہوئے عامۃ المسلمین ہر شمشیر بکف اور کف بدہن فرد کو ’’مجاہد‘‘ اور اس کی ہر کارروائی کو ’’جہاد‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام کا نام لے کر کیے جانے والے ہر مسلح عمل اور ہر خونریزی کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ یہ کام اپنے، بیگانے اور عیار دشمن ’’کامل یکجہتی‘‘ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ گویا ’’جہاد‘‘ کا بازار تو خوب گرم ہے، لیکن ’’جہاد‘‘ اور ’’قتال‘‘ کا باہمی فرق اور باہمی تعلق و تناسب، ان کے مقاصد اور ان کی حکمتیں، حدود و شرائط اور ضابطے نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں یا کر دیے گئے ہیں۔ عملاً ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ اور ’’مسلمانوں کی قومی جنگ‘‘ کا فرق بھی مٹ گیا ہے یا مٹا دیا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ ’’جہاد‘‘ جیسے ایک مثبت، تعمیری اور Pro-active عمل کو منفی، انتقامی اور Re-active سلسلۂ واردات کا تشخص دے دیا گیا ہے۔

سید مودودیؒ نے جس عہد میں ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کی تشریح و توضیح کی تھی، یہ وہ عہد تھا جب ’’جہاد‘‘ کتابت میں، خطابت میں اور ماضی کی حکایت میں تو پایا جاتا تھا، لیکن اُمتِ مسلمہ کے ’’آج‘‘ سے اُس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ گویا یہ وجودِ مِلّی سے خارج ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ کہ ملتِ اسلامیہ ایک بے جان و منتشر گروہ بن کر رہ گئی تھی، کوئی پُردم اور پُرعزم جسدِ واحد نہیں تھی۔ مصنفِ مرحوم و مغفور نے اُمت کے اُس دورِ زوال میں نہ صرف کتاب اﷲ و سنتِ رسول اﷲ کے اس بھولے ہوئے سبق کو یاد دلایا، بلکہ اِس کا درست مفہوم بھی واضح کیا اور عملاً بھی اپنی پوری زندگی اسی کے مطابق اِقامتِ دین کی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی اور دنیا سے اس طرح رخصت ہوئے (۱۹۷۹ء) کہ جہاد فی سبیل اﷲ کی رَو مشرق و مغرب میں دوڑ رہی تھی اور انسانی تاریخ کے اِس عہدِ جدید میں ملّتِ اسلامیہ ’’اﷲ کے راستے میں جہاد‘‘ (جہاد فی سبیل اﷲ) کی لذت سے ایک بار پھر آشنا ہو چکی تھی۔

اُمتِ مسلمہ اور خصوصاً احیائے اسلامی کے خواہاں اور اس کے لیے کوشاں اہلِ ایمان اور تحریکوں کو آج ایک اور بڑا چیلنج بھی درپیش ہے۔ ’’جہاد‘‘ کے ابھرتے ہوئے تر و تازہ شجرِ ثمر بار کے خوف نے ابلیسی قوتوں کو تو بجاطور پر متحیر اور خوف زدہ کر ہی دیا ہے، لیکن اس حیات بخش عملِ خیر کا رُوئے زیبا ابھی پوری انسانیت اور خود اہلِ اسلام کی نظروں سے اوجھل ہے، جیسے کہ چودھویں کے چاند کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا ہو۔ چنانچہ ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے روح پرور، حیات آفریں اور پوری انسانیت کے لیے بابرکت و بارحمت اِس رُخِ زیبا سے پردہ ہٹانا ملتِ اسلامیہ کا فرض اور تمام بنی نوعِ آدم کا قرض ہے، جو ابھی ادا ہونا باقی ہے۔

’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کا مفہوم کیا ہے، مقصود کیا ہے اور اُمتِ مسلمہ کے مقصدِ وجود سے اس کا کیا اور کتنا تعلق ہے، یہ جاننے کے لیے یہ مختصر کتابچہ نہایت کارآمد، بلکہ اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اسے ازسرِ نو شائع کیا جارہا ہے۔ جو قارئین اِس موضوع پر زیادہ وسیع و عمیق معلومات چاہتے ہیں، اُن کے لیے مصنف کی کتابیں، خصوصاً ’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’تجدید و احیائے دین‘‘ اور ’’تصریحات‘‘ کا مطالعہ مفید ہو گا۔

سید شاہد ہاشمی

اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی

جِہاد فی سبیل اﷲ

عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holy War) ’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے‘ اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ اس انداز میں کی جاتی رہی ہے کہ اب یہ لفظ ’’جوشِ جنون‘‘ کا ہم معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کو سنتے ہی آدمی کی آنکھوں میں کچھ اس طرح کا نقشہ پھرنے لگتا ہے کہ مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے‘ داڑھیاں چڑھائے‘ خونخوار آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلاآرہا ہے۔ جہاں کسی کافر کو دیکھ پاتا ہے پکڑلیتا ہے اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہے کہ بول لا الہ الا اللہ‘ ورنہ ابھی سرتن سے جدا کردیا جاتا ہے۔ ماہرین نے ہماری یہ تصویر بڑی قلمکاریوں کے ساتھ بنائی ہے اور اس کے نیچے موٹے حرفوں میں لکھ دیا ہے کہ ۔۔۔

بُوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے

لطف یہ ہے کہ اس تصویر کے بنانے والے ہمارے وہ مہربان ہیں‘ جو خود کئی صدیوں سے انتہا درجہ کی غیر مقدس جنگ (Un-Holy War) میں مشغول ہیں۔ ان کی اپنی تصویر یہ ہے کہ دولت اور اقتدار کے بھوکے ہر قسم کے اسلحہ سے مسلح ہوکر قزاقوں کی طرح ساری دنیا پر پل پڑے ہیں اور ہر طرف تجارت کی منڈیاں‘ خام پیداوار کے ذخیرے‘ نوآبادیاں‘ بسانے کے قابل زمینیں اور معدنیات کی کانیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں تاکہ اپنی حرص کی کبھی نہ بجھنے والی آگ کے لیے ایندھن فراہم کریں۔ ان کی جنگ خدا کی راہ میں نہیں‘ بلکہ پیٹ کی راہ میں ہے‘ ہوس اور نفسِ امارہ کی راہ میں ہے۔ ان کے نزدیک کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے بس یہ کافی وجۂ جواز ہے کہ اس کی زمین میں کانیں ہیں‘ یا اجناس کافی پیدا ہوتی ہیں‘ یا وہاں تیل نکل آیا ہے‘ یا ان کے کارخانوں کا مال وہاں اچھی طرح کھپایا جاسکتا ہے‘ یا اپنی زائد آبادی کو وہاں آسانی کے ساتھ بسایا جاسکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو اس قوم کا یہ گناہ بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے ملک کے راستے میں رہتی ہے جس پر یہ پہلے قبضہ کرچکے ہیں‘ یا اب قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو جو کچھ کیا‘ وہ زمانۂ ماضی کا قصہ ہے اور ان کے کارنامے حال کے واقعات ہیں‘ جو شب و روز دنیا کی آنکھوں کے سامنے گزرے ہیں۔ ایشیاء‘ افریقہ‘ یورپ‘ امریکا‘ غرض کرۂ زمین کا کون سا حصہ بچا رہ گیا ہے جو ان کی اس غیر مقدس جنگ سے لالہ زار نہیں ہو چکا؟ مگر ان کی مہارت قابلِ داد ہے۔ انھوں نے ہماری تصویر اتنی بھیانک اور اتنی بری بنائی کہ خود ان کی تصویر اس کے پیچھے چھپ گئی‘ اور ہماری سادہ لوحی بھی قابلِ داد ہے۔ جب ہم نے غیروں کی بنائی ہوئی اپنی یہ تصویر دیکھی تو ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ ہمیں اس تصویر کے پیچھے جھانک کر خود مصوّروں کی صورت دیکھنے کا ہوش ہی نہ آیا اور لگے معذرت کرنے کہ حضور! بھلا ہم جنگ و قتال کیا جانیں۔ ہم تو بھکشوئوں اور پادریوں کی طرح ’’پرامن مبلغ لوگ‘‘ ہیں۔ چند مذہبی عقائد کی تردید کرنا اور ان کی جگہ کچھ دوسرے عقائد لوگوں سے تسلیم کرالینا۔۔۔ بس یہ ہمارا کام ہے۔ ہمیں تلوار سے کیا واسطہ؟ البتہ اتنا قصور کبھی کبھار ہم سے ضرور ہوا ہے کہ جب کوئی ہمیں مارنے آیا تو ہم نے بھی جواب میں ہاتھ اٹھایا۔ سو اب تو ہم اس سے بھی توبہ کرچکے ہیں۔ حضور کی طمانیت کے لیے تلوار والے جہاد کو سرکاری طور پرمنسوخ کردیا گیا ہے۔ اب تو جہاد فقط زبان و قلم کی کوشش کا نام ہے۔ توپ اور بندوق چلانا سرکار کا کام ہے اور زبان و قلم چلانا ہمارا کام۔

جہاد کے متعلق غلط فہمی کے اسباب:

خیر‘ یہ تو سیاسی چالوں کی بات ہے۔ مگر خالص علمی حیثیت سے جب ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں‘ جن کی وجہ سے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی حقیقت کو سمجھنا غیر مسلموں ہی کے لیے نہیں‘ خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے‘ تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوں کا سراغ ملتا ہے۔

پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک ’’مذہب‘‘ سمجھ لیا گیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً بولا جاتا ہے۔۔۔ دوسری غلط فہمی یہ کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک ’’قوم‘‘ سمجھ لیاگیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہے۔

ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلہ کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشہ کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کرکے رکھ دی ہے۔

’’مذہب‘‘ کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں‘ اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جب کہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک ’’مذہب‘‘ قرار دے لیں۔۔۔ اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجۂ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔

اسی طرح ’’قوم‘‘ کے معنی اس کے سوا کیا ہیںکہ وہ ایک متجانس گروہِ اشخاص (Homogenous Group of Men) کا نام ہے۔ جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہو۔ اس معنی میںجو گروہ ایک قوم ہو‘ وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھاسکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے‘ یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیر تلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز بھی موجود ہے (اگرچہ بعض دھرماتمائوں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے)۔ لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا‘ حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبّرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔

جِہاد کی حقیقت:

پس اگر اسلام ایک ’’مذہب‘‘ اور مسلمان ایک ’’قوم‘‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا گیا ہے‘ سرے سے ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی ’’مذہب‘‘ کا اور ’’مسلمان‘‘ کسی ’’قوم‘‘ کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے‘ جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (Social Order) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے۔۔۔ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا اور اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔

تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی زبان (Terminology) اختیار کرتا ہے‘ تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہو سکیں۔ لفظ ’’جہاد‘‘ بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (War) کے مفہوم کوادا کرتے ہیں قصداً ترک کر دیے اور ان کی جگہ ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو (Struggle) کا ہم معنی ہے‘ بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جاسکتا ہے۔

To Exert One`s Utmost Endeavour in Furthering a Cause.

یعنی ’’اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کردینا‘‘۔

سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’جنگ‘‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہورہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک محض ایسے شخصی یااجتماعی مقاصد ہوتے ہیںجن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے‘ اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے۔ وہ اس سے کوئی دلچسپی نہیںرکھتاکہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا۔ اس کی دلچسپی جس سے ہے‘ وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے‘ اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو یا کوئی ملک ہو۔ اس کا مدعا اور مقصود اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے‘ بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑتی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے۔۔۔ زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرئہ زمین۔۔۔ اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے۔ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اسلام کے پاس ہے۔۔۔ یا بالفاظِ صحیح تر یوں کہئے کہ فلاحِ انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔۔۔ اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے‘ جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہوسکتی ہیں۔۔۔ اور ان سب طاقتوں کے استعمال کا ایک جامع نام ’’جہاد‘‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظامِ زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔

’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی لازمی قید:

لیکن اسلام کا جہاد نِرا ’’جہاد‘‘ نہیں ہے۔۔۔ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس طرف ابھی میں اشارہ کرچکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’راہِ خدا میں‘‘ اس ترجمے سے لوگ غلط فہمی میں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگوں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا‘ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔۔۔ کیونکہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’’راہِ خدا‘‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سما سکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو‘ بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو۔۔۔ اسلام ایسے کام کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے‘ تو یہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ نہیں ہے۔۔۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے کہ ایک غریب انسان کی مدد کرکے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں‘ تو یہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ‘ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہوکر‘ اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالکِ کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

’’جہاد‘‘ کے لیے بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظامِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے‘ تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہوکہ قیصر کو ہٹا کر‘ وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت‘ یا شہرت و ناموری‘ یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مدعا صرف یہ ہو کہ بندگانِ خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظامِ زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضہ میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔

اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ۔۔۔ (النساء:۷۶)

’’جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے‘ وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے‘ وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں‘‘۔

’’طاغوت‘‘ کا مصدر ’’طغیان‘‘ ہے جس کے معنی ’’حد سے گزرجانے‘‘ کے ہیں۔ دریا جب اپنی حد سے گزرجاتا ہے تو آپ کہتے ہیں طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی جائز حد سے گزرکر اس غرض کے لیے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے کہ انسانوں کا خدا بن جائے یا اپنے مناسب حصہ سے زائد فوائد حاصل کرے‘ تو یہ طاغوت کی راہ میں لڑنا ہے۔۔۔ اور اس کے مقابلہ میں راہِ خدا کی جنگ وہ ہے‘ جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ خدا کا قانونِ عدل دنیا میں قائم ہو‘ لڑنے والا خود بھی اس کی پابندی کرے اور دوسروں سے بھی اس کی پابندی کرائے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَیُرِیْدُوْنَ عُلُوًا فِیْ الْاَرْضِ وَلَافَسَادًاط وَالْعَاقِبَۃُ لَّلْمُتَّقِیْنَ (القصص:۸۳)

’’آخرت میں عزت کا مقام تو ہم نے صرف ان لوگوں کے لیے رکھا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنا اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ عاقبت کی کامیابی صرف خدا ترس لوگوں کے لیے ہے‘‘۔

حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔۔۔ ’’راہِ خدا کی جنگ سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص مال کے لیے جنگ کرتا ہے‘ دوسرا شخص بہادری کی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے‘ تیسرے شخص کو کسی سے عداوت ہوتی ہے یا قومی حمیت کا جوش ہوتا ہے‘ اس لیے جنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے‘‘؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔۔۔ ’’کسی کی بھی نہیں۔ فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے‘ جو خدا کا بول بالا کرنے کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتا‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے جنگ کی اور اس کے دل میں اونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی بھی نیت ہوئی تو اس کا اجر ضائع ہوگیا‘‘۔ اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو محض اس کی خوشنودی کے لیے ہو اور کوئی شخصی یا جماعتی غرض پیشِ نظر نہ ہو۔ پس جہاد کے لیے ’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی قید اسلامی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مجرد جہاد تو دنیا میں سب ہی جان دار کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے اپنا پورا زور صرف کررہا ہے‘ لیکن ’’مسلمان‘‘ جس انقلابی جماعت کا نام ہے اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ‘ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپائو‘ دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو‘ اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کردو۔۔۔ نہ اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم ان کی جگہ لے لو۔۔۔ بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طُغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذ ہو۔

جہاد کے اس مفہوم اور فی سبیل اللہ کی اس معنویت کو مختصراً بیان کردینے کے بعد‘ میں اس دعوتِ انقلاب کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے‘ تاکہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھا جاسکے کہ اس دعوت کے لیے جہاد کی حاجت کیا ہے؟ اور اس کی غایت (Objective) کیا ہے؟

اسلام کی دعوتِ انقلاب:

اسلام کی دعوتِ انقلاب کا خلاصہ یہ ہے:

یَاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ۔۔۔ (البقرہ:۲۱)

’’لوگو! صرف اپنے اُس رب کی بندگی کرو‘ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے‘‘۔

اسلام مزدوروں یا زمینداروں یا کاشت کاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا‘ بلکہ تمام انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہو‘ تو اسے چھوڑ دو۔ اگر خود تمہارے اندر خدائی کا داعیہ ہے‘ تو اسے بھی دماغ سے نکال دو‘ کیونکہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں کا سر اپنے آگے جھکوانے کا حق تم میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ تم سب کو ایک خدا کی بندگی قبول کرنی چاہیے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہیے۔

تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔۔۔ (آل عمران:۶۴)

’’آئو ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور خداوندی میں کسی کو اس کا شریک بھی نہ ٹھہرائیں‘ اور ہم میں سے کوئی اﷲ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے‘‘۔

یہ عالمگیر اور کلی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس نے پکار کر کہا کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلَّہِ۔۔۔ ’’حکومت‘ سوائے خدا کے اور کسی کی نہیں ہے‘‘۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذاتِ خود انسانوں کا حکمران بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے‘ حکم دے اور جس چیز سے چاہے‘ روک دے۔ کسی انسان کو بالذات اَمرونَہی کا مالک سمجھنا دراصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے اور دنیا میں یہی اصل بِنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کوجس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جو سیدھا راستہ اسے بتایا ہے‘ اس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں۔۔۔ اور نتیجتاً خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کردیتے ہیں۔ اس کا انجام پھر لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنالیتے ہیں۔۔۔ اور دوسری طرف اسی خدا فراموشی و خود فراموشی کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ طاقتوروں کی خداوندی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ وہ حکم کریں اور یہ اس حکم کے آگے سرجھکادیں۔ یہی دنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز اِنتفاع (Exploitation) کی بنیاد ہے اور اسلام پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ ہانکے پکارے کہتا ہے:

وَلَا تُطِیْعُوْا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ o الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَo (الشعراء: ۱۵۱و۱۵۲)

’’اور ان لوگوں کا حکم ہرگز نہ مانو‘ جو اپنی جائز حد سے گزرگئے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے‘‘۔

وَلَاتُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہُ فُرُطًا (الکہف:۲۸)

’’اور اس شخص کی اطاعت ہرگز مت کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشاتِ نفس کا بندہ بن گیا ہے اور جس کا کام افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔

۔۔۔اَلَالَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ o الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا۔۔۔ (ھود:۱۹)

’’خدا کی لعنت ان ظالموں پر‘ جو خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے سیدھے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اس کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

وہ لوگوں سے پوچھتا ہے کہ

ئَاَرْبَابٌ مُّتََفرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ؟ (یوسف:۳۹)

’’بہت سے چھوٹے بڑے خدا‘ جن کی بندگی میں تم پسے جارہے ہو‘ ان کی بندگی قبول ہے‘ یا اس ایک خدا کی جو سب سے زبردست ہے‘‘؟

اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کروگے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خدائوں کی آقائی سے تمہیں کبھی نجات نہ مل سکے گی۔ یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پائیں گے‘ اور فساد برپا کرکے رہیںگے:

۔۔۔اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً وَکَذٰالِکَ یَفْعَلُوْنَo (النمل:۳۴)

’’یہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں‘ تو اس کے نظامِ حیات کو تہ و بالا کرڈالتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور ان کا یہی وطیرہ ہے‘‘۔

وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَط وَاللَّہُ لَایُحِبُّ الْفَسَادَo (بقرہ:۲۰۵)

’’اور جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے‘ تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے‘ کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے۔۔۔ اور اﷲ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

یہاں پوری تفصیل کا موقع نہیں۔ مختصراً میں یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی دعوتِ توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی‘ جس میںعام طور پر مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے۔۔۔ بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب (Social Revolution) کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلاواسطہ ان طبقوں پر پڑتی تھی‘ جنہوں نے مذہبی رنگ میں پروہت بن کر‘ یاسیاسی رنگ میں بادشاہ اور رئیس اور حکمراں گروہ بن کر‘ یا معاشی رنگ میں مہاجَن اور زمیندار اور اِجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ اَرْبَابُ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ بنے ہوئے تھے‘ دنیا سے اپنے پیدائشی یا طبقاتی حقوق کی بنا پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ:

مَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ الٰہٍ غَیْرِیْ۔۔۔ ’’میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘۔

اور۔۔۔ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَ عْلٰی۔۔۔ ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘۔

اور۔۔۔ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْت۔۔۔ ’’میں جِلاتا ہوں اور مارتا ہوں‘‘۔

اور کسی جگہ انھوں نے عامۃ الناس کی جہالت کو استعمال (Exploit) کرنے کے لیے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنارکھے تھے‘ جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگانِ خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفر و شرک اور بت پرستی کے خلاف اسلام کی دعوت۔۔۔ اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لیے اسلام کی تبلیغ۔۔۔ براہِ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والے یا اس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے جب کبھی کسی نبی نے یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ کی صدا بلند کی‘ حکومتِ وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔۔۔ کیونکہ یہ محض ایک مابعد الطبیعی قضیہ (Metaphysical Proposition) کا بیان نہ تھا‘ بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا۔۔۔ اور اس میں پہلی آواز سنتے ہی سیاسی شورش کی بو سونگھ لی جاتی تھی۔

اسلامی دعوتِ انقلاب کی خصوصیت:

اس میں شک نہیں کہ انبیاء علیہم السلام سب کے سب انقلابی لیڈر تھے۔۔۔ اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑے انقلابی لیڈر ہیں۔ لیکن جوچیز دنیا کے عام انقلابیوں اور ان خدا پرست انقلابی لیڈروں کے درمیان واضح خطِ امتیاز کھینچتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ دوسرے انقلابی لوگ خواہ کتنے ہی نیک نیت کیوں نہ ہوں‘ عدل اور توسط کے صحیح مقام کو نہیں پاسکتے۔ وہ یا تو خود مظلوم طبقوں میں سے اٹھتے ہیں یا ان کی حمایت کا جذبہ لے کر اٹھتے ہیں اور پھر سارے معاملات کو انہی طبقوں کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر غیر جانبدارانہ اور خالص انسانیت کی نظر نہیں ہوتی‘ بلکہ ایک طبقے کی طرف حمایت کا جذبہ لیے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ ظلم کا ایسا علاج سوچتے ہیں جو نتیجتاً ایک جوابی ظلم ہوتا ہے۔ ان کے لیے انتقام‘ حسد اور عداوت کے جذبات سے پاک ہوکر‘ ایک ایسا معتدل اور متوازن اجتماعی نظام تجویز کرنا‘ ممکن نہیں ہوتا جس میں مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح ہو۔ بخلاف اس کے انبیاء علیہم السلام خواہ کتنے ہی ستائے گئے ہوں اور کتنا ہی ان پر اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کیا گیا ہو‘ ان کی انقلابی تحریک میں کبھی ان کے شخصی جذبات کا اثر نہیں پایا گیا۔ وہ براہِ راست خدا کی ہدایت کے تحت کام کرتے تھے۔۔۔ اور خدا چونکہ انسانی جذبات سے منزّہ ہے‘ کسی انسانی طبقے سے اس کا مخصوص رشتہ نہیں‘ نہ کسی دوسرے انسانی طبقے سے اس کو کوئی شکایت یا عداوت ہے۔۔۔ اس لیے خدا کی ہدایت کے تحت انبیاء علیہم السلام تمام معاملات کو بے لاگ انصاف کے ساتھ اس نظر سے دیکھتے تھے کہ تمام انسانوں کی مجموعی فلاح و بہبود کس چیز میں ہے۔۔۔ کس طرح ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں ہر شخص اپنی جائز حدود کے اندر رہ سکے۔۔۔ اپنے جائز حقوق سے متمتع ہوسکے اور افراد کے باہمی روابط‘ نیز فرد اور جماعت کے باہمی تعلق میںکامل توازن قائم ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی انقلابی تحریک کبھی طبقاتی نزاع (Class War) میں تبدیل نہ ہونے پائی۔ سماجی تعمیرِ نو (Social Reconstruction) اس طرز پر نہیں کی کہ ایک طبقے کو دوسرے طبقے پر مسلط کر دیں۔ بلکہ اس کے لیے عدل کا ایسا طریقہ اختیار کیا‘ جس میں تمام انسانوں کے لیے ترقی اور مادی و روحانی سعادت کے یکساں امکانات رکھے گئے تھے۔

جِہاد کی ضرورت اور اس کی غایت:

اس مختصر مقالہ میں میرے لیے اس اجتماعی نظام (Social Order) کی تفصیلات پیش کرنا مشکل ہے‘ جو اسلام نے تجویز کیا ہے۔ تفصیل کا موقع ان شاء اللہ عنقریب آئے گا۔ یہاں اپنے موضوع کی حد میں رہتے ہوئے جس بات کو مجھے واضح کرنا تھا‘ وہ صرف یہ تھی کہ اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور چند عبادات کا مجموعہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک سسٹم ہے جو دنیا سے زندگی کے تمام ظالمانہ اور مفسدانہ نظامات کو مٹانا چاہتا ہے اور ان کی جگہ اپنا ایک اصلاحی پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے‘ جس کو وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے سب سے بہتر سمجھتا تھا۔

اس تخریب و تعمیراور انقلاب و اصلاح کے لیے وہ کسی ایک قوم یاگروہ کو نہیں‘ بلکہ تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے۔ وہ خود ان ظالم طبقوں اور ناجائز انتفاع کرنے والے گروہوں ‘ حتیٰ کہ بادشاہوں اور رئیسوں کو بھی پکارتا ہے کہ آئو! اس جائز حد کے اندر رہنا قبول کرلو‘ جو تمہارے خالق نے تمہارے لیے مقرر کی ہے۔ اگر تم عدل اور حق کے نظام کو قبول کرلوگے‘ تو تمہارے لیے امن اور سلامتی ہے۔ یہاں کسی انسان سے دشمنی نہیں ہے۔ دشمنی جو کچھ بھی ہے ظلم سے ہے‘ فساد سے ہے‘ بداخلاقی سے ہے‘ اس بات سے ہے کہ کوئی شخص اپنی فطری حد سے تجاوز کرکے وہ کچھ حاصل کرنا چاہے جو فطرتُ اللہ کے لحاظ سے اس کا نہیں ہے۔

یہ دعوت جولوگ بھی قبول کرلیں وہ خوا ہ کسی طبقے‘ کسی نسل‘ کسی قوم اور کسی ملک کے ہوں‘ یکساں حقوق اور مساویانہ حیثیت سے اسلامی جماعت کے رکن بن جاتے ہیں۔۔۔ اور اس طرح وہ ’’بین الاقوامی انقلابی پارٹی‘‘ تیار ہوتی ہے‘ جسے قرآن ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے اور جس کادوسرا نام ’’اسلامی جماعت‘‘ یا ’’امت مسلمہ‘‘ ہے۔

یہ پارٹی وجود میں آتے ہی اپنے مقصدِ وجود کی تحصیل کے لیے جہاد شروع کردیتی ہے۔ اس کے عین وجود کا اقتضاء یہی ہے کہ یہ غیر اسلامی نظام کی حکمرانی کو مٹانے کی کوشش کرے اور اس کے مقابلہ میں تمدن و اجتماع کے اس معتدل و متوازن ضابطہ کی حکومت قائم کرے۔ جسے قرآن ایک جامع لفظ ’’کلمۃ اللّٰہ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر یہ پارٹی حکومت کو بدلنے اور اسلامی نظامِ حکومت قائم کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کے وجود میں آنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ کسی اور مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہے۔۔۔ اور اس جہاد کے سوا اس کی ہستی کا اور کوئی مصرف نہیں۔ قرآن اس کی پیدائش کا ایک ہی مقصد بیان کرتا ہے اور وہ یہ ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔۔۔ (آل عمران:۱۱۰)

’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو‘ جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

یہ مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین (Preachers) اور مبشرین (Missionaries) کی جماعت نہیں ہے‘ بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے۔۔۔ لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ۔۔۔ اور اس کا کام یہ ہے کہ دنیا سے ظلم‘ فتنہ‘ فساد ‘ بداخلاقی‘ طُغیان اور ناجائز انتفاع کو بزور مٹا دے۔ ارباب من دون اللہ کی خداوندی کو ختم کر دے‘ بدی کی جگہ نیکی قائم کرے۔

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃُ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ۔۔۔ (البقرۃ:۱۹۳)

’’تم ان سے لڑتے رہو‘ یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اﷲ کے لیے ہو جائے‘‘۔

اِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ۔۔۔ (الانفال:۷۳)

’’اگر تم ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو گے‘ تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا‘‘۔

ھُوَ الَّذِیٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔۔۔ (التوبہ:۳۳)

’’وہ اﷲہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ تاکہ تمام اطاعتوں کو مٹا کر اسی ایک اطاعت کو سب پر غالب کر دے‘ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

لہٰذا اس پارٹی کے لیے حکومت کے اقتدار پرقبضہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ مفسدانہ نظامِ تمدن ایک فاسد حکومت کے بل پر قائم ہوتا ہے اور ایک صالح نظامِ تمدن اس وقت تک کسی طرح قائم نہیںہوسکتا‘ جب تک کہ حکومت‘ مفسدین سے مسلوب ہوکر (چِھن کر) مصلحین کے ہاتھ میں نہ آجائے۔

دنیا کی اصلاح سے قطع نظر اس جماعت کے لیے خود اپنے مسلک پر عامل ہونا بھی غیر ممکن ہے اگر حکومت کا نظام کسی دوسرے مسلک پر قائم ہو۔ کوئی پارٹی جو کسی سسٹم کو برحق سمجھتی ہو‘ کسی دوسرے سسٹم کی حکومت میں اپنے مسلک کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ ایک اشتراکی مسلک کاآدمی اگر انگلستان یاامریکا میں رہ کر اشتراکیت کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہے‘ تو کسی طرح اپنے اس ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔۔۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ضابطۂ حیات حکومت کی طاقت سے بجبر اس پر مسلط ہوگا اور وہ اس کی قہرمانی سے کسی طرح بچ نہ سکے گا۔ اسی طور پر ایک مسلمان بھی اگر کسی غیر اسلامی نظامِ حکومت میں رہ کر اسلامی اصول پر زندگی بسر کرنا چاہے تو اس کا کامیاب ہونا محال ہے۔ جن قوانین کو وہ باطل سمجھتا ہے‘ جن ٹیکسوں کو وہ حرام سمجھتا ہے‘ جن معاملات کو وہ ناجائز سمجھتا ہے‘ جس تہذیب اور جس طرزِ زندگی کو وہ فاسد سمجھتا ہے‘ جس طریقِ تعلیم کو وہ مہلک سمجھتا ہے‘ وہ سب کے سب اس پر‘ اس کے گھر بار پر‘ اس کی اولاد پر اس طرح مسلط ہوجائیں گے کہ وہ کسی طرح ان کی گرفت سے بچ کر نہ نکل سکے گا۔ لہذا جو شخص یا گروہ کسی مسلک پر اعتقاد رکھتا ہو وہ اپنے اعتقاد کے فطری اقتضا ہی سے اس امر پر مجبور ہوتا ہے کہ مسلکِ مخالف کی حکومت کو مٹانے اور اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے۔۔۔ کیونکہ مخالف نظریے کی حکومت مسلط ہو تو اس صورت میں وہ خود اپنے مسلک پرعمل نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اس کوشش سے غفلت برتتا ہے تو اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیقت اپنے عقائد ہی میں جھوٹا ہے۔

عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعَلَمَ الْکٰذِبِیْنَo لَایَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاَخِرِاَنْ یُّجِاھِدُوْا بِاَمْوِالِھِمْ وِاَنْفُسِھِمْط وَاﷲُ عَلِیْمٌم بِالْمُتَّقِیْنَ o اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَo (التوبہ:۴۳تا۴۵)

’’اے نبیؐ! اﷲ تمہیں معاف کرے‘ تم نے کیوں ان لوگوں کو جہاد میں شرکت سے رخصت دے دی؟ تمہیں اجازت نہ دینی چاہیے تھی‘ تاکہ یہ بات تم پر کھل جاتی کہ اپنے ایمان میں سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ جو لوگ اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں‘ وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہیں کرسکتے کہ انھیں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔۔۔ اﷲ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔۔۔ ایسی درخواست تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ آخر پر‘ اور جن لوگوں کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں‘‘۔

ان الفاظ میں قرآن نے صاف اور صریح فتویٰ دے دیا ہے کہ اپنے اعتقاد (Conviction) میں کسی جماعت کے صادق ہونے کا واحد معیار یہی ہے کہ وہ جس مسلک پر اعتقاد رکھتی ہو‘ اس کو حکمران بنانے کے لیے جان و مال سے جہاد کرے۔ اگر تم مسلکِ مخالف کی حکومت کو گوارا کرتے ہو تو یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ تم اپنے اعتقاد میں جھوٹے ہو۔۔۔ اور اس کا فطری نتیجہ یہی ہے اور یہی ہوسکتا ہے کہ آخر کار اسلام کے مسلک پرتمہارا نام نہاد عقیدہ بھی باقی نہ رہے گا۔ ابتدا میں تم مسلکِ مخالف کی حکومت بکراہت گوارہ کرو گے‘ پھر رفتہ رفتہ تمہارے دل اس سے مانوس ہوتے چلے جائیں گے‘ یہاں تک کہ کراہت رغبت سے بدل جائے گی۔۔۔ اور آخر میں نوبت اس حد تک پہنچے گی کہ مسلکِ مخالف کی حکومت قائم ہونے اور قائم رہنے میں تم خود مددگار بنو گے۔۔۔ اپنی جان و مال سے جہاد اس لیے کرو گے کہ مسلکِ اسلام کے بجائے مسلکِ غیر اسلام قائم ہو یا قائم رہے۔۔۔ تمہاری اپنی طاقتیں مسلکِ اسلام کے قیام کی مزاحمت میں صرف ہونے لگیں گی اور یہاں پہنچ کر تم میں اور کافروں میں اسلام کے منافقانہ دعویٰ ‘ ایک بدترین جھوٹ‘ ایک پُرفریب نام کے سوا کوئی فرق نہ رہے گا۔ حدیث میںنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نتیجہ کو صاف صاف بیان فرمادیا ہے۔

والذی نفسی بیدہ لتامرون بالمعروف ولتنھن عن المنکر ولتاخذن ید المسی ولتطرنہ علی الحق اطراء ولنضربن اللہ قلوب بعضکم علی بعض اولیلعنکم کما لعنھم۔

’’اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔۔۔ یا تو تمہیں نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا ہو گا۔۔۔ اور بدکار کا ہاتھ پکڑنا اور اسے حق کی طرف بزور موڑنا ہو گا۔۔۔ یا پھر اللہ کے قانونِ فطرت کا یہ نتیجہ ظاہر ہوکر رہے گا کہ بدکاروں کے دلوں کا اثر تمہارے دلوں پر بھی پڑجائے اور ان کی طرح تم بھی ملعون ہوکر رہو‘‘۔

عالمگیر انقلاب:

اس بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اسلامی جہاد کا مقصود (Objective) غیراسلامی نظام کی حکومت کو مٹا کر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلام یہ انقلاب صرف ایک ملک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ ابتدا مسلم پارٹی کے ارکان کا فرض یہی ہے کہ جہاں جہاں وہ رہتے ہوں‘ وہاں کے نظامِ حکومت میں انقلاب پیدا کریں لیکن ان کی آخری منزلِ مقصود ایک عالمگیر انقلاب (World Revolution) کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی انقلابی مسلک جو قومیت کے بجائے انسانیت کی فلاح کے اصول لے کر اٹھا ہو‘ اپنے انقلابی مطمع نظر کو کبھی ایک ملک یا ایک قوم کے دائرے میں محدود نہیں کرسکتا۔ بلکہ وہ اپنی فطرت کے عین اقتضاء ہی سے مجبور ہے کہ عالمگیر انقلاب کو اپنا مطمع نظر بنائے۔ حق‘ جغرافی حدود کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اگر کسی پہاڑ یا دریا کے اس پار حق ہوں تو اس پار بھی حق ہوں۔ نوعِ انسانی کے کسی حصہ کو بھی مجھ سے محروم نہ رہنا چاہیے۔ انسان جہاں بھی ظلم و ستم کا اور افراط و تفریط کا تختہ مشق بنا ہوا ہے وہاں اس کی مدد کے لیے پہنچنا میرا فرض ہے۔ اسی تخیل کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

وَمَالَکُمْ لَاْتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرَّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِالْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِھِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُہَا۔۔۔ (النساء:۷۵)

’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے‘ جنہیں کمزور پاکر دبالیا گیا ہے اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا! ہمیں اس بستی سے نکال‘ جس کے باشندے ظالم ہیں‘‘۔

علاوہ بریں قومی اور ملکی تقسیمات کے باوجود انسانی تعلقات و روابط کچھ ایسی عالمگیری اپنے اندر رکھتے ہیں کہ کوئی ایک مملکت اپنے اصول و مسلک کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کرسکتی‘ جب تک کہ ہمسایہ ممالک میں بھی وہی اصول و مسلک رائج نہ ہوجائے۔ لہٰذا مسلم پارٹی کے لیے اصلاحِ عمومی اور تحفظِ خودی‘ دونوں کی خاطر یہ ناگزیر ہے کہ کسی ایک خطہ میںاسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے۔۔۔ بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں‘ اس نظام کو تمام اطراف میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ وہ ایک طرف اپنے افکار و نظریات کو دنیا میں پھیلائے گی اور تمام ممالک کے باشندوں کو دعوت دے گی کہ اس مسلک کو قبول کریں‘ جس میں ان کے لیے حقیقی فلاح مضمر ہے۔ دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہو گی تو وہ لڑکر غیراسلامی حکومتوں کو مٹادے گی اور ان کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرے گی۔

یہی پالیسی تھی‘ جس پر رسول اللہﷺ نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب۔۔۔ جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی۔۔۔ سب سے پہلے اُسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی۔ پھر جب ان کے برسرِاقتدار لوگوں نے اس دعوتِ اصلاح کو رد کر دیا تو آپؐ نے ان کے خلاف جنگی کارروائی کا تہیہ کرلیا۔ غزوہ تبوک اسی سلسلہ کی ابتداء تھی۔ آنحضرﷺت کے بعد جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس ’’انقلابی پارٹی‘‘ کے لیڈر ہوئے تو انھوں نے روم اور ایران‘ دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حملے کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچادیا۔ مصر و شام اور روم و ایران کے عوام اول اول اس کو عرب قوم کی استعماری (Imperialist) پالیسی سمجھے۔ انھوں نے خیال کیا کہ جس طرح پہلے ایک قوم دوسری قوم کو غلام بنانے کے لیے نکلا کرتی تھی‘ اسی طرح اب بھی ایک قوم اسی غرض کے لیے نکلی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر یہ لوگ قیصر وکسریٰ کے جھنڈے تلے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلے۔ مگر جب ان پر مسلم پارٹی کے انقلابی مسلک کا حال کھلا۔۔۔ اور جب انھیںمعلوم ہوا کہ یہ جفاکارانہ قوم پرستی (Aggressive Nationalism) کے علمبردار نہیں ہیں‘ بلکہ قومی اغراض سے پاک ہیں اور محض ایک عادلانہ نظام قائم کرنے آئے ہیں۔۔۔ اور ان کا مقصد درحقیقت ان ظالم طبقوں کی خداوندی کو ختم کرنا ہے‘ جو قیصریت و کِسرویت کی پناہ میں ہم کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔۔۔ تو ان کی اخلاقی ہمدردیاں مسلم پارٹی کی طرف ہو گئیں۔ وہ قیصر و کِسریٰ کے جھنڈے سے الگ ہوتے چلے گئے اور اگرمارے باندھے سے فوج میں بھرتی ہوکر لڑنے آئے بھی‘ تو بے دلی سے لڑے۔ یہی سبب ہے اُن حیرت انگیز فتوحات کا‘ جو ابتدائی دور میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔۔۔ اور یہی سبب ہے اس کا کہ اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد جب ان ممالک کے باشندوں نے اسلامی نظامِ اجتماعی کو عملاً کام کرتے ہوئے دیکھا‘ تو وہ خود اس ’’بین الاقوامی پارٹی‘‘ میں شریک ہوتے چلے گئے اور خود اس مسلک کے علمبردار بن کر آگے بڑھے تاکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کو پھیلادیں۔

جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم غیر متعلق ہے:

یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ اس پر جب آپ غور کریں گے تو یہ بات بآسانی آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ جنگ کی جوتقسیم جارحانہ (Aggressive) اور مدافعانہ (Defensive) کی اصطلاحوں میں کی گئی ہے‘ اس کا اطلاق سرے سے ’’اسلامی جہاد‘‘ پر ہوتا ہی نہیں۔ یہ تقسیم صرف قومی اور ملکی لڑائیوں پر ہی منطبق ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اصطلاحاً ’’حملہ‘‘ اور ’’مدافعت‘‘ کے الفاظ ‘ایک ملک یا ایک قوم کی نسبت سے ہی بولے جاتے ہیں۔ مگر جب ایک بین الاقوامی پارٹی‘ ایک جہانی نظریہ و مسلک کو لے کر اٹھے۔۔۔ اور تمام قوموں کو انسانی حیثیت سے اس مسلک کی طرف بلائے۔۔۔ اور ہر قوم کے آدمیوں کو مساویانہ حیثیت سے پارٹی میں شریک کرے۔۔۔ اور محض مسلکِ مخالف کی حکومت کو مٹاکر اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے‘ تو ایسی حالت میں اصطلاحی ’’حملہ‘‘ اور اصطلاحی ’’مدافعت‘‘ کا قطعاً کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اصطلاح سے قطع نظر کرلی جائے‘ تب بھی ’’اسلامی جہاد‘‘ پر جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم منطبق نہیں ہوتی۔ ’’اسلامی جہاد‘‘ بیک وقت جارحانہ بھی ہے اور مدافعانہ بھی۔ جارحانہ اس لیے‘ کہ مسلم پارٹی مسلکِ مخالف کی حکمرانی پر حملہ کرتی ہے۔۔۔ اور مدافعانہ اس لیے کہ خود اپنے مسلک پر عامل ہونے کے لیے حکومت کی طاقت حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ ’’پارٹی‘‘ ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی گھر نہیں ہے‘ کہ وہ اسکی مدافعت کرے۔ اس کے پاس محض اپنے اصول ہیں‘ جنکی وہ حمایت کرتی ہے۔ اسی طرح وہ مخالف پارٹی کے گھر پر بھی حملہ نہیں کرتی‘ بلکہ اس کے اصولوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔۔۔ اور اس حملہ کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اس سے زبردستی اس کے اصول چھڑائے جائیں‘ بلکہ مدعا صرف یہ ہے کہ اس کے اصولوں سے حکومت کی طاقت چھین لی جائے۔

ذمیوں کی حیثیت:

یہیں سے یہ سوال بھی حل ہوجاتا ہے کہ کسی ملک پر اسلامی نظام کی حکومت قائم ہوجانے کی صورت میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہو گی‘ جو کسی دوسرے عقیدہ و مسلک کے متبع ہوں؟ اسلام کا جہاد لوگوں کے عقیدہ و مسلک‘ ان کے طریقِ عبادت اور قوانینِ معاشرت سے تعرض نہیں کرتا۔ وہ ان کو پوری آزادی دیتا ہے کہ جس عقیدہ پر چاہیں‘ قائم رہیں۔۔۔ اور جس مسلک پر چاہیں‘ چلیں۔ البتہ وہ ان کے اس حق کوتسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ ان کی خاطر کسی ایسے طریقے پر حکومت کا نظام چلایا جائے‘ جو اسلام کی نگاہ میں فاسد ہے۔ نیز وہ ان کے اس حق کو بھی نہیں مانتا کہ وہ معاملات کے اُن طریقوں کو اسلامی نظامِ حکومت میں جاری رکھیں‘ جو اسلام کے نزدیک اجتماعی فلاح کے لیے مہلک ہیں۔ مثلاً وہ حکومت کا نظام ہاتھ میں لیتے ہی سودی کاروبار کی تمام صورتوں کو مسدود کر دے گا۔۔۔ جوئے کی ہرگز اجازت نہ دے گا۔۔۔ خرید و فروخت اور مالی لین دین کی ان تمام شکلوں کو روک دے گا‘ جو اسلامی قانون میں حرام ہیں۔۔۔ قحبہ خانوں اور فواحش کے اڈوں کو کلیتہً بند کردے گا۔۔۔ غیر مسلم عورتوں کو ستر کے کم سے کم حدود کی پابندی پر مجبور کرے گا اور انھیں تَبَرُّجِ جاہلیہ کے ساتھ پھرنے سے روک دے گا۔۔۔ سینما پر احتساب قائم کرے گا۔ اس قسم کے اور بہت سے امور ہیں‘ جن میںایک اسلامی نظامِ حکومت نہ صرف اجتماعی فلاح و بہبود کی خاطر‘ بلکہ خود اپنے تحفظ (Self-Defence) کی خاطر بھی‘ اُن تمدنی معاملات کی اجازت نہ دے گا‘ جوغیرمسلموں کے مسلک میں چاہے جائز ہوں‘ مگر اسلام کی نگاہ میں موجبِ فساد و ہلاکت ہیں۔

اس باب میں اگر کوئی شخص اسلام پر ناروا داری کا الزام عائد کرے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے کسی انقلابی اور اصلاحی مسلک نے بھی دوسرے مسلک والوں کے ساتھ اتنی رواداری نہیں برتی ہے‘ جتنی اسلام برتتا ہے۔ دوسری جگہ تو آپ دیکھیں گے کہ غیر مسلک والوں کے لیے زندگی دوبھر کردی جاتی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ وہ وطن چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام غیر مسلک والوں کو پورے امن کے ساتھ ہر قسم کی ترقی کرنے کا موقع دیتا ہے۔۔۔ اور ان کے ساتھ ایسی فیاضی کا برتائو کرتا ہے‘ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

سامراجیت (IMPERIALISM) کا شبہ:

یہاں پہنچ کر مجھے پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں ’’جہاد‘‘ صرف وہی ہے جو محض فی سبیل اللہ ہو۔۔۔ اور اس جہاد کے نتیجہ میںجب اسلامی حکومت قائم ہو‘ تو مسلمانوں کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ قیصر و کِسریٰ کو ہٹا کر خود قیصر و کِسریٰ بن جائیں۔ مسلمان اس لیے نہیں لڑتا اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں لڑسکتا‘ کہ اس کی ذاتی حکومت قائم ہوجائے۔۔۔ اور وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنالے۔۔۔ اور ناجائز طور پر لوگوں کی گاڑھی محنتوں کا روپیہ وصول کرکے اپنے لیے زمین میں جنتیں بنانے لگے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں‘ بلکہ جہاد فی سبیل الطاغوت ہے اور ایسی حکومت کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام کا ’’جہاد‘‘ تو ایک خشک اور بے مُزد محنت ہے‘ جس میں جان و مال اور خواہشاتِ نفسانی کی قربانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ جہاد کامیاب ہو اور نتیجہ میں حکومت مل جائے‘ تو سچے مسلمان حکمراں پر ذمہ داریوں کا اس قدر بھاری بوجھ عائد ہوجاتا ہے کہ اس غریب کے لیے راتوں کی نیند اور دن کی آسائش تک حرام ہوجاتی ہے۔ مگر اس کے معاوضہ میں وہ حکومت و اقتدار کی ان لذتوں میںسے کوئی لذت حاصل نہیں کرسکتا‘ جن کی خاطر دنیا میںعموماً حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام کا فرماں روا نہ تو رعیت کے عام افراد سے ممتاز کوئی بالاتر ہستی ہے۔۔۔ نہ عظمت و رفعت کے تخت پر وہ بیٹھ سکتا ہے۔۔۔ نہ اپنے آگے کسی سے گردن جھکوا سکتا ہے۔۔۔ نہ قانونِ شریعت کے خلاف ایک پتہ ہلاسکتا ہے۔۔۔ نہ اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے کسی عزیز یا دوست یا خود اپنی ذات کو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ہستی کے جائز مطالبہ سے بچاسکے۔۔۔ نہ وہ حق کے خلاف ایک حَبّہ لے سکتا ہے اور نہ چپّہ بھر زمین پر قبضہ کرسکتا ہے۔۔۔ ایک متوسط درجہ کے مسلمان کو زندگی بسر کرنے کے لیے جتنی تنخواہ کافی ہوسکتی ہے‘ اس سے زیادہ بیت المال سے ایک پائی لینا بھی اس کے لیے حرام ہے۔ وہ غریب‘ نہ عالیشان قصر بنواسکتا ہے‘ نہ خدم و حشم رکھ سکتا ہے‘ نہ عیش و عشرت کے سامان فراہم کرسکتا ہے۔ اس پر ہروقت یہ خوف غالب رہتا ہے کہ ایک دن اس کے اعمال کا سخت حساب لیا جائے گا اور اگر حرام کا ایک پیسہ‘ جبر سے لی ہوئی زمین کا ایک چپّہ‘ تکبر و فرعونیت کا ایک شمّہ‘ ظلم و بے انصافی کا ایک دھبہ اور خواہشاتِ نفسانی کی بندگی کا ایک شائبہ بھی اس کے حساب میں نکل آیا‘ تو اسے سخت سزا بھگتنی پڑے گی۔ اگر کوئی شخص حقیقت میں دنیا کا لالچی ہو تو اس سے بڑا کوئی بے وقوف نہ ہوگا اگر وہ اسلامی قانون کے مطابق حکومت کا بار سنبھالنے پر آمادہ ہو۔ کیونکہ اسلامی حکومت کے فرماں روا سے تو بازار کے ایک معمولی دکاندار کی پوزیشن زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ وہ دن کو خلیفہ سے زیادہ کماتا ہے اور رات کو آرام سے پائوں پھیلاکر سوتا ہے۔ خلیفہ بے چارے کونہ اس کے برابر آمدنی نصیب اور نہ رات کو چین سے سونا ہی نصیب۔

یہ بنیادی فرق ہے‘ اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت کا۔ غیر اسلامی حکومت میں حکمران گروہ اپنی خداوندی قائم کرتا ہے اور اپنی ذات کے لیے ملک کے وسائل و ذرائع استعمال کرتا ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی حکومت میں حکمراں گروہ مجرد خدمت کرتا ہے اور عام باشندوں سے بڑھ کر اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل نہیں کرتا۔ اسلامی حکومت کی سول سروس کو جو تنخواہیں ملتی تھیں‘ ان کا تقابل آج کل یا خود اس دور کی امپیریلسٹ طاقتوں کی سول سروس کے مشاہروں سے کرکے دیکھئے۔۔۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کی جہاں کشائی اور امپیریل ازم کی عالمگیری میں روحی و جوہری فرق ہے۔ اسلامی حکومت میں خراسان‘ عراق‘ شام اور مصر کے گورنروں کی تنخواہیں‘ آپ کے معمولی انسپکٹروں کی تنخواہوں سے بھی کم تھیں۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ صرف سو روپے مہینہ کی تنخواہ پر اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتے تھے اور حضرت عمرؓ کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہ تھی‘ دراں حالے کہ بیت المال دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے خزانوں سے بھرپور ہورہا تھا۔ اگرچہ ظاہر میں امپیریل ازم بھی ملک فتح کرتا ہے اور اسلام بھی۔۔۔ مگر دونوں کے جوہر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

کَرگَس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور

یہ ہے اُس جہاد کی حقیقت‘ جس کے متعلق آپ بہت کچھ سنتے رہے ہیں۔ اب اگر آپ مجھ سے دریافت کریں کہ آج ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم جماعت‘‘ اور ’’جہاد‘‘کا وہ تصور‘ جو تم پیش کررہے ہو‘ کہاں غائب ہو گیا؟ اور کیوں دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں بھی اس کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا؟۔۔۔ تو میں عرض کروں گا کہ یہ سوال مجھ سے نہ کیجیے‘ بلکہ ان لوگوں سے کیجیے جنہوں نے مسلمانوں کی توجہ ان کے اصلی مشن سے ہٹا کر تعویذ‘ گنڈوں اور عملیات اور مراقبوں اور ریاضتوں کی طرف پھیر دی۔۔۔ جنہوں نے نجات‘ فلاح اور حصولِ مقاصد کے لیے شارٹ کٹ تجویز کیے‘ تاکہ مجاہدے اور جانفشانی کے بغیر سب کچھ تسبیح پھرانے یا کسی صاحبِ قبر کی عنایات حاصل کرلینے سے ہی میسر آجائے۔۔۔ جنہوں نے اسلام کے کلیات اور اصول و مقاصد کو لپیٹ کر تاریک گوشوں میں پھینک دیا اور مسلمانوں کے ذہن کو آمین بالجہر اور رَفع یَدین اور ایصالِ ثواب و زیارتِ قبور اور اسی قسم کے بے شمار جزئیات کی بحثوں میں ایسا پھنسایا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مقصدِ تخلیق کو اور اسلام کی حقیقت کو قطعی بھول گئے۔ اگر اس سے بھی آپ کی تشفی نہ ہو‘ تو پھر یہ سوال ان امراء اور احکام اور اصحابِ اقتدار کے سامنے پیش کیجیے‘ جو قرآن اور محمدﷺ پر ایمان لانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں‘ مگر قرآن کے قانون اور محمد رسول اللہﷺ کی ہدایت کا اس سے زیادہ کوئی حق اپنے اوپر تسلیم نہیں کرتے کہ کبھی ختم قرآن کرا دیں۔۔۔ اور کبھی عید میلاد کے جلسے کروا دیں۔۔۔ اور کبھی اللہ میاں کو نعوذ بااللہ ان کی شاعری کی داد دے دیا کریں۔ رہا اس قانون اور ہدایت کو عملاً نافذ کرنا‘ تو یہ حضرات اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔۔۔ کیونکہ درحقیقت اِن کا نفس اُن پابندیوں کو قبول کرنے اور اُن ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے‘ جو اسلام اِن پر عائد کرتا ہے۔ یہ بڑی سستی نجات کے طالب ہیں۔

(از رسالہ ترجمان القرآن ۔ ربیع الاول ۱۳۵۸؁ھ ۔ ۱۹۳۹؁ء)

مودودیؒ لٹریچر